پاکستان کا بدلتا ہوا سیاسی موسم

خان صاحب اس کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن کمبل انہیں نہیں چھوڑ رہا، یہیں سے سیاسی کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے


سالار سلیمان October 22, 2020
وزیراعظم کو اپنی ذاتی انا کے خول سے باہر آنا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD: پاکستان میں جہاں موسم تبدیل ہورہا ہے، وہیں سیاسی موسم بھی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ اپوزیشن نے اپنے الائنس پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے کا پہلا جلسہ گوجرانوالہ میں 16 اکتوبر کو ہوا اور ایک دن کے بعد 18 اکتوبر کو پی ڈی ایم نے کراچی میں میدان سجایا۔ اس دوران 17 اکتوبر کو حکومتی وزرا اور وزیراعظم نے 16 اکتوبر کے جلسے پر ردعمل دیا اور اب اس کے بعد بیان بازی جاری ہے۔

درحقیقت حکومت کو یہ یقین ہی نہیں تھا کہ اپوزیشن اتنے بڑے جلسے کرلے گی۔ ان کو یہی بتایا گیا تھا کہ نیچے سب خیر ہے اور عوام آپ کے بیانیے ''ساری اپوزیشن چور ہے'' پر ایمان رکھتی ہے۔ لیکن جب جلسہ ہوا تو حکومتی وزرا کے واٹس ایپ بھی بجنا شروع ہوئے، اُن کو ڈانٹ بھی پڑی۔ ان کےلیے دہری مشکل کھڑی ہوگئی۔ ایک جانب چینلز ان کو لائیو لے رہے تھے اور دوسری جانب انہوں نے صفائیاں بھی پیش کرنی تھیں۔ اُن کے ٹویٹس پڑھیں تو ان کی بے چینی اور خفت صاف واضح تھی۔ اگر فواد چوہدری خود کہتے ہیں کہ تعداد بیس ہزار تھی تو پھر یقین کرلینا چاہیے کہ گوجرانوالہ میں تعداد ساٹھ ہزار سے زیادہ تھی۔ سب سے زیادہ فرسٹریشن کا شکار البتہ شیخ رشید اور وزیراعظم نظر آئے۔ دونوں نے اگلے ہی دن منہ پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن کو ٹھیک ٹھاک دھمکیاں لگائی تھیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے متنازعہ خطاب پر بہت تبصرے ہوچکے لہٰذا ہم اس بات کو چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ بلاول، مریم اور مولانا نے اپنے اپنے خطاب میں حکومت کو آڑے ہاتھوں بھی لیا۔ یہی سب کچھ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا۔ کراچی کا جلسہ گوجرانوالہ سے بھی بڑا تھا۔ یہ شو بھی ایک لاکھ شرکاء کو چھو گیا تھا۔ تاہم یہاں پر معاملہ اس لیے تھوڑا سا پیچیدہ ہوا کہ مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر کو مزار قائد پر نعرے بازی کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور بعد میں رہا کیا گیا۔ لیکن اس سارے معاملے میں پیپلز پارٹی اور سندھ پولیس گندی ہوگئی۔ کیپٹن صفدر کا یہ عمل یقیناً غلط تھا۔ گرفتاری اور رہائی کے معاملے پر سندھ پولیس میں آئی جی سے لے کر دیگر افسران نے استعفے دیے اور بعد ازاں آرمی چیف کے نوٹس لینے اور اس سارے واقعے کے ذمے داران کے خلاف کارروائی کرنے کی یقین دہانی پر 10 روز کےلیے استعفے واپس بھی لے لیے۔ اب سیاسی افق پر ٹویٹ اور بیان بازیاں ہیں۔

حکومت سے کہاں غلطی ہوئی؟ حکومت نے گراؤنڈ رئیلیٹی کو سمجھنے میں شدید غلطی کردی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے عام انسان کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، وہی سوشل میڈیا جس کا اسحکومت کو بنانے میں بنیادی کردار تھا۔ عوام وہاں بغیر کسی سنسر کے کونٹینٹ پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔ اس کو کسی حد تک شعور آچکا ہے، اسی لیے خاں صاحب کو موقع ملا ہے۔ وزیراعظم جس بھی بات کا نوٹس لیتے ہیں، اُس کا اور زیادہ ستیاناس ہوجاتا ہے۔ تو کیا عام آدمی اس پر نہیں سوچتا ہوگا؟ یہ کہہ دینا کہ موجودہ حالات گزشتہ حکومتوں کی وجہ سے ہیں، مزید موثر رہا ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اس حکومت نے تقریباً اپنی آدھی مدت مکمل کرلی ہے اور کام کیا کیا ہے؟

