پنشن ادائیگیوں کا ٹک ٹک کرتا بم

پنشن کی ادائیگیاں سالانہ قومی بجٹ کا بڑا حصہ نگل جاتی ہیں۔


اکرام سہگل October 17, 2020

رائے عامہ میں یہ بات رفتہ رفتہ نظر انداز کردی گئی ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پاکستانی معیشت کو کتنا نقصان پہنچایا۔ تحریک انصاف نے اس بارے میں حقائق آشکار کرنے میں تاخیر کی۔

یہ حکومت دیر سے ملک کے اقتصادی اور مالیاتی مسائل کی جانب متوجہ نہیں ہوئی اور دوسری جانب عالمی وبا نے عالمی معیشت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ قیمتوں کی نگرانی کے نظام میں ہونے والی غفلت کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ 2017-18میں جو شرح نمو 5اعشاریہ 6فی صد تھی وہ 2018-19میں 2اعشاریہ 4فی صد پر آگئی اور رواں مالی سال میں منفی 1اعشاریہ 5فی صد ہونے کی توقع ہے۔

آیندہ بجٹ بنانا انتہائی مشکل ہوگا کیوں کہ ایک بڑی تعداد میں افرادی قوت مشرق وسطی سے واپس آچکی ہوگی۔ اس کے نتیجے میں عارضی طور پر ترسیلات زر میں اضافہ ہوگا تاہم اگر اکاؤنٹس اور موبائل فون میں براہ راست رقم کی منتقلی کی ٹیکنالوجی کی راہ میں سرخ فیتہ حائل نہ ہو تو اس صورت حال کا بھی ازالہ ہوسکتا ہے۔ گندم ، کپاس اور سبزیوں کی کم پیداوار اور درآمدات کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے باعث پہلے ہی دشواری کا شکار ہماری برآمدات کو بھی آیندہ برس شدید دھچکا پہنچنے کا امکان ہے۔

مسائل کے غیر روایتی حل کی تلاش کرتے ہوئے اخراجات میں کمی وقت کی ضرورت ہے۔ پنشن ادائیگیوں کا بڑھتا ہوا حجم ہمارے بجٹ اخراجات کے لیے ٹک ٹک کرتا بم ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اگست میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے بجا اس کی نشان دہی کی ہے کہ اگر پنشن ادائیگیوں کا بڑھتا ہوا حجم ہمارا سب سے بڑا مالیاتی چیلنج ثابت ہوگا اور اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو ترقیاتی وسائل بھی اس کی نذر ہوجائیں گے۔ وفاق کی سالانہ پنشن ادائیگیاں 470ارب روپے تک پہنچ چکی ہیں ۔ وفاق اور صوبوں کی سطح پر تنخواہوں کی مدمیں سالانہ ادائیگیاں موجودہ مالیاتی حالات میں رفتہ رفتہ محال ہوتی جارہی ہیں۔

پنشن کی ادائیگیاں سالانہ قومی بجٹ کا بڑا حصہ نگل جاتی ہیں۔ پنشن فنڈ کو پائیدار بنانے کے لیے علیحدہ سے ایک تفصیلی جائزے کی ضرورت ہے۔ سروے کیا جائے تو انکشاف ہوگا کہ ''کمیوٹڈ پنشن'' لینے والوں کی بڑی تعداد اس رقم سے شادی کے اخراجات کرتی ہے یا پُرتعیش اشیا خرید لیتی ہے جب کہ دوسری جانب یہ بے روزگاروں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ ریاست ایسے افراد کو قبل از وقت سبکدوشی پر پنشن ادا کرتی ہے جن میں کام کرنے کی استعداد باقی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ قومی خزانے سے ادائیگی کرکے تربیت یافتہ اور منظم افرادی قوت کو گھر بٹھا دینا کون سی دانش مندی ہے۔

سویلین کمیوٹیشن کی صورت میں 72برس کی عمر میں جاکر پوری پنشن کے حق دار بنتے ہیں۔ قومی خزانہ ان کے 15سے 20سال تک یہ اخراجات برداشت کرتا ہے۔ ان چند مسائل کا حل ضرور ہونا چاہیے۔

سب سے پہلے تو اس کے نتیجے میں کمیوٹڈ پنشن کی صورت میں ریاست کے اخراجات میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے افراد کار کی مکمل صلاحیتوں سے استفادہ کیا جانا چاہیے جن کی تربیت پر کثیر مالی وسائل خرچ کیے گئے ہوں۔ تربیت پر آنے والی لاگت میں بچت کی جائے۔

