ملکی وحدت کا خیال رکھیں
آج کے پاکستان کا حالات کا نقشہ ابھی تک بدل نہیں سکا۔
بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر بلوچستان اور سندھ آپس میں متفق ہو گئے اور انھوں نے اپنا اپنا مفاداتی کھیل شروع کر دیا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ بھٹو صاحب کو ملک کے ٹوٹنے کا فرسٹ ہینڈ تجربہ تھا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن ملک بھر میں جلسے کر رہی ہے۔کوئٹہ میں اپوزیشن کے جلسے میں ایک رہنماء کے منہ سے جوش جذبات میں بلوچستان کی علیحدہ ریاست کا لفظ نکل گیا ، بعد میں انھوں نے اس کی وضاحت بھی کر دی ہے لیکن الفاظ جب منہ سے نکل جائیں تو وہ پرائے ہو جاتے ہیں اور رہنمائوں کے الفاظ توعوام کی امانت بن جاتے ہیں ۔ پاکستانی اتنے بالغ اور معاملہ فہم ضرور ہیں اور اتنی تربیت پا چکے ہیں کہ شر پسند عناصر اور غیر شرپسند عناصر وغیرہ کا فرق جان سکیں اور یہ طے کر سکیں کہ کون شر پسند ہے اور کون غیر شر پسند ہے ۔
اس فرق کو محسوس کرنے کا ایک موقع انھیں ماضی میں مل چکا ہے جس کے بعد وہ ایسے معاملات کی تشریح اور ان کی تہہ تک پہنچنے میں ماہر ہو گئے ہیں۔ انھیں تو اب یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان سے باہر کہاں کہاں شر پسندوں اور غیر شر پسندوں کے ہاں معرکہ برپا ہے۔ پاکستان کے ہمسائیہ ممالک اور مسلم ممالک میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح امریکا کی سر پرستی میں اسرائیل کے مفادات کے لیے عرب ملکوں کو اسرائیل کی قربت داری میں لایا جا رہا ہے وہ آج کی حقیقت ہے اور یہ سب کچھ مسلمانوں کے سامنے ہو رہا ہے اور ان حالات کے منظر اور پس منظر سے پاکستانی بھی خوب آگاہ ہیں اور انتظار میں ہیں کہ پاکستان کی باری کب آتی ہے۔
بلوچستان کی محرومی کارونا ہر دور میں رویا گیا ہے لیکن اب جب کہ ترقی کا ہر راستہ بلوچستان کی جانب جارہا ہے تو اس ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ اس راستے کو کھوٹا کرنے والے کون سے عناصر ہیں جو اس خطے کے سب سے بڑے منصوبے پاکستان چین اکنامک کوریڈور کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی ترقی کا یہ زندگی بخش منصوبہ نہ صرف بلوچی بھائیوں کے لیے خوشحالی کے دروازے کھولے گا بلکہ پاکستان کا معاشی مستقبل بھی اس اہم ترین منصوبے سے جڑا ہو اہے۔
ہماری حکومتوں کو شرپسند عناصر سے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، اس سے پہلے پاکستان کی ترقی کے منصوبے صرف اس وجہ سے ختم کیے جاتے رہے کہ کوئی ایک صوبہ دوسرے صوبے سے ناراض نہ ہو جائے لیکن سی پیک تو پاکستان کے چاروں صوبوں کی ترقی کا منصوبہ ہے اور اس پر پوری قوم متفق ہے لیکن کچھ شرپسند عناصر دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور بلوچستان کے سادہ لوح عوام کو اس منصوبے کے متعلق غلط معلومات فراہم کر کے اس کو متنارع بنانے کی کوششوں میں ہیں۔
ماضی میں ہماری حکومتوں نے بلوچی بھائیوں کو ناراض رکھنے میں کوئی کسریں باقی نہیں رکھیں۔ ہم نے بلوچستان کی متنارع شخصیات کو بھی ہیرو بنا دیا۔ سندھ کے بھٹو کے بعد بلوچستان میں اکبر بگٹی کی موت نے بلوچستان کی ناراضگی میں مزید اضافہ کیا اور پاکستان مخالف عناصر کو ایک اور موقع مل گیا کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو تیز کر سکیں۔ اس قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کو جب بھی کوئی کاری زخم کھانا پڑا تو ایک طرف سے کھانا پڑا۔
مشرقی پاکستان، بھٹو اور بگٹی کے سانحے کے وقت اقتدار فوج کے پاس تھا اور ہوس اقتدار کے سر کش گھوڑے پر سوار چند سیاستدان اس کے حاشیہ نشین تھے۔ یعنی ہر دور میں چاہے وہ فوج کا دور ہو یا سیاستدانوں کی نام نہاد جمہوری حکومتیں ہوں، ایک بڑی سیاسی منافقت ہمیں ہر طرف دکھائی دیتی رہی۔ دوسری طرف عوام ہیں جن کا بس صرف اپنے گریبان پر چلتا ہے اور وہ اپنے رہنمائوں کی منافقتوں کے ساتھ ان کے لیے اپنے گلے پھاڑ کر زندہ باد کے نعرے لگاتے رہتے ہیں۔
ہم صحافی جو نہ سیاستدان ہیں اور نہ ہی حکمران ہیں البتہ ان دونوں سے قربت رکھتے ہیں کہ ہمارا دال دلیہ انھی سے چلتا ہے اور ہمارا کام عوام کو حالات سے آگاہ رکھنا ہے کہ وہ خوشگوار ہیں یا سنگین ہیں ۔اپنی اس ذمے داری سے بعض اوقات ہم صحیح طریقے سے عہدہ برآء نہیں ہوتے۔ جب مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن شروع تھا تو یہاں مغربی پاکستان میں اس کی سنگینی کا احساس بہت ہی کم تھا اس لیے کہ ہم صحافیوں نے یہاں کے عوام کے سامنے اصل تصویر پیش نہیں کی تھی اور قوم صرف جنرل نیازی کی بڑھکوں پر نعر ے لگا رہی تھی۔
اس سانحے کے بعد اس وقت کی صحافیوں کی یونین جس کے ارکان کی تعداد کوئی دو ڈھائی سو تھی یونین کے دفتر میں ایک روز کسی صحافی نے کہا کہ اگر ہم میں سے آدھے بھی کسی نہ کسی طرح سچ کو پیش کر سکتے تو یہ سانحہ شاید نہ ہوتا اور مغربی پاکستان کی رائے عامہ حکمرانوں پر اثر انداز ہو جاتی۔
آج کے پاکستان کا حالات کا نقشہ ابھی تک بدل نہیں سکا۔ امریکا ہمارا دوست اپنی پرانی جگہ پرموجود ہے جو مڑ کر دوسری طرف دیکھ رہا ہے، بھارت ہے جو روز اول سے دشمن ہے اور افغانستان کے راستے بلوچستان میں سر گرم ہیں ۔ ہمارے سیاستدان ہیںجو ایک بار پھر اقتدار کے لالچ میں بے حس ہو چکے ہیں۔ اس سب کا علاج اگر کوئی ہے تو ملک کے حکمرانوں ، سیاسی رہنمائوں بشمول ملکی سلامتی کے اداروں کو اپنے مفادات کو بالاتر رکھ اورمصلحتوں سے نکل کر قومی سلامتی اور یکجہتی کو پروان چڑھانا ہے۔ ملک کے اقتدار اعلیٰ کی دوڑ میں شامل سیاسی رہنمائوں کی جانب سے قومی یکجہتی اور ملکی وحدت کا خیال نہ رکھنا افسوسناک ہے۔