جو کام بھی کیا اُلٹا ہی کیا
عالمی سیاست میں بھی دنیاکے تمام ممالک اب ہتھیاروں کی لڑائی اور جنگوں سے پرہیزکرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جو کام بھی کیا، اُلٹا ہی کیا۔کیپٹن(ر) صفدرکی جانب سے مزار پر نعرے لگانے کو صرف نظرکردیا جاتا تو کونسی قیامت آجانی تھی۔ مزارقائد پرسیاسی نعرے بازی کیا اِس سے پہلے نہیں ہوتی رہی۔ ایسی بھی کیاجلدی تھی کہ راتوں رات ایف آئی آڑکٹوانے اور انھیں گرفتارکروانے کے لیے حکومتی مشینری اِس طرح حرکت میں آگئی کہ سارا کام ہی بگاڑ دیا اور اپنے ساتھ ساتھ ملکی اداروں کو بھی رسوا اور بدنام کیا۔
پی ٹی آئی حکومت اِس سے پہلے بھی رانا ثناء اللہ کے قبضہ سے ہیروئن برآمد کرکے اچھی خاصی بدنامی اپنے لوگوں کے نام لکھوا چکی ہے۔ کم ازکم اِس بار تو سوچ سمجھ کے قدم اُٹھاناچاہیے تھا، وہ وفاقی وزیر جنھیں اپنی جان اللہ کو دینی تھی بلاوجہ ایک ادارے کے چیئرمین کو ساتھ ملاکے پریس کانفرنس کر بیٹھے۔ وہ نجانے اب اُس پندرہ کلو ہیروئن کو اب تک کیوں چھپائے بیٹھے ہیں جو انھوں نے راناثناء اللہ کی کار سے برآمد کی تھی۔
راناثناء اللہ کو اگر رگڑنا ہی تھا تو انھیں ماڈل ٹاؤن والے کیس ہی میں رگڑ دیتے۔ حالانکہ وہاں بھی مایوسی کے سوا انھیں کچھ حاصل نہیں ہونا تھا۔ ماڈل ٹاؤن واقعہ کے پیچھے چھپے رازوں پر سے ایک نہ ایک دن پردہ تو کھلنا ہی ہے۔ تین بار مختلف تحقیقاتی کمیشن بٹھائے گئے لیکن علامہ طاہرالقادری ایک کمیشن کے سامنے بھی پیش نہیںہوئے، لیکن جب رپورٹ تیار ہو گئی تو اُسے ماننے سے انکار ضرور کرتے رہے۔
یہ ایک ایسا سیاسی اسٹنٹ تھا، جس کے تانے بانے لانگ مارچ اور دھرنے سے پہلے مبینہ طور پر لندن میں تیار کیے گئے تھے۔ اپنے مارچ اور دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے یہ خوفناک کھیل کھیلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی تحقیقات میں کہیں یہ ثابت نہیں ہو پایا کہ یہ شہباز شریف کی حکومت کا کیا دھرا تھا، ورنہ اگر ایسا ہوتا تو پھرکیا وجہ ہے کہ موجودہ حکومت جو شریف فیملی کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑی ہوئی ہے اُس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے سے مسلسل کترا رہی ہے۔
اُس کے لیے تو بہت آسان تھاکہ میاں شہباز شریف کواِس کیس میں مجرم ثابت کرکے سولی پر لٹکا دیتی۔ اُسے صاف پانی اور دیگر کیسوں میں شہباز شریف کو ملوث کرنے کے کوئی جتن نہ کرنے پڑتے۔ لیکن اصل حقیقت کا علم تو اُسے بھی ہے کہ اگر اس کیس کو عدالت میں لے جایا گیا تو سارا معاملہ عوام کے سامنے کھل کر عیاں اور بے نقاب بھی ہو سکتا ہے اور فرد جرم شاید اپنے ہی خلاف عائد ہو جائے گی۔
سیاست میںکچھ معاملات ایسے ہوتے جس میں کسی الزام کو ثابت کرنا ہرگزمقصود نہیںہوتا، البتہ اُسے اپنے مکروہ اورگھناؤنے مقاصد کے لیے استعمال ضرورکیا جاتا ہے۔ 126دنوں تک کیاکچھ کذب بیانی کی گئی اورکتنے جھوٹ تراشے گئے کہ اگر اُن میں سے ایک بھی سچ ثابت ہو جاتا تو میاں صاحب آج اِس حکومت کے لیے اتنے پریشان کن نہ ہوتے اوروہ انھیں باآسانی اپنے راستے سے ہٹا سکتی تھی۔