جو لوگ 40سے 45برس کی عمر میں ترقی نہ ملنے کے باعث ملازمت سے سبکدوش ہورہے ہوں ان کو سول آرمڈ فورسز، پولیس/مجسٹریٹی، وزارت قانون اور تعلیم (خاص طور پر مشکل شعبوں کی اسامیوں) کے لیے بھیج کر ساٹھ سال کی عمر تک خدمات پوری کروانی چاہییں۔ اس افرادی قوت کو استعمال میں لاکر ہم قومی وسائل کی بڑی بچت کرسکتے ہیں۔

بچت کے ساتھ ساتھ سول سروس کے قواعد کے مطابق 60 سال تک کی عمر کے تمام افسران اور دیگر رینکس (جو اس آپشن کو منتخب کرتے ہیں) کو ملازمت کی ضمانت فراہم ہوجائے گی ہے۔ معیار میں بہتری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب یہ افرادی قوت استعمال میں لائی جائے گی تو ملک کے ہر شعبے میں تمام براہ راست بھرتیوں کو روکنا ہوگا۔ انھیں نچلی عدالتوں کے مجسٹریٹ اور جج کے طور پر بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

پولیس کا حکومت کے ذریعہ سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے پولیس اہلکاروں کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کریں۔ ہمارے تھانہ کلچر میں بے حسی دیکھتے ہوئے، کوئی بھی عام شخص تھانے کا رُخ نہیں کرتا۔ کسی خاتون کو شکایت درج کروانے کے لیے کسی تھانے بھیجنے کا تصور بھی محال لگتا ہے۔

پولیس کا رویہ اور کارکردگی عوام کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ شہری پولیس تھانوں کو جائے پناہ کے بجائے مقام وحشت سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے اہلکار یقینی طور پر تھانہ کلچر کو بدل دیں گے۔ احاطے میں 24 گھنٹے عدالتی مجسٹریٹ رہنا ضروری ہے۔

تھانے میں مجسٹریٹ / (نچلی عدالتوں میں) ججز اور چوبیس گھنٹے پوری نفری برقرار رکھنے کے لیے، ریٹائرڈ افسران جو قانون جانتے ہوں ، کی تعیناتی انتہائی مؤثر ثابت ہوگی۔ اس سے بہتر نتائج فراہم ہوں گے اور عدالتوں پر بوجھ کم ہوگا۔ زیر التوا مقدمات کی تعداد میں کمی آئے گی اور حکومت کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔

ریاست کو ان تجاویز سے یہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں (1) کمیوٹیشن کی ادائیگی میں تاخیر (ایک بہت بڑا بوجھ) اور تقریباً 15 سال تک بقیہ پنشن میں بہت بڑی رقم کی بچت ہوگی۔ یہ خاص طور پر اس وقت ملک کے لیے ایک بہت بڑا ریلیف ہوگا جب ہمیںایک ایک پیسے کی ضرورت ہے۔ (2) سی اے ایف ہیڈ کوارٹرز کے تحت سی اے ایف کے تمام شعبوں کے لیے ایک ٹریننگ سینٹر رکھنے سے ظاہر ہے کہ ریاست کو بڑی بچت ہوگی۔(3) ہر وقت سی اے ایف کو تربیت یافتہ / نظم و ضبط / تجربہ کار افرادی قوت کی مسلسل دستیابی ممکن ہوگی۔

(4) سابقہ افسران کو مجسٹریٹ / جج / اساتذہ کی حیثیت سے ایڈجسٹ کیا جاسکے گا اور پولیس اسٹیشنوں میں کام کرنے والے مجموعی طور پر مروجہ کلچر کو تبدیل کریں گے جو بالآخر ریاست کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔ (5)مجسٹریسی / جونیئر کورٹ کے ججوں میں کمی دور ہوجائے گی۔ (6) خاص طور پر دیہی علاقوں میں اسکول اساتذہ اور انتظامیہ کی کمی ہے۔ این سی اوز، جے سی اوز اور ضروری کورسز اور تربیت کے بعد افسران خاص طور پر اپنے گھر کے قریب ان جگہوں کو پُر کرسکتے ہیں۔

افراد کے لیے فوائد حسب ذیل ہیں (1) سول گورنمنٹ سرونٹس کی طرح ساٹھ سال کی خدمات کا ایک مکمل عرصہ انھیں ملازمت کا تحفظ فراہم کرے گا (2) سرکاری ملازمین کی طرح، وہ بھی اس وقت تک اپنی بنیادی پریشانیوں سے آزاد ہوں گے (3)دوسری نوکری کے لیے بھاگ دوڑ نہیں کرنا پڑے گی۔ نئے خیالات سوچنے والے افسران منقسم ہیں۔ تاہم اس جمود کو توڑنے کے لیے مشکل مگر مثبت فیصلے لینا ہوں گے۔ قومی ترقی کے لیے اس دشوار راستے سے ہمیں کبھی نہ کبھی گزرنا ہی ہو گا۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں