ماضی عبرتناک اور حال
16 دسمبر کیا آیا کہ بہت سی یادیں اور دکھ ذہن کے افق پر نمودار ہوگئے، محب وطن پاکستانیوں کے زخموں سے لہو رسنے لگا
16 دسمبر کیا آیا کہ بہت سی یادیں اور دکھ ذہن کے افق پر نمودار ہوگئے، محب وطن پاکستانیوں کے زخموں سے لہو رسنے لگا، دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، کس طرح اور کس گھناؤنی سازش کے تحت پاکستان کو دولخت کیا گیا، یہ غم اس وقت تک تازہ رہے گا جب تک کہ اپنا کھویا ہوا مقام واپس نہ مل جائے۔16 دسمبر تاریخ کے صفحات پر سیاہ دھبے کی مانند ہے، ساتھ میں مشرقی پاکستان کے مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے، اس قدر ظلم تو پاکستان بنتے وقت بھی نہیں ہوا ہوگا، جتنا کہ سانحہ مشرقی پاکستان میں کیا گیا، اور اب 42 سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر عبدالقادر ملا کو پھانسی پر چڑھا دیا۔
ان کا کیا قصور تھا؟ یہ کہ انھیں اپنے وطن سے محبت تھی، اپنی فوج کے خیر خواہ تھے۔ کیوں نہ ہوتے، مسلمان تھے، پاکستانی تھے۔ ہر جگہ میر و جعفر کا کردار ادا کرنے والے موجود ہوتے ہیں، ہمارے ملک میں بھی قدم قدم پر ایسے لوگ ملیں گے جو پاکستان کو تباہ حال دیکھنا چاہتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو ایک طرف ہندوستان کے خیر خواہ ہیں تو دوسری طرف بنگلہ دیش کی حکومت کو بھی شہ دینے میں پیش پیش ہیں۔ خود حسینہ واجد بھارت نواز ہیں۔ بھارت کو خوش کرنے کے لیے دیندار وطن سے محبت کرنے والوں پر ہر طریقے سے جور و جفا کرنے میں پیش پیش ہیں۔
اور جن علما اور محب وطن حضرات پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے ان کا یہ عمل مکتی باہنی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ماضی میں ہندوستان نے علیحدگی پسند جماعتوں کے ساتھ مل کر مکتی باہنی جیسی گھناؤنی جماعت بنائی تھی اور پھر ہندوستان نے اپنی فوج کو بڑی آسانی کے ساتھ مشرقی پاکستان میں پہنچا دیا، اس طرح پاکستان کو توڑنا آسان ترین ہوگیا۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی، انھوں نے کامیابی کے زعم میں آکر فرمایا کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے اور ہم نے دو قومی نظریے کو بھی بحیرہ عرب میں غرقاب کردیا ہے۔ اس کے بعد ان کے خاندان کا کیا انجام ہوا؟ پوری دنیا نے دیکھا کہ حسینہ واجد کے والد مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کی لاشیں سیڑھیوں پر پڑی رہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ملک نہیں ٹوٹا تھا تو سب لوگ پاکستانی ہی تھے اور پاکستان کو بچانے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کرنے میں حق بجانب تھے، یہ دینی فریضہ بھی تھا اور بھائی چارہ بھی، اپنے ملک کو مضبوط کرنا اور اپنے فوجی بھائیوں سے ہر طریقے سے تعاون کرنا غداری کے زمرے میں ہرگز نہیں آتا۔ عالم اسلام کو عبدالقادر ملا کی پھانسی کا بے حد افسوس ہے کہ بزرگی کے دنوں میں انھیں قید کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں اور تختہ دار پر بھی چڑھایا گیا۔ امت مسلمہ کے لیے یہ بے حد دکھ کی بات ہے کہ سزا کی عمل درآمد سے پہلے کسی نے خلوص دل سے کوششیں نہیں کیں اور ان کی شہادت کے بعد بہت سے دعوے سامنے آ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ عبدالقادر ملا کی پھانسی عظیم ظلم ہے، میری پاکستانیت کو شدید دھچکا لگا، میں سب سے پہلے مسلمان، پھر پاکستانی اس کے بعد کسی سیاسی پارٹی کا نمایندہ ہوں۔ اسی طرح کے اور بھی بیانات آ رہے ہیں لیکن پھانسی دینے سے قبل پاکستانی حکومت نے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے، جس وقت وہ وطن سے محبت کا دم بھر رہے تھے اس وقت وہ خود پاکستانی تھے، بنگلہ دیش تو بعد میں بنا بلکہ نظریاتی طور پر وہ تاحیات پاکستانی رہے۔ مشرقی پاکستان کا نام بدل گیا، حکومت بدل گئی اور ایک ملک میں سے دوسرا ملک وجود میں آگیا، محض غداری کے تحت اگر اس وقت کے حکمران پاکستان کو بچانے کے لیے کوششیں کرتے، خلوص نیت سے ایک دوسرے کو اقتدار منتقل کردیتے تو یہ حالات ہرگز نہ ہوتے، محلاتی سازشوں نے پاکستان کے عوام کو نہ کہ ذہنی اذیت پہنچائی بلکہ جسمانی تشدد بھی کیا گیا، مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کی تاریخ بربریت اور سفاکی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔
