پاسپورٹ بحران پر کیسے قابو پایا گیا
ایجنٹ درخواست گزاروں سے بھاؤ طے کرتے جو پچّیس ہزار سے شروع ہوکر پچّاس ہزار تک پہنچ گیا۔
نیلامی میں حصّہ لینے والی دونوں فرموں کی قیمتِ فروخت میں فرق اتنا نمایاں تھاکہ وزارت ِ داخلہ کے افسران دستخط کرنے سے گھبرانے لگے،دوسری طرف اُوپر سے دباؤ تھا اس لیے معاملہ تاخیر کا شکار ہوتا گیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ لیمینیشن پیپر مکمل خاتمے کے قریب پہنچ گیااور پاسپورٹ بننے بند ہو گئے۔ایسی صورتِ حال میں جب کوئی ادارہ قریب المرگ ہو تو شیطانی قوتیّں (evil forces)گدِھوں کی طرح پہنچ جاتی ہیں، پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے گِدھ ایجنٹوں کی صورت میں متحّرک ہو گئے۔ پاسپورٹ کے دفتر کے باہر ایجنٹوں کی دکانیں کھل گئیں اور سرِ عام سودے ہونے لگے۔
ایجنٹ درخواست گزاروں سے بھاؤ طے کرتے جو پچّیس ہزار سے شروع ہوکر پچّا س ہزار تک پہنچ گیا۔ ضرورت مند بیچارے ایجنٹوں کو پیسے دیتے، ایجنٹ دفتر کے اعلیٰ حکّام سے مل کر محدود تعداد میں پاسپورٹ بنوا لیتے اور شام کو پاسپورٹ کے حکّام اور ایجنٹ دونوں اپنی جیبیں بھر کر جاتے۔ دوسری طرف لاکھو ں لوگ کئی مہینوں سے پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے مارے مارے پھررہے تھے۔ مال و زر کی ہوس میں گرفتار عناصر کو ملک کی بدنامی یا لوگوں کی پریشانی سے کوئی غرض نہ تھی۔ مافیاز توخود بحران پیدا کرتے ہیں اور پھر اس سے فیضیاب ہو تے ہیں۔ ہر بحران شیطانی قوتّوں کے لیے نفع بخش ہوتا ہے۔ Evil forcesکے لیے عوام کی پریشانی میں ہی opportunityہوتی ہے۔
2012کے وسط تک ایجنٹ مافیا پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کو مکمل طور پر ہائی جیک کر چکا تھا۔ یاد رہے کہ اب نگران حکومت بن چکی تھی۔نگران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ لگوانے میں آخری فیصلہ تو یقینا مقتدر قوتوں کاہوتا ہے، مگر تقررّی کے بعد نگران حضرات اپنی مرضی کے کچھ (تمام نہیں) وزیر لگوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
پنجاب میں ایک ریٹائرڈ پروفیسر صاحب جو ہر روز ٹی وی پر ایک پارٹی کے حق میں اور دوسری پارٹی کے خلاف لیکچر دیتے تھے اور جن کی ایک پارٹی کے لیے پسندید گی بڑی واضح تھی مگر پھر بھی انھوں نے غیر جانبداری کا چوغہ پہن لیا اور نگران وزیراعلیٰ بنکر عزّتِ سادات گنوانا قبول کر لیا۔ انھوں نے بھی اپنی نگرانی میں کابینہ میں اپنے کئی لوگوں کو وزارت کا ہُونٹا دلوا دیا۔
2013 کی نگران حکومت میںوزیرِ داخلہ کی تقررّی کا اعلان ہوا تو بہت سے لوگ حیران و پریشان رہ گئے۔ ان کی تقررّی کیسے ہوئی یہ بڑی دلچسپ داستان ہے جو پھر کبھی سہی۔ بہرحال میں یہ سمجھتا تھا کہ نگران وزیر سے میرا کرورا بالکل نہیں ملتا۔ لہٰذا ان کے ساتھ گذارہ مشکل ہو گا۔ وہ بھی دل میں تو مجھ سے عناد رکھتے تھے۔ مگر میڈیا کے سامنے یہ عناد چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔
صحافی ان سے جب بھی سوال کرتے کہ ''بطور وزیر ِداخلہ آپ یہ بحران حل کرنے کے سلسلے میں کیا کر رہے ہیں؟'' تو وہ جواب دیتے کہ ''یہ بحران حل کرنے کے لیے ہم نے بڑے دیانتدار اور قابل افسر کو اس محکمے کا سربراہ مقرر کیا ہے'' جب وہ میری تعیناتی کاکریڈٹ لیتے تو میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکتا۔ بہر حال ابھی کئی آزمائشیں پائپ لائن میں تھیں جو مسلسل چلی آ رہی تھیں، باضمیر سول سرونٹس یا د رکھیں کہ سرکا ری نوکری میں اپنی مرضی کا سازگار ماحول بہت کم ملتا ہے، زیادہ تر Hostile environment میں ہی کام کرنا پڑتا ہے۔
مجھے ذمّے داری سنبھالے ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ فون کے علاوہ تحریری حکمنامہ بھی موصول ہوا کہ '' کل سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہوں۔ اجلاس کا سب سے اہم ایجنڈا پوائنٹ پاسپورٹ بحران ہو گا'' ہم وقت سے پہلے پہنچ گئے۔ کمیٹی کی صدارت سینیٹر طلحہ محمود صاحب نے کی۔ ان کی دائیں جانب والی نشستوں پر سینیٹر صاحبان تشریف فرما تھے اور بائیں طرف سرکاری حکام، سیکریٹری اور محکموں کے سربراہ بیٹھے تھے۔
اجلاس شروع ہوتے ہی چیئر مین صاحب نے پاسپورٹ بحران کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ جناب اِس وقت تو میں کچھ بھی بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ ایک مہینے کے بعد ہی کچھ بتا سکوںگا، اِس پر سامنے بیٹھے ہوئے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر صاحب نے بڑے تحکمانہ اور توہین آمیز لہجے میں کہا ، ''کیوں نہیں بتا سکتے، اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں،آپ کوبتانا پڑے گا''۔ ایک دو اور لوگوں نے بھی ان کی تائید کی مگر ایم کیو ایم والے سینیٹر صاحب کا انداز بے حد توہین آمیز تھا۔
ان کے جارحانہ حملے حد سے بڑھنے لگے تو میں نے انھیں جواب دینے کا فیصلہ کر لیا۔ مائیک سامنے کرکے جب میں بولنے لگا تو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے مائیک پکڑ لیا اور مجھے کہا کہ میری درخواست ہے، آپ نہ بولیں، خوامخواہ تلخی بڑھے گی۔ ایک شناسا سینیٹر نے میرے ساتھ یہ سلوک ہوتے دیکھا تو انھوں نے کہا ''جنابِ چیئر مین ابھی تو ان کی تعیناتی کو چند دن ہوئے ہیں انھیں کچھ وقت ملنا چاہیے''۔ چیئرمین صاحب نے وقت دینے پر اتفاق کیا اور اس طرح کافی جلی کٹی سننے کے بعد ہمیں اجلاس سے واپس آنے کی اجازت دے دی گئی۔
مگر بات یہاں ختم نہیں ہوئی، وہ جیسے انگریزی میں کہتے ہیں کہAs if this was not enough ابھی کچھ اور امتحان باقی تھے۔ دوسرے روز دفتر پہنچا تو میز پر قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں حاضر ہونے کا پروانہ موجود تھا۔ وہاں بھی ایجنڈے کا آٹیم نمبر ایک 'پاسپورٹ بحران' ہی تھا۔ وہاں بھی سینیٹ کمیٹی سے ملتی جلتی کاروائی ہوئی۔ وہی سوال کہ '' یہ بحران کیوں پیدا ہوا؟'' اور ''یہ کب حل ہوگا''
''تم افسرلوگ کام تو کرتے نہیں ہو '' وغیرہ وغیرہ۔ میرا ردِّعمل وہی تھا کہ واں ایک خاشمی سی تھی سب کے جواب میں۔ دراصل میں ایسے اوپن اجلاس میں جس میں میڈیا کے نمایندے بھی موجود ہوں، بحران کی وجوہات، ا پنی حکمتِ عملی اور ایکشن پلان کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
بہرحال اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت کے بعد یہ محسوس ہوا کہ کچھ پارلیمنٹیرین تو بڑے منجھے ہوئے،تجربہ کار اور قابل ہیں جو متعّلقہ سبجیکٹ کے بارے میں پورا ادراک رکھتے ہیںاور تیّاری کر کے آتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو صرف سول سرونٹس کی توہین کر کے لذّت محسوس کرتے ہیں۔
بعض اوقات ایمانداری اور جوش سے کام لینے والے نوجوان افسر ایسے سلوک کے بعد بددل ہو جاتے ہیں ۔ میرا ان کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ ہر گز بددل نہ ہوا کریں اور اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے جوش و جذبے کے ساتھ جدوّجہد کرتے رہیں۔ جب آپ ہدف حاصل کرلیں گے تو عوام بھی اور آپ کے سینیئر ز بھی اس کا اعتراف کریں گے اور آپ کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے خود ہی شرمسار ہوںگے۔
اُن دنوں ہر دو چار روز کے بعد ایک پیشی آ جاتی تھی ۔پھر دو بے حد اہم پیشیاں آگئیں۔ایک روز دفتر پہنچا ہی تھا کہ صدرِ پاکستان کے ملٹری سیکریٹری کا فون آگیا، کہ کل آپ پاسپورٹ اِشو پر پریذیڈنٹ صاحب کو بریفنگ دیں گے۔ میں نے پوچھا کہ وزیرِ داخلہ اور سیکریٹری داخلہ کو بھی بلایا گیا ہوگا۔ملٹری سیکریٹری نے کہا نہیں صرف آپ کو بلایا ہے اور ون ٹو ون میٹنگ ہوگی۔ جس میںصرف آپ پریذیڈنٹ صاحب کو بریف کریں گے کہ یہ بحران کیسے اور کب حل ہو گا۔قارئین کو بتاتا چلوں کہ اُس وقت ملک کے صدر مکرّم و محترم جناب آصف علی زرداری تھے۔ قبلہ زرداری صاحب کے بارے میں سن تو بہت کچھ رکھّا تھا مگر ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی۔
دوسال قبل اسٹاف کالج کی طرف سے پریذیڈنسی کا حسبِ روایت دورہ ضرور ہوا تھا جس میں زرداری صاحب کے ساتھ مصافحہ ہو ااور ان کی مختصرسی لکھی ہوئی تقریر سنی تھی۔ مگر آج اُن سے پہلی میٹنگ ہونے جا رہی تھی۔ ذہن میں کئی سوال اُٹھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہو سکتا ہے ان کے وزیرِ داخلہ نے، جن کا نام پاسپورٹ بحران کے ذمّے داروں میں آ رہا تھا، زرداری صاحب سے میری شکایت کی ہو اور صدر صاحب نے ڈانٹ ڈپٹ کے لیے بلایا ہو۔
میں ایوانِ صدر جانے کے لیے اٹھنے لگا تو ایک مہربان سینئر بیورو کریٹ میرے دفترآگئے ، انھیں میری اگلی ملاقات کا علم ہوا تو مشورہ دیتے ہوئے کہنے لگے ''صدر صاحب کو گوجرانوالہ کے ضمنی الیکشن کے بارے میں بتا دینا کہ آپ کا امیدوار میری وجہ سے جیتا تھا، میں پولیس کو غیر جانبدار نہ رکھتا تو وہ ہار چکا تھا۔ یہ بتانے سے زرداری صاحب کا آپکے ساتھ comfort levelبڑھ جائے گا اور ملاقات خوشگوار رہے گی'' میںنے کہا '' میں نے جوکیا ایمان اور ضمیر کے مطابق اور قائدؒ کی ہدایات کے مطابق کیا تھا کسی پارٹی کو خوش کرنے کے لیے نہیں کیا تھا، میں اس کا کبھی ذکر نہیں کروںگا''
خیر مقّررہ وقت سے دس منٹ پہلے میں ایوانِ صدر پہنچ گیا، ان کا اسٹا ف مجھے ملٹری سیکریٹری کے دفترمیں لے گیا۔ بریگیڈیئر صاحب گرمجوشی سے ملے اور بتانے لگے کہ پورے ملک سے صدر صاحب کے پاس لیٹرز، میلز اور فون آتے ہیں کہ ہمارا پاسپورٹ بنوا دیں۔ باہر سے ہر روز سفیروں کے فون اور لیٹر زبھی آ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی جن کے پاسپورٹ نہیں بنے، سفارتخانوں میں آکر توڑپھوڑ کرتے ہیں اور میڈیا ایسی باتوں کو اچھال رہا ہے۔ اس لیے پریذیڈنٹ صاحب کو بڑی تشویش ہے اور وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ یہ مسئلہ کیسے حل کریں گے۔
ملٹری سیکریٹری نے مزید کہا کہ ''ہم آپ کی عمومی شہر ت کے بارے میں صدر صاحب کو بتا چکے ہیں، ضرورت تو نہیں مگر میں بھی میٹنگ میں ساتھ بیٹھ جاؤ،ںگا۔ ممکن ہے وہ کوئی چیز مجھ سے بھی پوچھ لیں ''۔ دس منٹ بعد ہم صدرِ پاکستان کے دفتر میں داخل ہو گئے۔ زرداری صاحب نے مصافحہ کر نے کے بعد مجھے ساتھ والے صوفے پر بیٹھنے کے لیے کہا،وہ صوفہ اور وہ نشست میرے لیے غیرمانوس نہیں تھی ۔ اس نشست پر میں پہلے بھی کئی بار (وسیم سجاد صاحب اور جسٹس محمد رفیق تارڑ صاحب کے دورِ صدارت میں) بیٹھ چکا تھا۔
(جاری ہے)