مزدوروں کی طبقاتی تقسیم
ہماری اشرافیہ کا عام آدمی کے حوالے سے یہ اعتراض ہے کہ عام آدمی جاہل ہوتا ہے۔
ہمارے ملک کے 22 کروڑ عوام میں مشکل سے دو فیصد ایسے لوگ ہوں گے جو طبقاتی نظام، طبقاتی تضادات، طبقاتی کردار اور سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں ''کچھ'' جانتے ہوں گے کہ یہ نظام کیسے آپریٹ کرتا ہے۔ اس نظام میں عوام کی محنت کی کمائی کن کن چینلوں سے اشرافیہ کے بینکوں میں جاتی ہے اور دولت پیدا کرنے والا مزدور کسان اور غریب طبقہ کس طرح اجرتی غلام بن کر رہ جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام سے پہلے جاگیردارانہ نظام ہمارے ملک میں نافذ رہا جو اب بھی سندھ اور جنوبی پنجاب میں موجود ہے جاگیردارانہ نظام استحصالی نظام کا ایک بدترین نظام ہے جس میں کسان اور ہاری کی قسمت ایک خریدے ہوئے غلام سے بدتر ہوتی ہے۔
اس حوالے سے ٹھیکیداری نظام صنعتی ایریاز میں آپریٹ کر رہا ہے صنعت کار اپنے کارندوں کو دیہی علاقوں میں بھیجتے ہیں اور یہ کارندے اچھی تنخواہ اور سہولتوں کا لالچ دے کر انھیں کراچی لاتے ہیں اور مالکان کی نگرانی میں دے دیتے ہیں۔ اب تو عالم یہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام میں کام کرنے والے مزدوروں کا صنعت کاروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مزدور کام تو صنعت کاروں کے کارخانوں، ملوں ہی میں کرتے ہیں لیکن ان کا تعلق صنعتکاروں سے قطعی نہیں ہوتا۔ ان مزدوروں کو ٹھیکے دار کی لیبر کہا جاتا ہے ٹھیکیدار ہی ان کے اپائنمنٹ آرڈر نکالتا ہے اور ان کے ڈسچارج آرڈر بھی وہی دیتا ہے حتیٰ کہ اجرتیں بھی ٹھیکیدار ہی دیتا ہے۔
ہماری اشرافیہ کا عام آدمی کے حوالے سے یہ اعتراض ہے کہ عام آدمی جاہل ہوتا ہے وہ نہ سیاست کو سمجھتا ہے نہ طبقات کے کردار کا اسے کچھ پتا ہے وہ بھلا ایم این اے اور ایم پی اے اور سینیٹر کیسے بن سکتا ہے؟
اشرافیہ کا یہ اعتراض بجا ہے لیکن 72 سال گزر جانے کے بعد بھی صورت حال جوں کی توں ہے عام آدمی کے اوپر نہ آنے کی کئی وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ غربت ہے ایک غریب جو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے دن بھر محنت کرتا ہے وہ سیاسی باضابطہ تعلیم کے لیے وقت کیسے نکال سکتا ہے غریبوں کی ان مجبوریوں نے انھیں معاشرتی غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا ہے، ہر جگہ عام انسان اجرتی غلام کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔
ہمارے کامریڈوں نے عوام کی طبقاتی تعلیم اور فرد اور معاشرے کا تعلق باہمی، غربت اور امارت کے علاوہ معاشرتی اور معاشی سیٹ اپ جیسے مسائل پر گفتگو کے لیے اسٹڈی سرکل کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا لیکن وہ چل نہیں پایا۔ یہ سلسلہ اتنا لوز اور غیر ریگولر تھا کہ اس میں شرکت کرنے والے اس میں وہ دلچسپی نہیں لیتے تھے جو انھیں لینا چاہیے تھا ،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ سلسلہ ایک رسمی ضرورت سے آگے نہ بڑھ سکا اور عام آدمی سیاست، انتخابات حکومت جیسے مسائل سے لاعلم ہی رہا جس کا فائدہ ہماری اقتداری اور سیاسی ایلیٹ ہی اٹھاتی رہی اور عام آدمی غلام بنا رہا۔پاکستان میں 22 کروڑ انسان رہتے ہیں جن میں 90 فیصد کا تعلق غریب طبقات سے ہے۔
ان کا سیاسی کردار بس اتنا ہے کہ وہ انتخابات کے موقع پر ایلیٹ سے تعلق رکھنے والے انتخابی امیدواروں کے لیے کنونسنگ کام کریں، امیدواروں کے پوسٹر لگائیں ،امیدواروں کے تعارفی پمفلٹ عوام میں گھر گھر جا کر بانٹیں، ایلیٹ کے اخباری بیانات میڈیا تک پہنچائیں اور ایلیٹ کے دوست احباب کے لیے کھانے پینے کا اہتمام کریں ، ہمارا غریب طبقہ اس سے آگے نہ جا سکا۔ ہمارے ملک میں سیاسی سیٹ اپ کا حال یہ ہے کہ بالادست طبقات نے جو ہماری کل آبادی کا بمشکل دو فیصد ہے عوام کی لوٹی ہوئی دولت کے کروڑوں روپے انتخابی مہم کے نام پر خرچ دیتا ہے۔
ایلیٹ کلاس اس حوالے سے عام طور پر یہی فلسفہ پیش کرتی ہے کہ وہ انتخابات میں اس لیے حصہ لے رہا ہے کہ عوام کے مسائل حل کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایلیٹ کے پیدا کردہ مسائل وہ خود کیسے حل کر سکتی ہے۔ اسٹڈی سرکل ساری دنیا میں موجود ہیں یہ سرکل صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ مذہبی جماعتوں تک ان کا سلسلہ دراز ہے اور وہ اپنے دین کے حوالے سے عوام کی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں اسٹڈی سرکل اصل میں بائیں بازو کی پہچان ہیں ایوب خان اور بھٹو کے دور تک تو یہ موجود بھی تھے اور فعال بھی لیکن یہ سلسلہ اب عملاً ختم ہو گیا ہے۔اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ملک میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف لڑائی بائیں بازو نے کی۔
مزدوروں میں کام کرنے کے شوق میں حیدرآباد کے ایک جاگیردار کے بیٹے حسن ناصر شہید کراچی آکر معین آباد لانڈھی کے کچی مٹی سے بنائے ہوئے ایک کمرے کے مکان میں محمد زبیر کے ساتھ رہنے لگے، غالبا 1960 میں ایوب خان نے انھیں گرفتار کرکے لاہور کے قلعہ میں بھیج دیا جو سرکاری یعنی حکومت کے تشدد کے حوالے سے بہت بدنام ہے حسن ناصر کو بھی لاہور کے قلعہ میں ڈال دیا گیا۔ جہاں انھیں بے پناہ تشدد کر کے شہید کردیا گیا۔
تو دوستو اس حوالے سے ایسی ایسی داستانیں موجود ہیں کہ اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ہم نے مزدوروں کی سیاسی تعلیم ، طبقاتی فکر کو تیز کرنے کے لیے یہ تجویز پیش کی ہے کہ سب سے پہلے ایک ایسی کتاب یا کتابچہ شایع کیا جائے جو سرمایہ دارانہ نظام کے آپریٹ کرنے کے طریقوں پر اور طبقاتی تضادات پر مشتمل ہو جسے اسٹڈی سرکلز میں پڑھایا جائے اس حوالے سے کوئی دوست آگے آنا چاہتے ہیں تو انھیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ خاص طور پر ٹریڈ یونینز میں کام کرنے والے دوست۔