جنرل مشرف کی حکومت کو اس مقام پر آنے میں 7 سال سے زائد کا عرصہ لگا تھا جبکہ موجودہ حکومت اپنی نالائقی کی وجہ سے اس مقام پر ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں آچکی ہے۔ خان صاحب اس کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن اب کمبل انہیں نہیں چھوڑ رہا اور یہیں سے سیاسی کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اگر موجودہ حکومت صرف مہنگائی کو کنٹرول کرتے ہوئے روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے تو پھر حالات اس کے قابو میں واپس چلے جائیں گے۔ لیکن کیا مہنگائی کنٹرول ہوگی؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ ہم اس وقت آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں اور آئی ایم ایف کے ہٹ مین ہماری اکانومی کی گاڑی کو چلا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کو ایک ٹکے کا فرق نہیں پڑتا کہ مہنگائی کہاں پہنچتی ہے۔ وہ بس یہ دیکھتے ہیں کہ ہم نے جو پیسہ دیا ہے، اس کی ریکوری کیسے ہونی ہے۔ اس ریکوری کو مائنڈ میں رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ مختلف اشیا پر لازمی سبسڈی تک ختم کی جاتی ہے تو نتیجے میں مہنگائی ہوتی ہے۔ اب ہم نے جنوری یا فروری میں اگلی قسط کےلیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے ہیں۔ لہٰذا جب تک آئی ایم ایف ہے، حکومت خواہش کے باوجود بھی مہنگائی کو کنٹرول نہیں کرسکے گی جو کہ ساری برائیوں کی جڑ ہے۔

جب مہنگائی بڑھے گی تو بیروزگاری بڑھے گی اور اگر مہنگائی اور بیروزگاری بڑھے گی تو ظاہر ہے کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ مہنگائی کے بڑھنے کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ جب مارکیٹ میں ایک حد سے زائد پیسہ موجود ہوتا ہے تو افراط زر ہوتا ہے۔ یعنی پرانے کرنسی نوٹ بھی مارکیٹ میں موجود ہوتے ہیں اور نئے کرنسی نوٹ بھی مارکیٹ میں آ جاتے ہیں۔ اب یہ اسٹیٹ بینک کی ذمے داری ہے کہ وہ جہاں نئے نوٹ مارکیٹ میں ڈال رہا ہے تو پرانے نوٹ اسی شرح سے نکالتا بھی جائے۔ جہاں یہ شرح خراب ہوتی ہے تو وہیں سے افراط زر کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اگر ایک دن معمولی سی شرح اوپر نیچے ہوجائے تو یہ اعشاریے اربوں کو چھوتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے موجودہ پالیسی ساز اور کرتا دھرتا کیا اس بات پر کسی بھی فورم پر جواب دیں گے؟

اگر جلسے جلوسوں سے حکومتیں نہیں جاتیں، بلکہ اب تو اکیسوی صدی میں دھرنوں سے بھی حکومتیں نہیں جاتی ہیں، تو جیسے یہ حکومت چلنا چاہ رہی ہے، ویسے حکومتیں چلتی بھی نہیں ہیں۔ جلسے جلوس پریشر ڈالنے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو تو باآسانی اِن ہاؤس تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن اپوزیشن ایسا چاہتی ہے؟ اس کا جواب آنے والے وقت یعنی مستقبل قریب میں واضح ہوجائے گا۔

حکومت کے پاس کیا آپشن ہے؟ موجودہ حالات میں ماسوائے اپوزیشن سے بات چیت کے اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ حکومت بالخصوص وزیراعظم کو اپنی ذاتی انا کے خول سے باہر آنا ہوگا۔ ''صرف میں ہی ایماندار اور باقی دنیا چور ہے'' والا منجن مزید بیچنا بند کرنا ہوگا۔ اس سودے کی کوالٹی بری طرح خراب ہوچکی ہے اور اب عوام اس پر یقین بھی نہیں کررہے ہیں بلکہ الٹا سوالات اٹھ رہے ہیں۔ صرف نتیجہ خیز مذاکرات ہی اس صورتحال کو ٹال سکتے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم کا وقار صاحب کو اپنا مشیر بنانا درست ہے لیکن اُن کو کام کرنے کی آزادی بھی دینی ہوگی تاکہ وہ جلد از جلد آئی ایم ایف کے پروگرام سے ملک کو نکال سکیں۔ اُن کے ماضی کے کریڈٹس بھی سب کے سامنے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگلے تین سال کی پلاننگ کرنا ہوگی کہ کیسے مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے، کیسے بیوروکریسی کو کام کرنے کا اعتماد دینا ہے اور کیسے مہنگائی سے ہی جڑے ہوئے دیگر عوامل کو بھی قابو میں رکھنا ہے۔ ورنہ، اپوزیشن تو میدان میں آ ہی چکی ہے، یہ دن بدن دباؤ بڑھائیں گے۔ ابھی ایک دو جلسوں نے ہی حکومتی صفوں میں انتہائی بے چینی پیدا کردی ہے تو اندازہ کیجیے کہ آئندہ کیا ہوسکتا ہے۔ جب بہت زیادہ دباؤ ہوجائے گا تو سوچیے، کیا اِن ہاؤس تبدیلی آنے کے امکانات روشن نہیں ہوجائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں