انتظامی جبر نہیں رسد وطلب کے توازن سے مہنگائی کا خاتمہ ہو گا

ضرورت طلب معاملہ مارکیٹ میں رسد وطلب، مقامی پیداوار، امپورٹ اورمنافع کی جائز شرح کومد نظر رکھ کرقیمتوں کا تعین کرناہے۔


رضوان آصف October 14, 2020
ضرورت طلب معاملہ مارکیٹ میں رسد وطلب، مقامی پیداوار، امپورٹ اورمنافع کی جائز شرح کومد نظر رکھ کرقیمتوں کا تعین کرناہے۔فوٹو : فائل

پاکستانی عوام اس وقت تاریخ کی بد ترین مہنگائی کے سونامی میں گھرے ہوئے ہیں، حکومت کی طے کردہ ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ اشیائے ضروریہ کی فہرست میں کوئی ایک شے بھی سرکاری نرخوں پر دستیاب نہیں بلکہ کچھ اشیاء کی زائد قیمت سے کہیں زیادہ پریشان کن معاملہ ان کی عدم دستیابی کا ہے۔

چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر سے مہنگائی کے خلاف ''اعلان جنگ'' کیا ہے، وفاقی وصوبائی حکومتیں روزانہ ''میٹنگ میٹنگ'' کھیل رہی ہیں، ٹریڈ یونیز کے ساتھ گرم سرد ملاقاتیں ہو رہی ہیں، پہلے ان کو دھمکی آمیز لہجے میں معنی خیز باتیں سنائی جاتی ہیں اور جب وہ آگے سے زمینی حقائق اور اعدادوشمار کے ساتھ حکومتی حماقتوں کا ذکر کرتے ہیں تو پھر سرکاری افسروں کا رویہ شہد آمیز اور گفتگو منت ترلوں بھری ہو جاتی ہے۔

چھوٹے افسر بڑے افسروں کو بریفنگز بنا کر دے رہے ہیں تو بڑے افسر ارباب اقتدار کے سامنے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن دیکر خود کو متحرک اور فعال ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود نہ تو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی آئی ہے اور نہ ہی ان کی دستیابی میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت بشمول بیوروکریسی مارکیٹ میکنزم اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی بنانے سے قاصر ہے یا پھر دانستہ طور پر حکومت کو مہنگائی کی دلدل میں کھینچا جا رہا ہے۔

گزشتہ دو برس میں پیدا ہونے والی مہنگائی بالخصوص رواں برس کورونا لاک ڈاون کے دوران مہنگائی کا اٹھنے والا سونامی اب اپنے عروج کو پہنچا ہوا ہے ۔ ویسے تو اشیائے ضروریہ تمام ہی مہنگی ہو چکی ہیں لیکن اصل بحران آٹا اور چینی کا ہے اور اس کے بعد دالوں، سبزیوں، پھلوں اور گوشت کی باری آتی ہے۔

سب سے پہلے آٹا بحران کی بات کریں تو اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں جن میں سے متعدد کا ذکر وزیر اعظم عمران خان کی بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بھی موجود ہے۔گزشتہ برس بھی آٹا بحران کا بنیادی سبب انتظامی یعنی سرکاری حکام کی ناقص منصوبہ بندی اور فیصلے تھے اور اس بار بھی وہی کچھ دہرایا گیا ہے۔ سب سے اہم گندم کی پیداوار کا متنازعہ تخمینہ ہے، کسان اور تاجر اس بات پر متفق ہیں کہ پنجاب میں 30 لاکھ ٹن کے لگ بھگ کم پیداوار ہوئی۔

جے آئی ٹی رپورٹ کو پکڑ کر رواں برس حکومت نے گندم خریداری مہم کے دوران فلور ملز اور نجی شعبہ کو گندم خریداری سے روک دیا، ماضی میں ہمیشہ ملوں اور نجی شعبہ کے پاس 15 تا18 لاکھ ٹن گندم موجود ہوتی تھی جو ماہ نومبر تک آٹا سپلائی میں معاون ہوتی تھی لیکن اس مرتبہ ملوں کے گودام خالی ہونے کے سبب ملکی تاریخ میں پہلی بار محکمہ خوراک کو گندم خریداری مہم بند کرتے ہی فلورملز کو سرکاری گندم کا اجراء شروع کرنا پڑا۔ یہاں پھر حکومت سے ایک بڑی غلطی ہوئی۔

محکمہ خوراک پنجاب نے اس وقت یہ تجویز دی تھی کہ سرکاری گندم کی اجرائی قیمت 1600 روپے فی من مقرر کی جائے اور بیس کلو آٹا تھیلا کی پرچون قیمت 925 روپے مقرر کردی جائے لیکن ایوان وزیر اعظم اور پنجاب کابینہ کے بعض ارکان کی سیاسی ضد کے پیش نظر اجرائی قیمت 1475 اور آٹا قیمت 860 روپے مقرر کرنے کا تباہ کن فیصلہ کیا گیا جو آج کے بحران کا مرکزی سبب بن چکا ہے۔ نجی شعبہ جو گندم امپورٹ کر رہا ہے وہ پنجاب پہنچ کر 2300 روپے فی من سے زائد لاگت میں آتی ہے جبکہ حکومت کی امپورٹ کردہ گندم 2500 روپے فی من کے لگ بھگ کاسٹ کرے گی۔ حکومت مارکیٹ کی طلب کے مطابق سرکاری گندم کوٹہ مہیا نہیں کر رہی جبکہ بہت سی فلورملز سرکاری گندم سے مقررہ مقدار میں 860 والا تھیلا تیار نہیں کر رہی ہیں۔

مارکیٹ میں آٹا ڈیلرز اور چھوٹے دکانداروں نے اپنی اندھیر نگری مچا رکھی ہے لیکن فی الوقت حکومت کا سارا ملبہ فلورملز پر گر رہا ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ کسی صنعت کو ہراساں کر کے یا گن پوائنٹ پر حکومتی خواہشات کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ حکومت سرکاری گندم کی اجرائی قیمت میں اضافہ کرے اورا سی تناسب سے آٹا قیمت کو بڑھائے۔

860 روپے میں آٹا بیچنے کے سیاسی مقاصد کامیاب نہیں ہو پائے بلکہ سیاسی طور پر تباہ کن ثابت ہوئے ہیں، اگر فلور ملز 15 کلو والا آٹا تھیلا مارکیٹ میں سپلائی نہ کر رہی ہوتیں تو صورتحال سڑکوں پر جلاو گھیراو تک پہنچ چکی ہوتی۔ حکومت اور فلورملز دونوں کو ہی اپنا قبلہ درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ چیئرمین پنجاب فلور ملز ایسوسی ایشن عاصم رضا نے گزشتہ دنوں فلورمل مالکان کی ہنگامی میٹنگ طلب کر کے کہہ دیا ہے کہ ''جاگتے رہنا، ہم پر نہ رہنا'' یعنی مل مالکان قانون اور قواعد کے مطابق مکمل ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ سرکاری گندم کی پسائی کر کے مقررہ مقدار میں آٹا سپلائی کریں اگر کوئی مل کرپشن میں ملوث ہوئی تو اس کا دفاع نہیں کیا جائے گا۔

چینی کا معاملہ بھی سیاست زدہ ہو چکا ہے، حکومت جہانگیر ترین کی سیاسی دشمنی اور اپنے بلند وبانگ غیر حقیقی دعووں کو پورا کرنے کی خاطر مارکیٹ میکنزم کو نظر انداز کر کے جبری طور پر من پسند قیمت پر چینی فروخت کروانا چاہتی ہے جو ممکن نہیں ہے۔

بہتر ہوگا کہ سیاسی عزائم کو پس پشت ڈال کر شوگر ملز ایسوسی ایشن کو ٹیبل پر مدعو کیا جائے اور لاگت کا غیر جانبدارانہ تعین کر کے قیمت مقرر کی جائے۔ سبزیوں پھلوں اور دالوں کی مہنگائی کا بنیادی سبب کمزور زرعی مارکیٹنگ نظام اور بے فائدہ پرائس کنٹرول میکنزم ہے لیکن موجودہ بحران میں اصل سبب وفاقی حکام کی جانب سے بعض فیصلوں میں ہفتوں کی بلا جواز تاخیر ہے۔

کوئی نہ پوچھے گا نہ کوئی بتائے گا کہ ایران سے ٹماٹر اور آلو کی امپورٹ کیوں بند کی گئی اور اسے کھولنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی، تفتان بارڈ پر کونسے کورنٹائن افسر امپورٹرز سے کیوں ''روٹھے'' ہوئے تھے۔ پنجاب کے وزیر صنعت میاں اسلم اقبال نے چند ماہ قبل بہت زبردست تجویز دی تھی کہ قیمتوں کی مانیٹرنگ کیلئے ایک مضبوط اور خودمختار پرائس کنٹرول اتھارٹی تشکیل دی جائے اور قوانین کو مزید سخت کیا جائے۔

اس وقت پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کے طور پر مختلف محکموں کے افسروں کو ''فٹیک'' ڈال دی جاتی ہے جو دلجمعی سے کام نہیں کرتے، میاں اسلم اقبال کی تجویز کے مطابق اگر یہ اتھارٹی بن جائے اور اس میں ایک مناسب تعداد میں افسروں کو تعینات کر کے ان سے صرف پرائس کنٹرولنگ کا کام لیا جائے تو نتائج بہت زبردست برآمد ہو سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کمیٹیوں کو انتظامی مدد فراہم کر کے فعال کیا جائے۔ مختصر الفاظ میں خلاصہ بیان کیا جائے تو موجودہ مہنگائی کا سبب زرعی پیداوار کے غلط تخمینہ جات، گندم خریداری اور اجرا ء کی غلط منصوبہ بندی، امپورٹ کے حوالے سے حکومتی تاخیر، وفاقی و صوبائی محکموں میں اعتماد اور رابطوں کا فقدان، انتظامی خامیاں، مارکیٹ میں رسد و طلب کو نظر انداز کر کے جبری طور پر سیاسی خواہشات و مقاصد کی تکمیل کی کوشش اور صنعتوں میں خوف وہراس پیدا کرنا ہے۔

اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو عوام کی دسترس میں رکھنے کیلئے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کا خاتمہ جتنا اہم ہے اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضرورت طلب معاملہ مارکیٹ میں رسد وطلب ، مقامی پیداوار، امپورٹ اور منافع کی جائز شرح کو مد نظر رکھ کر قیمتوں کا تعین کرنا ہے۔

وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ سینئر وزیر عبدالعلیم خان، وزیر صنعت میاں اسلم اقبال اور چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک بھی بہت محنت کر رہے ہیں لیکن اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ محکمانہ بیوروکریسی بالخصوص ڈپٹی کمشنرز اور ان کا سٹاف اپنی کارکردگی بنانے کے چکر میں انتظامی دہشت گردی سے باز رہیں کیونکہ جب انتظامیہ جبر سے کام لیتی ہے تو نہ انتظام بہتر ہوتا ہے اور نہ ہی کاروبار ٹھیک ہوتا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں