کورونا کی دوسری لہر کو روکنے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت

کراچی میں کورونا بے قابو ہونے کے باوجود عوام ماسک کے استعمال سمیت دیگر ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں ہیں۔


عامر خان November 04, 2020
کراچی میں کورونا بے قابو ہونے کے باوجود عوام ماسک کے استعمال سمیت دیگر ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں ہیں۔فوٹو : فائل

ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی کورونا وائر س کی دوسری لہر تیزی سے پھیل رہی ہے اور روزانہ سینکڑوں افراد اس وباء سے متاثر ہو رہے ہیں۔

اس دوسری لہر پر وفاقی حکومت کی کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے قائم نیشنل کمانڈ اینڈ کنڑول سینٹر نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے اہم فیصلے کیے ہیں، جس کے تحت ملک بھر میں تمام مارکیٹس، شاپنگ مالز، شادی ہالز اور ریسٹورنٹس بھی رات دس بجے بند ہوں گے۔ عوامی مقامات پر ماسک پہننے پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے گا۔

ضروری سروسز میڈیکل اسٹورز، کلینکس اور اسپتال کھلے رہیں گے۔ پبلک پارکس بھی شام چھ بجے بند کر دیے جائیں گے۔ بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنز پر بھی ماسک پہننے پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا۔ این سی او سی کے فیصلے پر عمل درآمد کرانا سندھ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی ذمے داری ہے۔

کراچی میں کورونا بے قابو ہونے کے باوجود عوام ماسک کے استعمال سمیت دیگر ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں ہیں،کراچی کی عوام نے کورونا وائرس کا مذاق بنا لیا ہے۔اس خطرناک کورونا وباء کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ کراچی سمیت صوبہ بھر ماسک کا استعمال نہ کرنے والوں پر جرمانہ اور قید کی سزاؤں کا اطلاق کیا جائے۔

این سی او سی کے فیصلوں پر بھرپور عمل درآمد کرانے کے لیے سختی کی جائے۔اس طرح سخت اقدام سے سندھ مکمل لاک ڈاؤن سے بچ سکتا ہے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ عوامی اجتماعات سے گریز کریں۔ اگر عوام نے تعاون نہ کیا تو مجبورا وباء کو روکنے کے لیے حکومت کو لاک ڈاؤن نافذکرنا پڑے گا۔ وزیر تعلیم سندھ سعید غنی تعلیمی ادارے دوبارہ بند کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔اگر لاک ڈاؤن دوبارہ لگا تو اس کے سماجی اور معاشی منفی اثرات کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ عوام ہوگی۔اس لیے یاد رکھیں کہ ''احتیاط علاج سے بہتر ہے''۔

فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت، ان کو سرکاری عمارتوں پر لگانے اور فرانسیسی صدر کی طرف سے شان ِ رسالت میں گستاخی اور مسلمانوں کے حوالے سے ہرزہ سرائی کے خلاف ملک بھر کی طرح سندھ خصوصا کراچی میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

جماعت اسلامی، سنی تحریک، اہلنست والجماعت، جماعت اہلنست، مسلم لیگ فنکشنل، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، مجلس وحدت المسلمین، انجمن محبان رسول سمیت دیگر سیاسی مذہبی جماعتوں ودیگر تنظیموں، علمائے کرام، سول سوسائٹی سمیت ہر طبقہ زندگی کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

ناموسِ رسالت کیلئے ریلیاں اور جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ ان احتجاج اور ریلیوں میں شریک مقررین اور شرکاء نے فرانس میں خاکوں کی اشاعت اور فرانسیسی صدرکے بیان کی شدید مذمت کی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ناموس ِ رسالت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی ۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ فرانس سے فوری طور پر سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کیے جائیں، فرانسیسی سفیر کو ملک بدر اور سرکاری سطح پر فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جائے۔ توہین رسالت کے خلاف پاکستان کی تمام اقلیتی برداری بھی سراپا احتجاج ہے۔

کراچی میں بھی اقلیتی برادری نے مظاہرہ کیا۔انہوں نے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور فرانسیسی صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں سے معافی مانگیں۔مغربی ممالک میں شان رسالت میں گستاخی کا معاملہ اب روز کا معمول بنتا جا رہا ہے اور وہ ان ناپاک حرکات کو آزادی اظہار رائے کا نام دیتے ہیں۔اگر مسلمان یہ حرکت کریں گے تو وہ دہشت گرد کہلانے لگتے ہیں ۔ اقوام متحدہ سمیت تمام ممالک کو سوچنا ہوگا کہ وہ تمام مذاہب کے احترام کے لیے عالمی سطح پر ایک قانون بنائیں۔ اس قانون سے دنیا میں اخوت اور بھائی چارگی قائم ہوگی۔ اس معاملے پر پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو مل کر حکمت عملی بنانی ہوگی ۔

سندھ کابینہ نے مہنگی درآمدی گندم کی خریداری پر زرمبادلہ خرچ کرنے سے بچنے کیلئے ایک عملی فیصلہ کیا ہے تاکہ مقامی کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے گندم فی من کم سے کم خریداری کیلئے 2000 روپے کی قیمت مقرر کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ گندم کی کاشت کریں۔ دوسری جانب سندھ کے وزیر زراعت اسماعیل راہو نے کہا ہے کہ وفاق کو گندم کی فی من قیمت 1600روپے مقرر نہیں کرنا چاہیے تھی، وفاق نے ملک میں گندم کا مصنوعی بحران جان بوجھ کر پیدا کیاہے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت گندم کی قلت کا ذمے دار سندھ حکومت کو قرار دیتی ہے۔

وفاق اور سندھ حکومتوں کے درمیان گندم کی قلت پر سیاسی جنگ جاری ہے، اس کے برعکس ملک بھر کی طرح سندھ خصوصا کراچی میں گندم کی قلت کے سبب آٹے کی فی کلو قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہوگیا ہے،آٹے کی فی کلو قیمت 72 سے 78 روپے کے درمیان ہے۔آٹے کی فی کلو قیمت میں اضافہ کے بعد نان بائیوں نے ایک روٹی کی قیمت 15 سے20 روپے کے درمیان تک کر دی ہے۔

مختلف شہروں میں الگ الگ قیمت پر روٹی فروخت ہو رہی ہے ۔غریب فرد کے لیے زندگی کا اہم مقصد ''پیٹ''بھرنا ہے جس کے لیے وہ محنت کرتا ہے۔ بھوک کے خاتمے کے لیے روٹی ضروری ہے، یہ روٹی آٹے سے بنتی ہے مگر اب آٹا بھی اس کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

غریب کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وفاق یا صوبائی حکومتوں نے گندم کی کیا فی من قیمت مقرر کی ہے؟۔ اس کو گندم کی قلت پر دونوں حکومتوں کی سیاست سے بھی کوئی مطلب نہیں، اس کوتو بس سستا آٹا چاہیے۔ وفاق اور سندھ حکومتوں کے لحمہ فکریہ ہے کہ وہ گند م کی قلت پر سیاسی محاذ آرائی کے بجائے عوام کو کم قیمت پر آٹا مہیا کریں۔

ملک میں گندم کی قلت کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی بنائیں ۔ ایسا نہ ہو کہ خدا نخواستہ ملک میں روٹی کے حصول کے لیے لوگوں کے درمیان جھگڑے شروع نہ ہو جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اشیاء خورونوش مہنگی کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