مہنگائی
اب اس ملک کو زیادہ سیکیورٹی اسٹیٹ کر کے چلایا نہیں جا سکتا، اب اس بہانے یا اس بہانے جمہوریت کو یرغمال نہیں کیا جاسکتا۔
اتنا مقروض پاکستان آج سے پہلے کبھی نہ تھا۔ مقروض ہونا بھی برا نہ ہوتا، اگر ہم اتنے خود کفیل ہوتے کہ قرضہ واپس کرنے کے اہل ہوتے۔ چونتیس ہزار ارب کے جو قرضے اب تک لیے گئے ، اب وہ چھتیس ہزار ارب کے لگ بھگ ہیں۔
یہ ہماری مجموعی پیدوار کے برابر یا اب اس سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔ ہم اس مجموعی پیداوار کی نسبت جو ٹیکس وصول کرتے ہیں وہ دس فیصد بھی نہیں۔ ہندوستان بیس فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے۔ ہماری آمدنی ٹیکسوں کی مد میں سالانہ ساڑھے چار ہزار ارب ہے جو ایف بی آر وصول کرتا ہے۔ وہ تمام ٹیکس و آمدنی جو صوبے جمع کرتے ہیں ان سب کوجمع کر کے بھی مجموعی طور پر یہ سات ہزار ارب روپوں سے زیادہ نہ ہو گی ، جس میں سے تین ہزار ارب روپے تو قرضوں کی اقساط کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں ، دو ہزار ارب پنشن وغیرہ ملا کر فوج کو چلے جاتے ہیں اور جو وفاق جمع کرتا ہے اس کا بھی 57.5% فیصد صوبوں کو چلا جاتا ہے۔
یہ الگ بحث ہے کہ سات ہزار ارب روپوں میں سے پانچ ہزار ارب روپے تو گئے باقی بچے دو ہزار ارب تو اس سے چلتا ہے سارا پاکستان بشمول ترقیاتی کاموں کے۔ وفاقی اخراجات کے لیے بھی اب قرضہ لینا پڑتا ہے اور قرض اتارنے کے لیے بھی بیرونی و اندرونی قرضے لینے پڑتے ہیں۔ سی پیک منصوبہ ہوتا تو بہت خوبصورت ہوتا لیکن آج ہم چین کے بھی لگ بھگ پینتا لیس ارب ڈالر کے مقروض ہیں اور اتنے ہی مقروض ہم امریکا، یورپ، آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ایشین بینک وغیرہ کے بھی ہیں۔
ہماری شرح نمو جو سال سے تھی وہ اوسطا تین فیصد تھی جب کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی سات سے آٹھ فیصد ہے۔ ان کی ٹیکس کی وصولیات بھی شرح نمو کے حساب سے اوسطا ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ شرح نمو کا بڑھنا عکاسی کرتا ہے پچھلے سال کی نسبت زیادہ چیزوں کی پیداوار میںاضافے کا ہونا، چیزوں کی پیداوار میں خود کفیل ہونا، آمدنی میں اضافے کے برابر ہے اور آمدنی کا بڑھنا زیادہ ضروریات کا پیدا ہونا ہے اور زیادہ رسد و طلب فراہم کرتا ہے۔ اس طرح روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں، مگر اس وقت ہماری شرح نمو یہ سب زیرو فیصد پر رہی ہے۔ بنگلہ دیش اور ہندوستان کی شرح نمو جب منفی ہوئی تھی وہ اسی طرح واپس ابھری تھی۔
دوسری جنگ عظیم میں انگلستان ، جرمنی، اٹلی، فرانس وغیرہ جیسے ممالک جن کی ایک سال تک تیس فیصد تک مجموعی پیداوار کم ہوئی تھی جب امن کا دور آیا تو دو سے تین سال کے اندر ہی ان کی مجموعی پیداوار دوبارہ بحال ہو گئی، لیکن ہمارے ملک کے حا لات بھی مختلف ہیں اور معاملات بھی۔ اس ملک میں ایسا کچھ نہیں ہونے کو جا رہا۔ ہمارے قرضہ جات بائیس ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ گھنٹوں گھنٹوں بجلی غائب ! کراچی الیکٹرک کے علاوہ بھی بہت سے ایسے محکمے ہیں جو دو نمبر کام کر رہے ہیں۔
ہم نے اپنے کاشتکاروں کو گندم منصفانہ بھائو میں نہیں دی۔ گندم کی پیدوارا ہوئی مگر آج ہم اپنے بیرونی ذخائر سے گندم منگوا رہے ہیں اور وہ بھی یوکرین سے جس کا معیار اوسط بھی نہیں۔ چینی بھی باہر سے منگوانی پڑ رہی ہے۔ ٹماٹر پہلے ہندوستان سے آجاتے تھے مگر اب شاید ایسا نہیں ہے ۔ پیاز اور ٹماٹر وغیرہ ایران سے، وہ بھی دیر سے پہنچتا ہے۔ اس لیے کہ یہ حکومت اپنے ہی کیے ہوئے فیصلوں پر عمل در آمد کرنے میں تاخیر کرتی ہے اور اب مہنگائی، ن ۔م راشد کی ان سطروں کی طرح ''شہر کی فصیلوں پر دیو کا جو سایہ تھا'' ہمارے سروں پر ناچ رہی ہے۔ غریب کو اب دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں۔ کروڑوں لوگ بیروزگاری اور غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے ہیں۔
اسٹاک ایکسچینج ہو یا پرا پرٹی کی قیمتوں میں اضافہ، یہ معیشت کے حقیقی پیمانے نہیں جن پر اعتبار کیا جائے ۔ یہ جو دیو کی طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے ، معیشت کا اصلی بیرومیٹریہ ہے اور یہ مہنگائی شرح نمو کے تیز ہونے سے نہیں بلکہ اس کے سکڑنے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کو ہم معیشت کا "meld down" ہی کہہ سکتے ہیں۔ایک پہلو سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہائبرڈ جمہوریت کا پھیلائو ہے ۔ یہ اپنی نو عیت کا پہلا تجربہ ہے جو پاکستان میں کیا گیا ہے۔ حکومت کو کون اور کیسے چلا رہا ہے؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے۔ لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ جو بھی جمہوری ادوار تھے وہ نا مکمل جمہوریتیں تھیں۔
چینی، آ ٹا، دوائیوں اور دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انھی حکومتوں میں ان مافیا کے مفادات کا تحفظ کروانے والے موجود بیٹھے تھے۔ افراط زر سرکاری اعتبار سے دس فیصد پر گھوم رہی ہے ۔ روٹی دگنی مہنگی ہونے کے بعد اب تگنی مہنگی ہونے کی طرف ہے۔ کبھی کبھی مہنگائی ڈاکا زنی کے برابر ہوتی ہے، لوگوں سے ٹیکس لینا پڑتا ہے ۔ اس ملک میں اس ٹیکس کے علاوہ جو ٹیکس لگتا ہے وہ بھی ان ڈائریکٹ ٹیکس ہے، جس سے وہ چیزیں مہنگی ہوتی ہیں جو غریب لوگ استعمال کرتے ہیں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے، یہ دیکھ کر کہ پھل، سبزیوں کی نسبت سستے تھے، اس لیے پھل کی ڈیمانڈ کم تھی کیونکہ وہ غریب کم کھاتے ہیں۔
یہ ملک اور اس کی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس پر قرضوں کا بوجھ ۔ دنیا کے ذہنی معذور بچوں کی تعداد سب سے زیادہ یہاںہے۔ غذائیت سے محروم مائیں یہاں ہیں ۔ اسکول نہ جاتے ہوئے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ یہاں ہے۔ یہ وہ دیس ہے جہاں اسپتال اور اسکول خستہ حالی کا شکار ہیں ۔ کراچی وہ شہر ہے جس کے پاس ماس ٹرانزٹ سسٹم نہیں اور کچی بستیاں ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں اسی فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
یہ ملک اب اس طرح نہیں چل سکتا ، ہر روز ایک نیا ڈرامہ ہے، کبھی ریاست مدینہ ، کبھی غداروں کی قطاریں ، کبھی ہندوستانی ایجنٹ ، کبھی جمہوری تحریک کے پیچھے اسرائیل ہے تو کبھی یہ اور کبھی وہ اور ان سب پر بھاری ہے یہ مہنگائی، تو پھر اس مہنگائی کے پیچھے کون ہے؟ سات ہزار ارب کی ٹیکس وصو لیات پر اتنے بڑے قرضوں کی ادائیگی اور دفاع پر خرچ ، لوگوں کی فلاح و بہبودکے لیے کچھ بھی نہیں تو پھر شرح نمو تو منفی ہی جانی تھی ۔ ٹماٹروں کی پیداوار کم تو ہونی تھی ۔ پیاز، آلو، دال، چینی، آٹا وغیرہ۔ اب غریب کی تمام کمائی پیٹ پالنے پر ہی خرچ ہو جاتی ہے اور پھر بھی اس کا پاپی پیٹ بھر نہیں پاتا۔
اب اس ملک کو زیادہ سیکیورٹی اسٹیٹ کر کے چلایا نہیں جا سکتا، اب اس بہانے یا اس بہانے جمہوریت کو یرغمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک کو جتنا جلد ہو فلاحی ریاست کی سمت لے جانا ہو گا اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور جو ووٹ کے نتیجے میں حکومت بنتی ہے، اسے سرخم تسلیم کرنا ہو گا ورنہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