ابھی صبر کے امتحاں اور بھی ہیں
امریکا سے معاہدے کے بعد اب مودی نے بھارتی زمین کو امریکا کے پاس گروی رکھ دی ہے۔
پاکستان کو پھر گرے لسٹ میں ہی رکھا گیا ہے جب کہ منگولیا اور آئس لینڈ کو گرے لسٹ سے نکال کر سرخرو کردیا گیا ہے، حالانکہ پاکستان نے ان دونوں ممالک سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے صدر ڈاکٹر مارکس پلیئر بھی پاکستان کی کارکردگی کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے، اگر مسئلہ صرف چھ نکات کا ہے کہ وہ ابھی پاکستان نے پورے نہیں کیے ہیں مگر ان چھ نکات پر جزوی طور پر کام کیے جانے کے باوجود بھی منفی رویہ اختیار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے جب کہ پاکستان نے بقیہ چھ نکات کو پورا کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اس کی نیت میں ذرا فطور نہیں ہے وہ چھ نکات پورا کرنے میں خود اپنی بہتری خیال کرتا ہے مگر اصل فطور ایف اے ٹی ایف کے کرتا دھرتا ممالک کا ہے جو اپنے اشاروں پر نہ چلنے والے ممالک کو سزا دینا چاہتے ہیں۔
پھر چونکہ بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کو اس جال میں پھنسایا ہے چنانچہ وہ اپنے چہیتوں کے شکار کو بھلا کیوں کر اس جال سے جلد باہر نکلنے دیں گے۔ اب پاکستان فروری 2021 تک گرے لسٹ میں ہی رہے گا اور اس کے بعد باقی چھ نکات پر کام مکمل ہونے کے بعد بھی ایف اے ٹی ایف کے صدر خود ایک ٹیم کے ساتھ پاکستان کا دورہ کریں گے اور یہاں آکر جائزہ لیں گے کہ پاکستان نے جن نکات کو پورا کرنے کا دعویٰ کیا ہے کیا واقعی اس کا دعویٰ درست ہے؟ اب اگر پاکستان دشمنی یوں ہی قائم رہی تو پاکستان کی جانب سے سب کچھ اطمینان بخش کرنے کے باوجود بھی کوئی خامی نکالی جاسکتی ہے اور پاکستان کو پھر بدستور گرے لسٹ میں رکھا جاسکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے ذریعے بلیک منی روکنے اور دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر مغربی ممالک نے اپنے نافرمان ممالک کو سزا دینے کا یہ نادر طریقہ ایجاد کرلیا ہے اور جو ممالک ان کی گڈ بک میں ہیں وہ خواہ کتنے ہی کرپٹ ہوں یا کتنی ہی منی لانڈرنگ اور اس کا براہ راست تعلق دہشت گردی کو بڑھانے سے ہو مگر انھیں کچھ نہیں کہا جاتا۔ اب جیسے کہ بھارت دنیا کا بدنام ترین ملک ہے وہاں جتنی منی لانڈرنگ ہوتی ہے دنیا میں کہیں نہیں ہوتی پھر اب تو خود امریکی حکومت نے اپنی ایک رپورٹ میں بھارت کے چوالیس بینکوں کو منی لانڈرنگ میں ملوث قرار دیا ہے۔
حالانکہ اس بات کا اب انکشاف کیا گیا ہے مگر کیا امریکی حکومت کو بھارت کی اس برائی کا پہلے سے علم نہیں تھا تو اس کے خلاف پہلے ہی کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور اب انکشاف کے بعد بھی لگتا ہے بھارت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اس لیے کہ بھارت مغربی ممالک کا منظور نظر ہے وہ کچھ بھی کرے انھیں منظور ہے۔ پاکستان کے خلاف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کا کیس ایف اے ٹی ایف لے جانے والا بھارت ہے۔ پاکستان پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام بھارت کی اپنی اختراع ہے جسے وہ پاکستان کو کشمیر کے مسئلے سے دور ہٹانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کے پاکستان پر لگائے گئے تمام ہی دہشت گردی کے الزامات ممبئی حملے سے لے کر پٹھان کوٹ تک سب غلط ثابت ہوچکے ہیں۔
ایک جرمن دانشور اور مصنف Elias Davidson نے ممبئی حملے پر The Betryal Indiaنامی تحقیقی کتاب تصنیف کی ہے جس میں ممبئی حملے کو بھارت کا اپنا خود ساختہ ڈرامہ ثابت کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں اجمل قصاب پر چلائے گئے مقدمے میں بھارتی جھوٹے دستاویز کی مکمل تفصیل پیش کی گئی ہے۔ بھارتی حکومت نے پاکستانی حکام کو اجمل قصاب سے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی کہ کہیں جھوٹ کا پول نہ کھل جائے۔ افسوس کہ ہماری اس وقت کی حکومت اس جھوٹ کو امریکی دباؤ کی وجہ سے سچ ماننے پر مجبور ہوگئی تھی اور یوں پاکستان کو دائمی مصیبت کی دلدل میں پھنسانے کا باعث بن گئی تھی۔
ایف اے ٹی ایف کا ادارہ اگر اتنا ہی ایماندار اور غیر جانب دار ہے تو اس نے بھارت میں بڑے پیمانے پر ہونے والی منی لانڈرنگ اور جس کا براہ راست تعلق پاکستان اور افغانستان میں موجود دہشتگردوں کی مالی معاونت سے ہے کے خلاف اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ اس کی وجہ صاف ہے کہ وہ مغربی ممالک کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے۔ اب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے جال سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے بقیہ چھ نکات کو پورا کرنے کے لیے پوری تندہی اور لگن سے کام کرنا ہوگا۔ اس کام کے لیے اگرچہ وقت بہت کم ہے مگر جب کورونا کی مشکلات کے باوجود پاکستان نے ایک سال میں اکیس پوائنٹس کو پورا کرلیا ہے تو پھر صرف چھ پوائنٹس کا چار ماہ میں مکمل کرنا قطعی مشکل کام نہیں ہے۔
مودی کی جانب سے بھارتی آئین کی شق 370 ہٹانے کے بعد بھارت نواز کشمیری رہنما بھی بھارت کے سخت خلاف ہوگئے ہیں۔ انھوں نے بھارتی ترنگے کو کچرے میں ڈال دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اب وادی میں کبھی بھارتی ترنگے کو لہرانے نہیں دیا جائے گا۔ فاروق عبداللہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ خود کو اب بھارتی کہلانا اپنی توہین خیال کرتے ہیں وہ اب بھارت کے بجائے چین کا شہری بننا پسند کریں گے۔
محبوبہ مفتی نے بھی فاروق عبداللہ کی طرح چینی حکومت سے براہ راست درخواست کی ہے کہ وہ کشمیر کو اپنے قبضے میں لے لے۔ مودی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کو بہت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ چین کے لداخ کے ایک بڑے حصے پر قبضے کے بعد اب مقبوضہ وادی چین کی پہنچ سے زیادہ دور نہیں رہی ہے۔ پاکستان نے کشمیریوں کی آزادی کے لیے جو کچھ کیا ہے اور کر رہا ہے کشمیری اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ پاکستان کے احسان مند ہیں اور کیوں نہ ہوں اس لیے کہ پاکستان نے ان کی آزادی کے لیے خود اپنے وجود کی پرواہ نہیں کی۔ بھارت جیسی بڑی طاقت سے کشمیریوں کی خاطر تین جنگیں لڑیں۔
حال ہی میں اجیت ڈوبھال نے پاکستان اور چین کو دھمکیاں دی ہیں کہ وہ اب اپنی سرزمین پر دشمنوں کے قبضے کو ختم ہی نہیں کرائیں گے بلکہ اپنے حریف ممالک کی سرزمین کے اندر جا کر لڑیں گے۔ ڈوبھال نے یہ گیدڑ بھبکی دراصل بھارت کا امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہونے کی خوشی میں دی ہے۔ ڈوبھال یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد امریکا بھارت کے دفاع میں لڑے گا مگر یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ امریکا بھارت کو اپنا جدید اسلحہ فروخت ضرور کرے گا مگر جنگ بھارتی فوجیوں کو ہی لڑنا ہوگی اور اگر بھارتی فوج اتنی ہی بہادر ہوتی تو چین لداخ میں اس کی ہزاروں مربع کلو میٹر زمین پر قبضہ نہ کر پاتا۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا سے معاہدے کے بعد اب مودی نے بھارتی زمین کو امریکا کے پاس گروی رکھ دی ہے۔ کیونکہ اب بھارت کے تمام ایئرپورٹس اور سی پورٹس امریکا کی دسترس میں آگئے ہیں وہ انھیں بھارت کے دفاع سے زیادہ اپنے مفاد میں استعمال کرسکے گا۔ لگتا ہے مودی اپنے موجودہ پانچ سال مکمل ہونے تک بھارت کا چہرہ ایسا بگاڑ دے گا کہ وہ پہچانا نہیں جاسکے گا۔ ادھر بھارتی عوام بھی مودی کی بے وقوفیوں اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اسے راون قرار دے کر آج کل بھارت میں ہر جگہ اس کے پتلے نذرآتش کیے جا رہے ہیں۔