دومینار
کسی نظارے سے متعلق غم یاخوشی کابنیادی تعلق اس بات سے ہوتاہےکہ اس کاناظرکون ہے اورکہاں سے یہ منظرکس عالم میں دیکھ رہاہے
مسعود مفتی دورِ حاضر کے میرے پسندیدہ ترین نثر نگاروں کی پہلی صف سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک خوبی جو انھیں باقی نثر نگاروں سے علیحدہ اور منفرد کرتی ہے کچھ یوں ہے کہ عام طور پر نثر نگار یا فکشن رائٹرز کا سب سے مضبوط پہلو اُن کا طرزِ نگارش ہوتا ہے کہ آپ اُن کی نثر کے جادو میں کھوجاتے ہیں مسعود مفتی بھی اس شرط کو پورا کرتے ہیں مگر اُن کے یہاں پہلا نمبر اُن کے موضوع یعنی Contentکو ملتاہے بالخصوص سقوطِ ڈھاکہ اور اُس سے متعلق تفصیلات کو جس خوبصورتی ، ایمانداری اوردرد مندی کے ساتھ انھوں نے قلمبند کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
کہتے ہیں کسی نظارے سے متعلق غم یا خوشی کا بنیادی تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کا ناظر کون ہے اور کہاں سے یہ منظر کس عالم میں دیکھ رہا ہے، مثال کے طور پر سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں وہ اُس وقت اپنی منصبی ذمے داریاں نبھانے کے لیے مشرقی پاکستان کے محکمہ تعلیم میں ایک کلیدی پوزیشن پر فائز تھے اور اس منظر کو صرف اپنے دفتر کی کھڑکی یا فائیو اسٹار ہوٹل ڈھاکہ کے اُس بڑے ہال میں بیٹھ کر ہی نہیں دیکھ رہے تھے۔
جہاں مختلف حوالوں سے اہم لوگوں کو ریڈ کراس کی تحویل میں رکھا گیا تھا بلکہ اُن کی دسترس میں وہ معلومات بھی تھیں جو صرف ایک خاص حلقے تک محدود تھیں، اس دوران میں اُنہوں نے اس وقت کے مشرقی پاکستانیوں اور بعد کے بنگلہ دیشیوں سے جو کچھ دیکھا، سُنا وہ یقیناً اُن جیسے ایک حساس دل رکھنے والے کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا کہ فیصلہ کرنے والے کہیں اور بیٹھے تھے اور وہ اُن کی بات سننے یا سمجھنے کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔
اس کے بعد یا اس کے نتیجے میں انھیں دو سال بھارت میں جنگی قیدی کی حیثیت سے رہنا پڑا اور واضح رہے کہ یہ سب کچھ اس دوران میں ہوا جب ابھی مفتی صاحب کی کل عمر چالیس سال سے بھی کم تھی۔عمر کے اس حصے میں ایسے خوفناک تجربات سے گزرنے کے بعد دنیا یا دنیا کی چیزوں اور معاملات کے بارے میں کسی کا خوش فکر یا پُر اُمید ہونا کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ آسانی سے نہیں کیا جا سکتا، سو ان تمام تحریروں میں ایک خاص طرح کی پژمردگی اور تڑپ کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جو بالآخر لہجے کی ایک ایسی تلخی میں ڈھلی جس کا احساس اُن کے پڑھنے والوں کو جگہ جگہ محسوس ہوتا ہے۔
کوئی دہ ماہ قبل جب مجھے اُن کی نئی کتاب ''دو مینار'' ملی تو میں ذہنی طور پر اس صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے بالکل تیار تھا مگر میری حیرت کی حد نہ رہی جب میں نے اس کتاب میں ایک مختلف مسعود مفتی کو دیکھا کہ غم ، مایوسی، فرسٹریشن، غصہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اُن کی تنقید کا انداز معروضی، محققانہ اور عالمانہ ہے جس کی ایک وجہ اس رپورتاژ میں جگہ جگہ خرابیوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کی خوشبو اور روشنی بھی ہو سکتی ہے کہ انھوں نے اپنی ذاتی زندگی (جسے انھوں نے پہلے مینار کا نام دیا ہے ) کی منزلوں سے تشکیل و تعمیر ِوطن (جسے انھوں نے دوسرے مینار کا نام دیا ہے) کے احوال کا جو نظارا کیا ہے۔
اُس میں اُن کے خیال میں ایوب خاں والے پہلے مارشل لاء تک کے گیارہ برس آئین قانون اور تنظیم کے حوالے سے حاکم طبقے اور بالخصوص سول انتظامیہ کی کارکردگی کے حوالے سے تمام تر مسائل کے باوجود بہت شاندار، تعمیر اور اُمید افزا تھے اور اگر انھیں اُسی طرح سے چلنے اور آگے بڑھنے دیا جاتا تو شائد آگے چل کر جو خرایباں پیدا ہوئیں وہ آدھی سے بھی کم رہ جاتیں۔
اس کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اس کتاب کے موضوع اور تاریخی عمل اور پسِ منظر کو سمجھنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر اُن دونوں بنیادوں کے وہ خدو خال واضح ہی نہیں ہو سکیں گے جنھیں دکھانے کے لیے یہ سارا تردد کیا گیا ہے۔ پہلے مینار یعنی مصنف کی ابتدائی زندگی اور اُس کے تجربات، مشاہدات اس وقت سے شروع ہوتے ہیں جب ابھی دوسرے مینار کی تعمیر تو کیا اس کے خیال، نظریئے یا طرزِ تعمیر کے بارے میں بھی ٹھیک سے بہت ہی کم لوگوں کو پتہ تھا، اس کو آپ 1934 سے چودہ اگست1947 تک کا زمانہ کہہ سکتے ہیں۔
