ڈھانچوں کو بھوک نہیں لگتی
خوش حال گھرانوں کا کیا کہنا کہ وہ ہر سال یورپ، امریکا ، انگلینڈ کا پھیرا لگاتے ہیں۔
DüSSELDORF/ PARIS:
اکتوبر کا مہینہ ختم ہو رہا ہے اور کوئٹہ سے ٹھنڈی ہوائوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہ ہوائیں کوئٹہ سے چلتی ہیں اور شہرکراچی کی گلیوں، محلوں میں بانہیں ڈال دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کراچی والے اپنے گرم کپڑے، لحاف، کمبل، رضائیاں اور دلائیاں نکال لیتے ہیں۔
خوش حال گھرانوں کا کیا کہنا کہ وہ ہر سال یورپ، امریکا ، انگلینڈ کا پھیرا لگاتے ہیں، جن کو دبئی جانا سہل محسوس ہوتا ہے وہ وہاں چلے جاتے ہیں اور وہاں سے وہ سب کچھ لے آتے ہیں جو ساری دنیا کے بازاروںمیں ملتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو خستہ حال ہیں لیکن سردی انھیں اور ان کے بچوں کو بھی لگتی ہے، شاید زیادہ ہی لگتی ہو کہ انھیں پیٹ بھرکر کھانا نہیں ملتا اور ان کی ہڈیوں پر صرف کھال منڈھی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ ان ٹھیلوں کے گرد اکٹھا ہو جاتے ہیں جن پر باہر کے ملکوں سے آنے والی اترن بکتی ہے۔
پانچ دس روپے سے لے کر 100 یا 50 روپے میں ملنے والے سویٹر، کمبل اور کوٹ ملتے ہیں، یہ لوگ جو تن ڈھانپنے اور سردی سے بچائو کے لیے ان ٹھیلوں سے اپنی حیثیت کے مطابق گرم کپڑے خریدتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ انھوں نے سردی سے بچنے کا انتظام کر لیا، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ لائٹ ہائوس پر جو کوٹ پینٹ اور دوسرے کپڑے بکتے ہیں، وہاں وہ لوگ خریداری کرتے ہیں جو باہر سے آنے والا سامان مہنگے داموں خریدتے ہیں۔ مردوں کے سوٹ کو ان کے ناپ کے مطابق کرنے کے لیے وہاں کے دکانداروںنے درزی بٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ چند گھنٹوں میں ''صاحب بہادر'' ایسا گرم سوٹ پہن کر نکلتے ہیں کہ لوگوں کو گمان ہوتا ہے کہ یہ ''ہیئرڈز'' یا آکسفرڈ اسٹریٹ لندن کے کسی مہنگے اسٹور سے خریدا گیا ہے۔
خنک موسم کے شروع ہوتے ہی گلیوں میں پھر کر مونگ پھلی اور گزک بیچنے والوں کی آوازیں آنے لگی ہیں۔ حلوائیوں کی دکان پر بیٹھے ہوئے ان کاریگروں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے جن کے کڑھائو میں گرما گرم جلیبیاں تیار ہوتی ہیں۔ خریدنے والوں کی قطار ہوتی ہے اور پلک جھپکتے کڑھائو سے نکلنے والی جلیبیاں گھروں میں پہنچ جاتی ہیں۔ کچھ منچلے ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم انھیں گھر لے جائیں تو یہ ٹھنڈی ہوجائیں گی، اس لیے بہتریہی ہے کہ ہم ان سے یہیںانصاف کریں۔
یہ قصہ ان لوگوں کا ہے جن کی گرہ میں دام ہوتے ہیں، ورنہ وہ لوگ جو غریب تھے، وہ کورونا کے ہاتھوں بیروزگار ہوئے ان کے پاس تو اتنے روپے بھی نہیں کہ وہ 24 گھنٹوں میں ایک وقت ہی سہی پیٹ بھر کر دال روٹی یا چٹنی اور چاول کھا سکیں۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور اگر وہ اس کے لیے فریاد کریں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ سال دو سال صبر کریں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ بات وہی لوگ کہہ سکتے ہیں جنھوں نے ایک وقت کی بھوک بھی نہ سہی ہو اور جو نہیں جانتے کہ دو برس میں انسان نہیں، صرف انسان کے ڈھانچے باقی رہتے ہیں اور ڈھانچوں کو بھوک نہیں لگتی۔
ایسی ہی ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو پنساری کی دکان پر کھڑی تھی۔ دال چاول کے دام پوچھتی تھی اور نرخ سن کر سینے پر دوہتڑ مارتی تھی اور کہتی تھی کہ ''یہ ہے نیا پاکستان؟ ارے بیٹا، مجھے تو پرانے پاکستان کا پتا بتا دے جہاں سے میں کچھ تو خرید سکتی تھی۔ میرے بچے بھوکے ہیں اور مجھ سے ان کی بھوک دیکھی نہیں جاتی، ان کا چیخ چیخ کر رونا سنا نہیں جاتا۔ '' دکاندار اسے یوں دھتکارتا ہے جیسے تو کچھ خریدنے نہ آئی ہو بھیک مانگ رہی ہو۔
وہ لوگ جن کا خیال تھا کہ اگر وہ کسی نئے چہرے کو ووٹ دیں گے تو ان کی زندگی بہتر ہو جائے گی۔ ایسے لوگ سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ اس لیے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے والے اب ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہاری پسندیدہ جماعت جو دودھ اور شہد کی نہریں بہانے والی تھی، وہ کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے۔
موجودہ معاشی اور سیاسی صورت حال سے کچھ لوگ یکسر نا امید ہو گئے ہیں۔ شاید اس کی وجہ ان کی بڑھتی ہوئی عمر ہو لیکن نوجوان نسل اور درمیانی عمر کے بہت سے لوگ حالات سے مایوس نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آخر کار ان کے اور ملک کے دن بدلیں گے، ان لوگوں سے نجات ملے گی جو اعلیٰ منصب کے اہل نہیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا غرور اور تکبر انھیں دوسروں کے بارے میں سوچنے نہیں دیتا۔ ان کی گردن میں لوہے کی سلاخ انھیں جھک کر عام لوگوں کی حالتِ زار سے آگاہ نہیں ہونے دیتی۔
کل کیا ہونے والا ہے، اس بارے میں کوئی حکم کیوں لگایا جائے لیکن ان لوگوں کی موجودگی اور ان کی خوش خیالی بہت سی آنکھوں میں خواب دیکھ دیتی ہے۔ کل افتخار کاشف کی ایک نظم نظر سے گزری، وہ آپ کی نذر ہے:
مجھے آباد ہونا ہے
کسی ایسے نگر میں
چلو آئو کہ ہم ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں
چلو آئو فضا میں خوشیوں کو عام کرنا ہے
چلو آئو مروت کا بہت سا کام کرنا ہے
چلو آئو کہ ہم کو دُور ہر الزام کرنا ہے
چلو آئو کہ ہر دشمن کو اب ناکام کرنا ہے
چلو آئو کہ اب ہر چہرے کو گلفام کرنا ہے
جہاں پر شام ڈھلتی ہو
چلو آئو محبت امن کو پیغام کرنا ہے
چلو آئو کہ ہر قریہ جاں میں روشنی کر دیں
چلو آئو کہ شہر بے اماں میں زندگی بھر دیں
مجھے آباد ہونا ہے
کسی ایسے نگر میں
ایسی بستی
ایسے آنگن میں
ایسی بستی ایسے آنگن میں
چلو آئو جفا کا میکدہ مسمار کرتے ہیں
چلو آئو وفا کا چار سو پرچار کرتے ہیں
چلو آئو کہ اب ہم دشت و بن گلزار کرتے ہیں
کاشف کی اس نظم سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے دل پر کیاگزرتی ہے اس کے باوجود وہ آباد ہونے کی کیسی تمنا دل میں رکھتے ہیں۔ ڈھانچوں کو بھوک نہیں لگتی لیکن ایک بدحال اور مفلوک حال سماج میں رہنے والے خوش آیند خواب تو دیکھ سکتے ہیں۔ ہم ایسے ہی لوگوں سے حوصلہ پاتے ہیں اور جفا کا میکدہ مسمار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