قلمکاروں و تخلیق کاروں نے آنکھوں دیکھا حال رقم کیا ہے۔ شعر و ادب کے ذریعے اس وقت کی درندگی کو تاریخ کے صفحات پر محفوظ کردیا گیا ہے، ایسے ہی خون آشام واقعات کے حوالے سے سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحوم نے کہا تھا کہ ''سانحہ کربلا کے بعد عالم اسلام کا یہ سب سے بڑا سانحہ ہے''۔ ایسے حالات کا منظرنامہ فرید شہزاد نے اپنی کتاب ''شہر زنداں'' میں دکھایا ہے کہ جب اسلامی مملکت کا ایک بازو کاٹ دیا گیا اور اس شکست فاش کی خبر بہاریوں کو ملی جوکہ وطن کی محبت میں سرشار تھے تو ان کے ہوش اڑ گئے اور مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ ہاتھی نے شیر کو روند ڈالا۔
اس لیے کہ فوج کے ہتھیار ڈالتے ہی وطن پرایا ہوگیا اور اب عزت و آبرو کی فکر دامن گیر تھی، بستی شہر خموشاں بن گئی تھی، فاتح فوج کے درندے بھوکے بھیڑیوں کی طرح بے خوف و خطر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے، عالمی نقشے سے مشرقی پاکستان مٹ چکا تھا۔ مکتی باہنی کے درندے محب وطن پاکستانیوں کو پکڑ پکڑ کر لاتے، قتل کرتے اور لاشیں جنگل میں پھینک دیتے، شہر کے ہر محلے میں قتل گاہیں بنادی گئی تھیں جہاں انسانیت سوز سلوک کیا جارہا تھا۔
کسی بھی ملک کے حکمرانوں کی مفاد پرستی، تعیشات زندگی، اقتدار کی ہوس کروڑوں انسانوں پر بربریت و درندگی کے در کھولتی ہے، ان کے حقوق کو غصب کرکے لیتی ہے، سانحہ مشرقی پاکستان میں یہی کچھ ہوا۔ عوام کو درندوں نے بھنبھوڑا، عورتوں کی عصمتوں کو تار تار کیا، سر راہ برہنہ کرکے ان کا جلوس نکالا، ان کی حرمت کو داغ داغ کیا اور پھر ان انسان نما جانوروں نے ان کی چیخوں اور آہ و بکا پر قہقہے بھی لگائے، جشن بھی منایا، جس حد تک وہ وحشیانہ سلوک کرسکتے تھے انھوں نے کیا۔ انھوں نے عام انسان کے ساتھ ہی یہ رویہ نہ رکھا بلکہ ہمارے عظیم فوجیوں، ملٹری کے افسروں اور ان کے خاندان کے ساتھ بھی شرمناک کھیل کھیلا گیا۔
اس وقت امت مسلمہ کا کوئی بھی حکمران مدد کو نہ پہنچا، سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جب اپنے ہی بیگانے ہوجائیں، خود محلوں میں بیٹھ کر بے بسی سے مرنے والوں کا تماشا دیکھیں، تو ان حالات میں دیار غیر سے کیونکر کوئی امداد کو آئے گا۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں پاکستانیوں خصوصاً اردو بولنے والوں کی کوئی ایسی بستی، اسپتال اور درسگاہیں نہیں بچی تھیں جہاں ظلم کا بازار نہ گرم کیا گیا ہو، بے شمار لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اور وہ بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ اب پاکستان کا نصف حصہ بچا ہے جوکہ ہمارا پیارا وطن پاکستان ہے، لیکن پاکستانی عوام کی کیا بدقسمتی ہے کہ ادھر بھی جائے امان نہیں۔
ہر جگہ قتل و غارت کی فضا پروان چڑھادی گئی ہے، کوئٹہ اور کراچی تو ہیں ہی قتل گاہیں جہاں ہر روز آٹھ، دس لوگ مار دیے جاتے ہیں، مذہبی و لسانی تعصبات عروج پر پہنچ چکے ہیں، ایسا ہی حال اب لاہور میں نظر آنے لگا ہے، وہاں بھی دہشت گردی شروع ہوچکی ہے ، ہر جگہ علما کو قتل کیا جارہا ہے، مساجد و امام بارگاہوں کو نشانہ بنانے والے اب انسانوں اور انسانیت کا قتل صبح و شام کر رہے ہیں۔ اس خونریزی میں پاکستان کے دشمن دیار غیر کی ایجنسیاں اور ان کے لوگ کام کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کی بنیادیں کمزور ترین ہوجائیں، جوکہ ہوچکی ہیں، حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اپنی کوشش سے ملک دشمن عناصر سے اس ملک کو پاک کردیں ورنہ تو۔۔۔۔۔! سب جانتے ہیں ملک کی گنگا کس سمت بہہ رہی ہے؟