اس دوران میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں تو سیکڑوں کتابوں کے ساتھ ساتھ کئی چشم دید گواہ بھی موجودہیں لیکن اس کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی نوعیت اور اہمیت کے بارے میں مجھے بہت کم اندازہ تھا اور وہ یہ کہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے ساتھ ساتھ ایک اور شخصیت یعنی علامہ عنائت اللہ مشرقی اور اُن کی خاکسار تحریک نے کیسی شاندار اور دُوررس خدمات اُس تحریک آزادی کو دی تھیں جو آگے چل کر قیامِ پاکستان پر منتج ہوئی ۔ مفتی صاحب نے جس وضاحت سے اس سارے عمل کا احاطہ کیا ہے اور انگریز کی اس چالاکی کی نشاندہی کی ہے کہ اُس نے کس طرح سے نہ صرف اس تحریک کا نام و نشان مٹا دیا۔
اس کے دُور رس اثرات کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ خود ہماری نسل کے ذہنوں میں یہ تحریک چند لطیفوں یا مزاحیہ واقعات کے حوالے سے پہنچی جب کہ بعد میں آنے والے تو اس کے وجود ہی سے بے خبر رہے، ان خاکساروں نے قربانی، تنظیم، انسانی مدد اور عزتِ نفس کے حوالے سے جو معیارات قائم کیے اور جن کا عملی مظاہرہ وہ تنظیم پر پابندی لگنے کے بعد بھی ہر امتحانی صورتِ حال میں کرتے رہے۔ وہ بلاشبہ ایسا ہے کہ اسے تاریخ و تعمیر پاکستان کے ایک اہم اور مضبوط پہلو کی صورت میں نہ صرف محفوظ کیا جائے بلکہ اس کو آج کے نوجوان تک بھی پہنچایا جائے ۔
اس کتاب میں یوں تو مسعود مفتی صاحب نے اپنی زندگی کی مینار کی آٹھویں سیڑھی یا منزل سے قومی زندگی کے مینار کی چھ منزلوں پر ہونے والی ہر کارروائی کو بہت دیانت داری سے بیان کیا ہے مگر اُن کا اصل ہدف سول سروس کا کردار ہے جسے اُن کے تجزیئے کے مطابق ایوب خان کے پہلے مارشل لاء سے لے کر اب تک کی ہر حکومت نے حسبِ توفیق پامال کیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اس کے ڈھانچے کو انگریز حاکم نے اپنا اقتدار قائم رکھنے اور اسے ہر طرح کی اندرونی شورشوں سے بچانے کے لیے بنایا تھا مگر یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ اعلیٰ صلاحیت اور تربیت کا معیار جو انھوں نے وضع کیا تھا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ قائداعظم اور اُن کے چند ایک رفقاء اس کی اہمیت اور صلاحیت سے بخوبی واقف تھے، اس لیے انھوں نے اسے نئے وطن کی تعمیر و تشکیل کے حوالے سے ایک مرکزی ادارے کے طور پر دیکھا اور اس کے تجربے سے فائدہ اُٹھانے کے لیے انھیں مکمل آزادی اور اختیار دیا اور امرِ واقعہ بھی یہی ہے کہ اِکا دُکا غلط مثالوں سے قطعِ نظر اس دور میں سب سے اچھی کارکردگی بھی انھی لوگوں کی رہی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر آنے والی حکومت نے اس پر قابو پانے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ اور بقول مفتی صاحب کے اس کے ابتدائی آثار ایوب خاں کے ان نوٹس میں ملتے ہیں جو انھوں نے 1954 میں اپنے لندن قیام کے دوران لکھے اور جس کی تقلید بعد کے سول حکمرانوں نے بھی کی، اس شاندار اور بے حد مفید ادارے کو جسے برباد کیا گیا، اس کی مثال کے لیے انھوں نے اس کتاب کے پہلے صفحے پر ایک قرآنی آیت درج کی ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔''اُس عورت کی طرح مت بنو جو اپنا سُوت کات کر پہلے تو اُسے پکا کرتی ہے اور پھر اُسے نوچ نوچ کر توڑ ڈالتی ہے۔''اس کی مزید وضاحت انھوں نے کتاب کے انتساب میں کچھ اس طرح سے کی ہے کہ ''اس مرحوم بیوروکریسی کے نام'' جس نے قائداعظم کے پاکستان کو پہلے گیارہ برس میں آسمان پر پہنچا دیا اور جسے انقلابی رہبروں نے اگلے ساڑھے تیرہ برس میں ہلاک کر دیا۔
تاریخ پیدائش 14 اگست1947
تاریخ وفات21 اپریل 1972''
ممکن ہے بعض قارئین کو اس کتاب کے کچھ مندرجات سے جزوی اختلاف ہو لیکن وہ اختلاف جو خیر کے لیے اورچیزوں کو ان کی صحیح جگہ پر رکھنے کے لیے کیا جائے ہمیشہ باعثِ رحمت ہوتا ہے۔ اگلے کالم میں میںاُن کی مزید آرا کو درج کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں جو میرے نزدیک غور اور فکر کا تقاضا کرتی ہیں۔