بھنڈارا جزیرہ حصہ اول
انگریزی میں بھنڈارا جزیرے کو ’’بنڈل‘‘ کہا جاتا ہے اور جو اس کو بنڈل کہتے ہیں وہ انگریز نہیں ہیں۔
اٹھارہ فروری 1843ء جب چارلس نیپیئر نے میانی کے میدان میں سندھ کی فوج کو شکست دی تو کلکتہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہیڈ کوارٹر کو صرف ایک لفظ کا ٹیلیگرام کیا وہ لفظ کیا تھا! وہ تھا PECCAVI یہ لفظ لاطینی زبان کا تھا جس کا انگریزی میں مطلب ہے کہ"I have Sinned" یعنی میں نے ایک گناہ کیا ہے۔ یہ ایک فوجی آپریشن کا کوڈ تھا۔
ایک آزاد سندھ کا ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہتھے چڑھے ہوئے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا گیا۔ جب یہ خبر برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز اور ہاؤس آف کامنز تک پہنچی تو حزب اختلاف نے اعتراضات اٹھائے کہ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ ایک آزاد ملک کو فتح کیا گیا جب کہ برطانیہ کے مفادات کو اس سے کوئی خطرات لاحق نہیں اور آپریشن کا کوڈ ''میں نے ایک گناہ کیا'' رکھا گیا کیوں کہ sinned کے اندر وہی آواز گونجتی ہے، جو سندھ میں ہے۔
انگریزی میں بھنڈارا جزیرے کو ''بنڈل'' کہا جاتا ہے اور جو اس کو بنڈل کہتے ہیں وہ انگریز نہیں ہیں۔ اس دیس اور سندھ کے باشندے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اس جزیرے کو اسی نام سے پکارا جائے جو نام اس کا صدیوں سے ہے۔ جو نام وہاں اس جزیرے کے مقامی لوگ مانتے اور پکارتے ہیں۔ کچھ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمیں مقامی لوگوں بس نفرت کرنا سکھایا گیا ہو ۔ ویسے یہ کام نیا بھی نہیں ۔ ایسا ہی تو ہے جب انگریز نے آسٹریلیا فتح کیا تو وہاں کے مقامی لوگوں کا بھی اسی طرح استحصال کیا ۔ امریکا کے ریڈ انڈینز کے ساتھ کیا ہوا؟ ان مقامی لوگوں میں کتنے ہیرو اور کتنے شاعر تھے۔
ایک ہوشو شیدی تھا، جو دھابیجی کے میدان میں چارلس نیپیئر کی فوجوں کے ساتھ لڑتے لڑتے ''مرسوں مرسوں پر سندھ نہ ڈیسوں'' کی یلغار کرتے ہوئے اس آزاد سندھ کا علم اٹھائے جام شہادت نوش کرتا ہے۔ یہ یلغار بھی سندھی میں نہ تھی، نہ ہی ہو شو سندھی تھا۔ جب افریقہ کے بازار میں غلام بکتے تھے اور امریکا جیسے بیٹھکیت پرستوں نے ہزاروں کی تعداد میں ان غلاموں کی خریداری کی، اس وقت سندھ کے ٹالپر حکمران بھی وہاں ان غلاموں کو خریدنے گئے تھے۔
ہوشو شیدی بھی انھیں غلاموں میں سے ایک تھا۔ اس نے جس سرائیکی زبان میں انگریزوں پر یلغار کی وہ ٹالپر حکمرانوں کی زبان تھی جب کہ ٹالپر حکمران بھی سندھ کے مقامی نہ تھے وہ خود بھی ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ جب وہ سندھ کے حکمراں بنے تھے، اس وقت ان کی ہجرت کو ستر سال بھی نہ گزرے تھے۔ جب 1790میں انھوں نے عباسی حکمرانوں کو شکست دی اور حکمران بنے۔ انھوں نے سندھ فتح نہیں کیا تھا، وہ تب تک یہاں کے مقامی تھے۔ انھوں نے سندھ کو غلام نہیں بنایا تھا۔
بھگت سنگھ کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ ہیموں کالانی کا کیا حشر کیا ہم نے۔ جو انگریز سے لڑے ان کو ہم نے پاکستان کی تاریخ سے نکال باہر کیا اور ایک ایسے پاکستان کی تاریخ ترتیب دی جو غلامانہ سوچ کی یرغمال ہے۔ اس ملک کی ترتیب، بے ترتیب تب ہوئی جب غلام محمد پاکستان کے گورنر جنرل بنے تھے، عجیب منطق تھی کیا خواجہ ناظم الدین کی جو اس وقت پاکستان کے گورنر جنرل تھے اور لیاقت علی خان وزیر اعظم، اور جب لیاقت علی خان شہید ہوئے تو خود وزیر اعظم بن گئے اور غلام محمد جو وزیر خزانہ تھے انکو گورنر جنرل بنا دیا ان کو یہ گمان تھا کہ غلام محمد وزیر اعظم کا احترام کریگا مگر گورنر غلام محمد کی ٹریننگ انگریزوں کے افسر شاہی کے نظام میں ہوئی تھی، وہ مقامی انگریز ذہنیت والا انسان تھا اور ایسے کئی اور تھے جو بعد میں ایوب خان کی شکل میں ہم پر مسلط کیے گئے ۔
غلام محمد خوب جانتے تھے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 جو اس ملک کا آئین تھا تا وقت کہ نیا آئین دیا جائے اس ملک میں وزیر اعظم طاقتور نہیں بلکہ گورنر جنرل طاقت ور ترین شخصیت ہے۔ حقیقتاً ہوا کیا! !!! 1935 میں سندھ ایک خود مختار ریاست کی شکل میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت دوبارہ بحیثیت ریاست ہندوستان و برصغیر کے نقشے پر ابھرتا ہے۔ 1843 تک سندھ بحیثیت آزاد ریاست دنیا کے نقشے پر موجود تھی۔
1590 میں اسے اکبر بادشاہ نے فتح کیا تھا اور ریاست ِ ملتان کے گورنر کے سپرد کیا۔ پھر 1947 میں سندھ بطور خود مختار ریاست پاکستان کے نقشے پر ابھرا۔ یہ پاکستان کچھ اور نہیں بلکہ تئیس مارچ 1940 کی آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی قرارداد پاکستان کا تسلسل تھا۔ یہ اس قرارداد کا حصہ ہے جس کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بھی اپنی ججمنٹ میں تذکرہ کیا ہے کہ ریاست اور مذہب الگ الگ اس قرارداد کے متن میں موجود ہیں۔
1937 کے انتخابات میں نہ ہی مسلم لیگ جیتی تھی اور نہ ہی اس کی حیثیت تھی۔ اس کی حیثیت تب بنی جب محمد علی جناح نے ان کو جدا ریاست کا خواب دکھایا جہاں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ متحدہ ہندوستان میں صوبائی خودمختاری کے سب سے بڑے وکیل جناح تھے۔ نہرو اور پٹیل اس کے برخلاف تھے ۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935نے پہلی بار صوبائی خود مختاری کو مانا یہ کامیابی کسی اور کی نہیں جناح کی تھی۔ یہ کامیابی ان مذاکرات کا تسلسل تھی جو ہندوستان کی قیادت نے انگریز سامراج کے ساتھ کیے۔
سب سے پہلی قرارداد مسلمانوں کے آزاد وطن کی سندھ اسمبلی نے پاس کی۔ 1946 ریاستی انتخابات میں مسلم لیگ سندھ سے اکثریت حاصل کرتی ہے۔ اس تفصیل میں، میں زیادہ نہیں جانا چاہتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان غلام محمد کی مقامی انگریز ذہنیت میں الجھ گیا، ون یونٹ مسلط کیا گیا۔ (جاری ہے)