سوچا جائے کہ آخر کیا وجہ ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) موجودہ حکومت کے لیے اِس قدر پریشانی کا باعث کیوںہے۔ حالانکہ اُس کی توکسی صوبے میں کوئی حکومت بھی نہیں ہے۔ جب کہ سندھ میںاُن کی مخالف ایک اور پارٹی کی حکومت بھی ہے مگروہ شایداُس سے اتنے پریشان بھی نہیںہیں۔ دراصل مسلم لیگ (ن) کا پنجاب میںووٹ بینک حکومت ِوقت کو پریشان کیے دے رہا ہے۔
تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود وہاںمسلم لیگ سے عوامی محبت کو ختم نہیںکیا جاسکا۔2018ء میں جس طرح اُسے وہاں حکومت بنانے سے روکاگیا وہ ہماری ہارس ٹریڈنگ والی سیاست کا ایک سیاہ باب ہے۔
بندے خریدکر، لالچ دیکر یادباؤ ڈال کرجس طرح سیاسی وفاداریاں بدلی گئیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیںہیں۔ خان صاحب کو حکومت دلانے والوں نے اُن کے لیے یہ آسانی بھی پیدا کر دی کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہونے کے باوجود اُسے وہاں حکومت بنانے سے مکمل طور پر روک دیا گیا۔ انھیں معلوم تھاکہ پنجاب کے بغیرخان صاحب ایک دن بھی چل نہیں پائیںگے۔ اب جب کہ تین صوبوں میں اُن کی حکومت ہے تو بھی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر پنجاب اُن کے ہاتھ سے نکل جاتا تو پھر وہ کہیں کے نہ رہتے۔
آئے دن کی محاذ آرائی اور انتشار سے کوئی حکومت اپناکام صحیح طور پر کر نہیں سکتی۔ پی ٹی آئی حکومت کو چاہیے کہ اپنی توجہ عوام کی خدمت پر مبذول رکھے اور دلجمعی سے لوگوں کے مسائل حل کرے اور بلاوجہ اپوزیشن سے الجھنے سے پرہیزکرے۔
مہنگائی پرقابو پائے اورعوام کو ریلیف فراہم کرے تو اپوزیشن کی ساری مہم اور طرم خانی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ یہ کہنا کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور سب کا حقہ پانی بندکر دوں گا۔ ایک سمجھدار اور سلجھے ہوئے وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔دنیا بھر میں کوئی وزیراعظم ایسی زبان استعمال نہیں کرتا۔ جب تک آپ اپوزیشن میں ہوں تو پھر بھی لوگ ایسی باتوں کو قبول کر لیتے ہیں ۔
لیکن وزیراعظم کی حیثیت میں خان صاحب کو دنگل اور فساد برپا کرنے والے رویوں سے اجتناب برتنا ہو گا۔ جس لب و لہجہ اور طرز تکلم سے آپ اپنے مخالفوں سے خطاب کریں گے دوسرے بھی اُسی لہجہ میں اگرجواب دیں گے تو پھر آپ کو برا لگے گا۔ اپوزیشن سے گتھم گتھا ہونے سے نقصان حکومت ہی کا ہوا کرتا ہے ۔اپوزیشن توہمیشہ ہی اس کی وصول کنندہ ہواکرتی ہے۔
عالمی سیاست میں بھی دنیاکے تمام ممالک اب ہتھیاروں کی لڑائی اور جنگوں سے پرہیزکرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ساری دنیا میں میعشت اور اکنامکس کی لڑائی لڑی جارہی ہے۔ جس کی معیشت اسٹرانگ ہو گی، وہی فاتح کہلائے گا۔ آپ بھی اپنی معیشت کو درست کرنے پر توجہ مرکوز رکھیں اور عوام کو راحت اور سہولتیںفراہم کریں تو بیرونی اور اندرونی دونوں محاذوں پریہ جنگ آپ خود بخود جیت جائیںگے۔