بنگالیوں کا قاتل کون
عبدالقادرملا کا جرم کیا تھا؟ اس نے وطن سے محبت کا اپنا فرض نبھایا اورمشکل وقت میں متحدہ پاکستان کی خاطرجدوجہد کرتا رہا
MUZAFFARABAD:
عبدالقادر ملا کو متحدہ پاکستان سے محبت اور وفاداری کی سزا دی گئی۔ عوامی لیگ کی سربراہ اور موجودہ بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنے دل میں عرصے سے پرورش پانے والی پاکستان سے نفرت کی آگ ایک بزرگ اور ضعیف العمر شخص کو مار کر ٹھنڈی کردی۔ عبدالقادر ملا کا جرم کیا تھا؟ اس نے وطن سے محبت کا اپنا فرض نبھایا اور ایک انتہائی کڑے اور مشکل وقت میں متحدہ پاکستان کی خاطر جدوجہد کرتا رہا۔ ہزاروں بنگالیوں کا قاتل وہ نہیں تھا۔ اس نے تو امن و آشتی کی بات کی تھی، بھائی چارے اور محبت کے ترانے گائے تھے، بنگالیوں کے حقوق کے لیے آخر دم تک لڑتا رہا۔
اس نے بنگلہ دیش سے کوئی غداری نہیں کی تھی۔ وہ تو اس سرزمین کا محافظ اور رکھوالا تھا جسے مشرقی پاکستان کے مقدس نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ وہ آج اس دنیا میں باقی نہ رہا لیکن اس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے پاکستان کے حقیقی وفاداروں میں اپنا نام لکھوا دیا۔ خود بنگلہ دیش میں اس کے چاہنے والے کم نہ تھے، اگر اس نے کوئی جرم کیا ہوتا تو لاکھوں لوگ یوں سراپا احتجاج بن کر ڈھاکا کی سڑکوں پر نہ نکل آتے۔ لیکن افسوس اور تف ہے ہمارے ان لوگوں پر جو اس محب وطن شخص پر تہمتیں اور الزام لگاتے ہوئے خود اپنے گریباں میں نہیں جھانکتے۔ سقوط ڈھاکا کی اصل حقیقت کیا تھی۔ زمینی حقائق کو جھٹلا کر اور عبدالقادر ملا پر الزام تراشیاں کرکے وہ شاید اپنی پارٹی کی قیادت کو اپنی وفاداری کا یقین تو دلا سکتے ہیں لیکن تاریخ میں درج تحریر کی سچائیوں کو مٹا نہیں سکتے۔
1970 کے انتخابات میں کامیاب ہونے والوں کو اقتدار نہیں سونپنے دیا گیا۔ 'اِدھر ہم اور اُدھر تم' کا نفرت انگیز نعرہ لگایا گیا۔ مجوزہ و قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کی غرض سے ڈھاکا جانے والوں کو ٹانگیں توڑے جانے کی دھمکیاں دیں اور 25 مارچ 1971ء کو شروع ہونے والے فوجی آپریشن پر اظہار اطمینان اور اظہار مسرت کیا گیا کہ چلو پاکستان بچ گیا۔ کیا آپریشن کی حمایت کر نے والے سیاستدان پاکستان کے دولخت کیے جانے کے اصل ذمے دار نہیں ہیں۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں سب کچھ درج ہے۔
الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو کس نے اقتدار میں آنے سے روکے رکھا؟ کون جنرل یحییٰ سے ساز باز کرکے اقتدار کی منتقلی میں روڑے اٹکاتا رہا اور کس نے بعد ازاں جنرل ٹکا کو اس کی کارروائیوں پر انعامات سے نوازتے ہوئے اپنی کابینہ میں اہم وزارت دی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چند رہنماؤں نے آج قومی اسمبلی میں عبدالقادر ملا کو ہزاروں بنگالیوں کا قاتل کہہ کر تاریخ میں دفن ان حقائق کو چھیڑا ہے جنھیں وقت کی دھول نے دھندلا دیا تھا لیکن جب سقوط ڈھاکا کے اصل ذمے دار ہی دروغ گوئی اور کذب بیانی کا سہارا لے کر عبدالقادر جیسے محب وطن افراد کومورد الزام ٹھہرانے لگیں تو ایسے میں خاموش رہنا ایک جرم بن جاتا ہے۔ قوم کے ان جوانوں کو جنہوں نے جنم ہی سقوط ڈھاکا کے بعد لیا ہے اس ملک کی تلخ حقیقتوں سے آگاہی اور روشناسی انتہائی ضروری ہے۔
