کورونا پاکستان سمیت چند ممالک میں روایتی طریقوں کی بھرمار

حکام نے کورونا کا توڑ پیش کرنے والے افراد کے خلاف آنکھیں بند کر رکھی ہیں


حفیظ تنیو October 20, 2020
مدافعت کا غلط احساس تمام حکومتی کوششوں کو ملیا ملیٹ کر سکتا ہے فوٹوفائل

دنیا بھر کے سائنس دان اور طبی ماہرین جہاں کورونا وائرس کا علاج دریافت کرنے میں دن رات کوشاں ہیں وہیں پاکستان اور چند ایک دیگر ممالک میں جھاڑ پھونک، نیم حکیم، اتائی اور دیگر روایتی طریق علاج کا دعوی کرنے والے افراد اس وائرس کا علاج پیش کر رہے ہیں۔

کورونا وائرس کے خلاف ویکسین ابھی عنقریب تیار ہوتی نظر نہیں آرہی تاہم مقامی حکام نے ان روایتی طریق علاج اور کورونا کا توڑ پیش کرنے والے افراد کے خلاف اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں اور ہزاروں افراد ان مشکوک علاج معالجے کی جانب مائل ہورہے ہیں تاکہ کورونا سے بچاجاسکے تاہم اس طرز عمل سے وہ مزید خطرات اور خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔

ابھی کورونا کی دوسری لہر شروع ہوئی ہے اور حفاظتی انتظامات اور اقدامات کیے جارہے ہیں تاہم ان متبادل طریق علاج کے نتیجے میں کورونا کے خلاف مدافعت کا جو غلط احساس پیدا ہورہا ہے وہ حکومتی تمام کوششوں کو ملیا ملیٹ کرسکتا ہے۔

ایک روحانی ماہر مولانا شبیر احمد چشتی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کا علاج انتہائی سادہ اور معقول ہے، چند کبوتروں کے پوٹھے لیں انھیں ابال لیں اور اس کا پانی دن دو بار استعمال کریں اس کے علاوہ سونٹھ، اور لموں چائے بھی ساتھ ساتھ پیتے رہیں، کورونا وائرس کا جڑ سے ختم ہوجائے گا۔

اسی طرح ایک حکیم صاحب عبد الرحمان جن کا اپنا یوٹیوب چینل بھی ہے ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو کورونا وائرس لگ جائے انہیں چاہئے کہ وہ نمک والے پانی سے غرارے کریں، گرم پانی پیئں اور گرم پانی سے غسل کریں۔ ان کا دعوی ہے کہ ان کے اس علاج سے ہزاروں مریض کورونا سے شفایاب ہوچکے ہیں۔

2014 میں سندھ اسمبلی نے ایک بل پاس کیا تھا جس میں سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے قیام کا اظہار کیا گیا تھا تاکہ صوبے سے اتائی اور جعلی معالجین کا خاتمہ ہوسکے اور عوام کو معیاری طبی سہولیات فراہم کی جاسکیں تاہم چھ سال گزرنے کے باوجود سندھ حکومت اب تک اس وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

جب اس کمیشن کے حوالے سے متعلقہ افسر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارا کام صرف صحت عامہ کی خدمات کی فراہمی اور اس کے معیار پر نظر رکھنا ہے اور نیم حکیم یا اتائیوں کے خلاف کاررورائی ہمارے کمیشن کے دائرہ اختیار نہیں آتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں