سردار عثمان بزدار نئی انتظامی ٹیم کے ساتھ جیت کیلئے پر عزم

سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے صوبے کی بیوروکریسی کے بارے مکمل نہ سہی لیکن بہت زیادہ معلومات رکھتا ہے۔


رضوان آصف November 04, 2020
سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے صوبے کی بیوروکریسی کے بارے مکمل نہ سہی لیکن بہت زیادہ معلومات رکھتا ہے۔ فوٹو: فائل

نظام حکومت کو کامیابی سے چلانے اور حکومت وقت کی پالیسیوں کو حقیقی معنوں میں عوام دوست ثابت کرنے کے حوالے سے بیوروکریسی کا کردار ہی فیصلہ کن ہوتا ہے۔

بیوروکریسی زیرو کو ہیرو اور ہیرو کو زیرو بنانے کی تسلیم شدہ صلاحیت و استعداد رکھتی ہے ۔ بیوروکریسی کے بیشتر لوگ ملک وقوم کے مفاد میں مغز ماری کر کے دور رس نتائج کی حامل پالیسیاں بنانے کی بجائے اپنی پوسٹنگ کا کلہ قائم رکھنے کیلئے ڈنگ ٹپاو پالیسیوں کی بیساکھیوں کا سہارا لیتے ہیں لیکن دوسری جانب قحط الرجال کے اس عالم میں آج بھی ایسے افسر دستیاب ہیں جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر یہ حکومت عوام کے سامنے ''ڈیلیور'' کر سکتی ہے۔

اپوزیشن اور میڈیا کی تمام تر تنقید کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت بالخصوص پنجاب حکومت کو اتنا مارجن ضروردینا چاہیئے کہ یہ واقعی''ناتجربہ کار'' تھے، انہیں حکومتی نظام چلانے کے رموز سے مکمل واقفیت نہیں تھی۔ 2018 ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد جب سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلی بنایا گیا تو وہ رموز حکمرانی سے بالکل ہی نا بلد تھے اور انہیں بیوروکریٹس کے بارے الف ب بھی معلوم نہیں تھی لیکن آج کا سردار عثمان بزدار یکسر مختلف انسان ہے جو وزیر اعلی کی حیثیت سے اپنے صوبے کی بیوروکریسی کے بارے مکمل نہ سہی لیکن بہت زیادہ معلومات رکھتا ہے۔

اسے معلوم ہے کہ کون سا افسر کتنی استعداد، قابلیت اور ایمانداری کا حامل ہے اور کون سا ایسا افسر ہے جو ان کے سامنے''رنگ بازیاں'' کرتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اپنی قبائلی روایات اور ذاتی عجز وانکسار کی وجہ سے وزیر اعلی پنجاب ان''رنگ باز'' افسروں کو ڈھیل دیتے رہتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب پر بہت شدید تنقید کی جاتی ہے کہ گزشتہ سوا دو سال میں انہوں نے بیوروکریسی میں ریکارڈ تعداد میں تبادلے کیئے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن تنقید برائے تنقید کو ایک جانب رکھ کر غور کیا جائے تو ایک ناتجربہ کار اور ناواقف حکومت کو بیوروکریسی کی صلاحیتوں اور استعداد کا علم انہیںا ٓزمانے سے ہی ہونا تھا ۔BEST PERSON FOR JOB کی تلاش کیلئے اہم عہدوں پر مختلف افراد کو آزمانے سے ہی علم ہوا ہے کہ کس افسر میں کونسا کام کرنے کی زیادہ صلاحیت ہے ۔

موجودہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک ایک عمدہ انسان اور دھیمے مزاج کے بیوروکریٹ ہیں جو بلا وجہ (بلکہ وجہ ہونے کے باوجود )ارباب حکومت سے کشیدگی یا بحث نہیں شروع کرتے ،شاید یہی وجہ ہے کہ سردار عثمان بزدار انہیں بہت پسند کرتے ہیں ۔ جواد رفیق ملک نے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کیلئے ایک اچھی بیوروکریٹک ٹیم بنانا شروع کر رکھی ہے جس کا فائدہ وزیرا عظم اور وزیر اعلی کو ضرور ہوگا۔

دو روز قبل پنجاب کابینہ اور سول بیوروکریسی میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔فیاض الحسن چوہان سے دوسری مرتبہ وزارت اطلاعات کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے اور معاون خصوصی برائے وزیر اعلی فردوس عاشق اعوان کو سونپ دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ایک جہاندیدہ اور سینئر سیاستدان ہیں اور انہیں محکمہ اطلاعات چلانے کا بہت طویل تجربہ حاصل ہے۔ وزیر کو آپریٹو مہر اسلم اور وزیر جیل خانہ جات زوار وڑائچ کو کابینہ سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

ان دونوں کی کارکردگی طویل عرصہ سے تنقید کا شکار تھی جبکہ زوار وڑائچ کو فارغ کرنے کی وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے بہت قریب تصور کیئے جاتے ہیں۔ کابینہ میں ابھی مزید تبدیلیاں متوقع ہیں،ملک اسد کھوکھر کی کابینہ میں واپسی سمیت ایک یا دو نئے وزراء کی شمولیت کا امکان ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بحث شروع ہو گئی ہے کہ اس حکومت میں کون ''مضبوط'' یا''محفوظ'' ہے کیونکہ ابھی چند دن پہلے میڈیا میں وزیر اعظم کا بیان آیا تھا کہ سب ترجمان اور وزراء فیاض الحسن چوہان سے سیکھیں کہ حکومتی موقف کا دفاع کیسے کیا جاتا ہے ،چوہان کی کارکردگی سب سے بہتر ہے لیکن ابھی اس بیان کی بازگشت بھی ختم نہیں ہوئی کہ فیاض الحسن چوہان کی وزارت تبدیل ہو گئی ۔

سول بیوروکریسی میں بھی اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں اور گریڈ 21 کے نہایت منجھے ہوئے اور پیشہ ور بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر نصر اللہ کو دوبارہ سیکرٹری ہاوسنگ تعینات کردیا گیا ہے۔ ڈیڑھ برس قبل بھی وہ اس عہدے پر تعینات ہوئے تھے ۔ظفر نصر اللہ بہت دبنگ افسر ہیں اور حق بات کہتے ہوئے وزیر اعظم یا وزیر اعلی کے سامنے ہر گز نہیں جھجھکتے ،ان کے بیج میٹ اسوقت گریڈ 22 میں ہیں لیکن ظفر نصر اللہ اصول پسندی کے باعث فواد حسن فواد سمیت کئی سینئر بیوروکریٹس کی ناراضگی کے سبب ترقی کی دوڑ میں پیچھے دھکیلے جاتے رہے۔ سیکرٹری زراعت واصف خورشید کو تبدیل کر کے سیکرٹری صنعت تعینات کیا گیا ہے۔

انہوں نے تین برس تک جس محنت اور جذبے کے ساتھ محکمہ زراعت میں کام کیا وہ اپنی مثال آپ ہے، انہوں نے اپنی جانب سے کوئی کسر نہیں چھوڑی، تاہم حکومتوں کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں ۔ بطور سیکرٹری صنعت اب ان کے سامنے مہنگائی کو قابو کرنے کا ایک بہت مشکل چیلنج موجود ہے اور وہ اپنی بھرپور استعداد سے اس میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں گے۔ سیکرٹری زراعت کی آسامی خالی ہونے کے بعد وزیر اعلی اور چیف سیکرٹری کو نئے سیکرٹری زراعت کا انتخاب کرنا ہے جو اس لحاظ سے اہم ترین ہے کہ گزشتہ دو برس سے ملک گندم کی پیداوار میں کمی اور آٹا بحران کا شکار ہے۔

ویسے تو جواد رفیق ملک کے ذہن میں کئی نام ہوں گے لیکن اگر وہ سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان کے نام پر سنجیدگی سے غور کریں تو اس سے بہتر سیکرٹری زراعت دستیاب نہیں ۔شہریار سلطان منفرد افسر ہے اور اس کا فیملی بیک گراونڈ بھی زراعت سے منسلک ہے جبکہ چند سال قبل جب انہیں سیکرٹری زراعت لگایا گیا تو انہوں نے چند ماہ کے عرصہ میں محکمہ زراعت کو ''ٹیک آف'' فراہم کردیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس وقت وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے کیپٹن(ر) محمود کو نوازنے کیلئے شہریار کو تبدیل کر کے کیپٹن(ر) محمود کو سیکرٹری تعینات کردیا تھا۔ میرے نہایت عزیز ایک سینئر بیوروکریٹ نے کیا خوب بات کہی کہ سول سیکرٹریٹ (اولڈ ونگ) میں کمروں کی ترتیب پر غور کریں تو ایک انوکھی اور منفرد حقیقت سامنے آتی ہے۔

اس بلاک میں پہلا کمرہ سیکرٹری زراعت، دوسرا کمرہ سیکرٹری فوڈ اور تیسرا کمرہ سیکرٹری صنعت کا ہے اب غور کریں کہ عوام کے غذائی تحفظ کیلئے سب سے پہلے گندم کی کاشت اور پیداوار اہم ہے اور اگر گندم ہی کم پیدا ہو گی تو آج کی طرح کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ خرچ کر کے امپورٹ کرنا پڑے گی ۔گندم پیدا ہونے کے بعد اس کی خریداری ہوتی ہے اور محکمہ خوراک کسانوں کو مالی استحصال سے بچانے کیلئے مارکیٹ میں موجود ہوتا ہے ۔آٹا چینی سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کی ذمہ داری محکمہ صنعت کی ہے۔

لہذا جس نے بھی سیکرٹریٹ میں سیکرٹریز کے دفاتر کی الاٹمنٹ کی اس نے کمال ترتیب بنائی ہے۔ چند روز قبل حکومت نے صالحہ سعید کو ڈی جی ایکسائز کے عہدے پر تعینات کیا ہے ۔وہ ایک قابل افسر ہیں اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر فیصلہ سازی کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی یہ ہدایات دی ہیں کہ گزشتہ چند برس کے دوران محکمہ ایکسائز نے یکے بعد دیگرے کئی اصلاحات متعارف کروائیں لیکن اکا دکا کے سوا تمام ادھوری ہیں۔

لہذا کوئی نئی سکیم لانچ کرنے سے قبل پہلے سے زیر التواء منصوبوں کو مکمل کیا جائے ۔صالحہ سعید نے سمارٹ رجسٹریشن کارڈز کے حوالے سے بھی ایک بہت بڑی محکمانہ خامی کا سراغ لگایا ہے۔ پنجاب میں سیکرٹری بلدیات طاہر خورشید، سیکرٹری پرائمری ہیلتھ کیپٹن(ر) عثمان یونس،سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ نبیل اعوان جیسے نایاب افسرتعداد میں کم ضرور ہیں لیکن وہ سٹار کھلاڑی ہیں اور یہ تو کپتان سمیت سب ہی جانتے ہیں کہ ٹیم میں ہر کھلاڑی سٹار پلیئر نہیں ہوتا اور جو سٹار ہوتا ہے وہ ہارا ہوا میچ بھی جتا دیتا ہے۔n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں