موبائل فوبیا یا نفسیاتی مسائل پشاور میں چند روز کے دوران 3 لڑکوں کی خودکشی

کم عمر بچوں میں خودکشی کے رجحانات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے، ماہرین نفسیات


رواں سال خیبر پختونخوا میں اب تک 46 کم عمر نوجوان اور لڑکیاں اقدام خودکشی کرچکی ہیں فوٹو: ایکسپریس

 

خیبر پختونخوا میں کم عمر نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان میں خطرناک اضافہ ہونے لگا ہے اور صوبائی دارالحکومت پشاور میں چند روز کے دوران 20 سال سے کم عمر کے تین نوجوانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔

14 ستمبر کو پشاور میں بیرون یکہ توت کے علاقہ لقمان آباد مہمند آباد میں ماں باپ کے اکلوتے لخت جگر محمد باسط نے گھر میں چھوٹی سی بات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے خودکشی کرلی، باسط والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، والدین بچے کی ہر خواہش پوری کرتے لیکن گھر میں معمولی سی بات پر باسط نے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔

اسی طرح ستمبر کے دوسرے ہفتے میں تھانہ یکہ توت کی حدود میں کوہاٹی گیٹ کے قریب نیشنل بینک کالونی کے سامنے گلی میں 16 سالہ اعزاز مہتاب نے خود کشی کر لی، اعزاز مہتاب کی خود کشی کی رپورٹ تھانہ یکہ توت میں درج کی گئی تاہم واقعہ کی اصل وجہ سامنے نہ آ سکی۔

گزشتہ ہفتے پشاور میں اندرون شہر کے علاقہ تحصیل میں 10 سالہ کم سن بچے کی گھر میں خودکشی کے واقعے نے بھی کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے، 10 سالہ سدیس ولد شاد محمد نے گھر میں والدین کی طرف سے غصہ کرنے پر خودکشی کرلی، اہل خانہ کے مطابق سدیس نے چھت پر چڑھ کر گلے میں رسی ڈال کر خودکشی کی۔

پشاور میں طویل عرصے سے ڈپریشن کے مریضوں کا علاج کرنے کرنیوالے ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد مفتی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کم عمر بچوں میں خودکشی کے رجحانات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے، والدین کا بچوں کو ٹائم نہ دینا، بچوں کا تنہائی میں رہنا، گھریلو جھگڑے، روز روز بچوں کو ڈانٹنا، امتحان میں نمبرز کم آنا اور غربت سمیت دیگر کئی وجوہات ہیں، سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے جس کو ہمارے ہاں کوئی بیماری ہی نہیں سمجھتا، وقت گزرنے کے ساتھ نوبت اقدام خودکشی تک آجاتی ہے، ڈاکٹر خالد مفتی کا کہنا تھا کہ بہت ضروری ہے کہ بچوں کے نفساتی مسائل پر قابو پانے کے لئے خاص میکینزم بنایا جائے، اسکولوں میں ٹیچرز کا روئیہ بھی بہت اثرانداز ہوتا ہے، جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچے بھی اقدام خودکشی تک پہنچ جاتے ہیں، والدین کا اس صورتحال میں بنیادی اور کلیدی کردار ہے، اچھی خوراک، ساز گار ماحول، روزمرہ زندگی میں ورزش نجات کا ذریعہ ہے۔

رواں سال 46 کم عمر نوجوانوں اور لڑکیوں کا اقدام خودکشی

خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے کم عمر نوجوانوں اور لڑکیوں نے نفسیاتی مسائل کے باعث اقدام خودکشی کئے جن کے علاج کیلئے پشاور کے نجی اسپتال سے رابطہ کیا گیا، متاثرہ نوجوانوں یا لڑکیوں کی عمریں 15 سے 20 سال کے درمیان تھیں، نجی ہسپتال کی رپورٹ کے مطابق پشاور، چترال، مردان، ضلع خیبر سمیت مختلف اضلاع سے اقدام خودکشی کے بعد علاج کے لئے لائے جانے والے افراد میں 60 سے 70 فیصد انڈر 20 لڑکیاں شامل تھیں، جن کا یہاں پر علاج کیا گیا، زیادہ تر کیسز میں والدین کے گھریلو جھگڑے، جنسی تشدد اور والدین کی جانب سے توجہ نہ ملنے کی وجوہات سامنے آئیں جب کہ رواں سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران اب تک 46 مریض آچکے ہیں جن میں سے 13 نوجوان بھی شامل ہیں جن کو ڈپریشن جیسی خطرناک بیماری لاحق تھی۔

دوسری جانب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق 15 تا 29 سال کی عمر کے افراد میں موت کی دوسری اہم وجہ ڈپریشن سمجھا جاتا ہے۔ خودکشی کے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق سال 2016ء کے دوران خودکشی کے 79 فیصد واقعات غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں پیش آئے۔ تاہم اسی سال پاکستان میں خودکشی کی شرح 100000 کی آبادی میں 1.4 فیصد رہی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے مطابق 2015ء میں خودکشی کے 1900 واقعات ریکارڈ کئے گئے تھے جبکہ 2016ء اور 2017ء میں یہ تعداد بڑھ کر بالترتیب 2300 اور 3500 تک جا پہنچی۔ ایچ آر سی پی کے مطابق خودکشی کے 90 فیصد واقعات کوئی نہ کوئی ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے پیش آئے۔

آن لائن گیمز بچوں اور نوجوانوں کی زندگی پر اثرانداز

آن لائن گیمز بھی پشاور میں نوجوانوں اور بچوں کی زندگی پر بری طرح متاثر ہونے لگی، پشاور کے سینئر ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد مفتی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ سال 16 سالہ لڑکا لایا گیا جس نے پپ جی گیم کے باعث خود کشی کی کوشش کی، اسے بری حالت میں کلینک لایا گیا اور کافی دن تک اس کا اسپتال میں علاج ہوتا رہا، چند روز پہلے پشاور سے ہی ایک دوسرا کیس سامنے آیا جس میں 12 سال کے طالب علم نے پپ جی گیم کھیلنے کے دوران اقدام خودکشی کرتے ہوئے بری طرح اپنے آپ کو زخمی کر دیا، اس کا علاج معالجہ اب بھی جاری ہے، امید ہے آئندہ کچھ مدت میں یہ بچہ واپس اپنی زندگی میں لوٹ آئے گا لیکن والدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسی سرگرمیوں سے دور رکھیں جن میں وہ انتہا کو پہنچ جائیں، بچوں کو جسمانی کھیل کود میں مصروف رکھنا زیادہ فائدہ مند ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