آنکھیں کھولیے
حکومت کی نالائقی یہ ہے کہ اس کا رابطہ عوام سے ویسا نہیں رہا جیسا الیکشن سے پہلے تھا
سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن آمد اور قیام کے بعد پاکستان کی سیاست میں جو ٹھہراؤ آگیا تھا اسے 19 اکتوبر کو ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر نے توڑ دیا۔ مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتیں سر توڑ کوشش کر رہی ہیں کہ ملک میں ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ حکومت مفلوج ہو جائے لیکن کوشش بسیار کے بعد بھی یہ لوگ ایسے حالات پیدا نہیں کرسکے۔
19 تاریخ کو پوری کوشش کی گئی کہ حالات کو ''ہنگامی'' بنا دیا جائے لیکن ایک معمولی ہلہ گلہ کے علاوہ کچھ نہ ہو سکا ہاں یہ ضرور ہوا کہ میڈیا میں خوب کوریج ملی اور تصویروں سے اخبارات اٹ گئے۔ محترمہ مریم کا یہ جملہ ''ہمت ہے تو آؤ مجھے گرفتار کرلو'' بڑا مقبول ہوا۔ انتظامیہ کی کمزوری کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا لیکن عوام محترمہ مریم کی بہادری اور حوصلے کے قائل ہوگئے اور تسلیم کر لیا کہ محترمہ مریم مشکل حالات کا سامنا کرنے کا بھرپور حوصلہ رکھتیں اور سیاست کی اونچ نیچ کو خوب سمجھتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن سب سے زیادہ متحرک ہیں کہ موجودہ حکومت سے کسی طرح گلوخلاصی مل جائے۔ اس جمہوری ایکٹیویٹی میں (ن) لیگ والوں پر یہ الزام ضرور لگا کہ مزار قائد کی بے حرمتی کی گئی اور گرفتار ہوئے۔ ایسے سیاسی موسم میں لیڈروں کو پتا ہوتا ہے کہ گرفتاری وقتی ہوتی ہے سو صفدر ضمانت پر رہا ہوگئے اس ساری ایکٹیویٹی کا حاصل ''پبلسٹی'' ن لیگ کو حاصل ہو گیا۔
11 جماعتیں جس حکمران وزیراعظم عمران خان کو وزیر اعظم ہاؤس سے نکالنا چاہتی ہیں اس میں حصول اقتدار کی خواہش سب سے بڑا فیکٹر ہے لیکن رونا یہ ہے کہ جمہوریت کے علمبردار عمران خان کو جمہوری طریقے سے اقتدار سے باہر کرنے کے بجائے سیاسی ہلہ گلہ کے ذریعے حکومت سے باہر کرنا چاہتے ہیں جو سراسر جمہوریت کی نفی ہے۔ عمران خان نہ کوئی انقلابی ہے نہ کوئی اہل دانش، وہ ایک ریٹائرڈ کرکٹر ہے اور حالات نے اسے وزارت عظمیٰ تک پہنچا دیا ہے۔
سیاسی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان نے بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کیے۔میری ذاتی رائے میں وزیراعظم عمران خان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہ کرپٹ ہے نہ اس کا تعلق اشرافیہ سے ہے وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ایک ایماندار سیاستدان ہے اور یہی کوالٹی اس کی پہچان بن گئی ہے۔ میرے جیسا عام آدمی جب اس حوالے سے بات کرتا ہے تو یہ ضرور کہتا ہے کہ کچھ بھی ہو عمران خان ایک ایماندار آدمی ہے اور یہی خوبی اسے پسندیدہ شخصیت بنائے ہوئے ہے۔
مشکل یہ ہے کہ عمران خان مال دار آدمی نہیں ہے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت میں عام آدمی کے لیے کوئی جگہ ہوتی ہے نہ جائے پناہ۔ اس کمزوری کی وجہ اس کی ایمانداری اور عوام کے لیے کچھ کرنے کی خواہش، خواہش ہی بن کر رہ گئی ہے ہماری اپوزیشن کے دو نہیں بلکہ چار ہاتھ ہیں اور پچھلے دس سالوں کے درمیان اشرافیہ نے اپنے ان چار ہاتھوں سے جتنا کمایا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ سیاست اور اہل سیاست کو جس طرح چاہے دھڑلے سے استعمال کرسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) ابھی ابھی 5سال اقتدار میں رہی ہے ان پانچ سالوں کے دوران (ن) لیگ نے عوام کے لیے کیا کیا، جس کے حوالے سے اسے عوامی جماعت کہا جاسکے۔ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ عوام کی زبان پر اور اخباروں کے صفحات پر محفوظ ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں جمہوریت ہے لیکن یہ جمہوریت طبقاتی نہیں ہے، اس جمہوریت میں عام آدمی بھی ملک کا وزیر اعظم بن سکتا ہے۔
ہمارے پڑوس میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک بھارت ہے جہاں ایک چائے والا وزیر اعظم منتخب ہوا ہے اور بڑے اطمینان سے حکومت چلا رہا ہے، اپوزیشن بھی اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہی ہے۔ بھارت کے عوام اب کم ازکم اتنے میچور ہو گئے ہیں کہ وہ جمہوری آداب کو سمجھتے ہیں اور سیاسی شیڈول اور آئین کے مطابق منتخب حکمرانوں کو حکومت کرنے کا موقعہ دیتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں آئین اور قانون مجلد کتابوں میں بند ہے اور جو آئین اور قانون نافذ ہے وہ اشرافیہ کی ضرورت کے مطابق ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک اشرافیہ کی کالونی بنا ہوا ہے جہاں اشرافیہ کا قانون چلتا ہے، اشرافیہ کی زبان چلتی ہے۔ اس نظام کی وجہ سے نچلے طبقات سے قیادت ابھر کر اوپر نہیں آسکتی ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ سیاسی قیادت اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے وہ نچلے طبقات کی قیادت تو دور کی بات اس کی سیاست میں موجودگی کو بھی پسند نہیں کرتی۔
عمران خان کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہے مڈل کلاس سے ہے اس لیے اشرافیہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ عوام کو ان مسائل مثلاً بجلی، پانی، بے کاری، غربت اور مہنگائی جیسی لعنتوں سے نجات دلائے۔ اشرافیہ جانتی ہے کہ اگر عمران خان عوامی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو نچلے طبقات اور مڈل کلاس کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور وہ اقتدار پر اپنا حق جتانے لگے گی ،اس لیے وہ ہر قیمت پر حکومت کو ناکام بنانا چاہتی ہے یہ ہلے گلے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
حکومت کی نالائقی یہ ہے کہ اس کا رابطہ عوام سے ویسا نہیں رہا جیسا الیکشن سے پہلے تھا۔ نتیجہ یہ کہ عوام بھی اب حکومت سے مایوس ہو رہی ہے رابطے کا مطلب عوام سے نزدیکی جب سیاسی قیادت عوام کے درمیان ہوتی ہے تو عوام نفسیاتی طور پر مطمئن ہوتے ہیں۔ آج عمران خان چونکہ عوام سے دور ہو گئے ہیں اس کی وجہ سے عوام میں وہ یگانگت نہیں رہی جو الیکشن سے پہلے دیکھی جاتی تھی، اگر حکمران عوام سے تعلق نہیں رکھتا تو اشرافیہ عوام کو قیادت سے بدظن کرنے کی کوشش کرتی ہے کیا وزیراعظم عمران خان اس حقیقت کو سمجھتے ہیں؟