مقام افسوس ہے ان لوگوں پر جو آج بھی سچ بولتے ہوئے بخل سے کام لے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملا عبدالقادر نے کسی ایک بنگالی کو بھی قتل نہیں کیا۔ اس کا پیغام تو امن و بھائی چارے کی پرورش اور فروغ تھا۔ وہ بنگالیوں کو ان کے احساس محرومی سے باہر نکالنا چاہتا تھا۔ وہ ان اسباب اور محرکات کا سدباب کرنا چاہتا تھاجس نے ایک ملک میں رہنے والے اسلامی بھائیوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اور کدورتیں بھر کے رکھ دی تھیں۔ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کے لوگوں کا مسلسل استحصال اور حق تلفی بالآخر ان کے علیحدگی پسند اور بغاوت جیسے رجحانات کی پرورش اور فروغ کا باعث بنا، جو 16 دسمبر 1971 کی شام وطن عزیز کے دولخت ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا۔
ہمارے یہاں کچھ لوگوں نے اس عظیم سانحے سے اب بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور معمولی معمولی باتوں پر باقی ماندہ پاکستان کی وحدت و سالمیت کے درپے ہوجاتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں عبدالقادر ملا کی پھانسی کے خلاف مذمتی قرارداد کی بھر پور مخالفت کرکے اپنے ان نظریات اور اصولوں کی ترجمانی کردی جنھیں وہ چار دہائیوں سے اپنے سینوں سے لگائے ہوئے ہے۔ لیکن اے این پی کو نہ معلوم کیا ہوگیا ہے، بس پیپلز پارٹی کے فیصلوں پر تائید و حمایت کی مہر ثبت کردینا ہی اس کا اصل کام رہ گیا ہے۔ سابقہ سیاسی دور نے انھیں پیپلز پارٹی کے اتنے قریب کردیا کہ باچاخان اور ولی خان کی پارٹی کے اصول اور نظریات نہ جانے کہاں چلے گئے۔ یہی حال کچھ ہمارے دوست اور مہربان جاوید ہاشمی کا ہے، جن کی زبان اب حق گوئی سے بھی محروم ہو چکی ہے۔
ملا عبدالقادر کی ناگہانی پھانسی پر انھیں سقوط ڈھاکا کی ساری حقیقت پارلیمنٹ کے گوش گزار کر دینی چاہیے تھی لیکن انھوں نے نجانے کیوں اس سے اجتناب کیا۔ ن لیگ سے ناراضی اور پیپلز پارٹی کی قربت نے ایک اصول پسند باغی رہنما کو کس قدر مصلحت پسند بنا دیا ہے کہ وہ جماعت اسلامی سے اپنی سابقہ وابستگی اور موجودہ نئی نئی دوستی کو بھی بھلا بیٹھے اور محض چند الفاظ میں اپنا مصلحت آمیز بیان داغ کر حق شناسائی اور وارفتگی ادا کردیا۔ عبدالقادر ملا پر بنگالیوں کا قاتل کہلانے پر بھی ان کے اندر کا ہاشمی نہیں جاگا اور وہ رسمی اظہار مذمت کرکے چپ سادھ گئے۔
ہزاروں بنگالیوں کا قاتل کون تھا، یہ کوئی ڈھکا چھپا معمہ نہیں ہے۔ جسے اب بھی کوئی شک و شبہ ہو وہ حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ دیکھ لے۔ حقیقت آئینے کی مانند کھل کر عیاں ہوجائے گی۔ قومی مصلحتوں اور وقت کی مجبوریوں کے سبب اگر آج سقوط ڈھاکا کے ذمے داروں کا تعین نہ ہو سکا اور انھیں قرار واقعی سزا نہ دی جاسکی تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ معصوم اور بے گناہ ہیں۔ وطن عزیز کو دولخت جنہوں نے کیا وہ سب کے سب اپنے انجام کو پہنچ چکے۔ اعتراف جرم ایک مشکل چیز ہے، اس کے لیے بڑے حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ لیکن اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال کر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا کسی طور ایک مستحسن اور جائز طریقہ نہیں مانا جاسکتا۔