ماضی کے حکمرانوں کی روایات سے انحراف
تحریک انصاف کی حکومت انتظامی طور پر کمزور ثابت ہوئی ہے۔ معیشت کو بہتر بنانے کے دعوے حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔
لوگ مودی کی زبان بولنے والوں کو پاکستان کے میر صادق اور میر جعفر کو دیکھ رہے ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے گلگت کے خطاب میں حزب اختلاف پر نیا حملہ کیا۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہاکہ طالبان عوامی نیشنل پارٹی کے جلسوں پر حملے کرسکتے ہیں۔ سیاست اور قومی مفاد میں سرخ لکیر کو ماننا پڑے گا۔
وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ نواز شریف اور قوم کے مفادات میں فرق ہے۔ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کا کہنا ہے کہ انھوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں سیاست دانوں کا ذکر کیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ اگر ایاز صادق نے غلط بات کی تھی تو قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اس کو کارروائی سے حذف کر دینا چاہیے تھا۔ پاکستان میں روزانہ حکومتی ترجمانوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے درمیان ٹی وی اسکرین پر زوردار جھڑپیں ہوتی ہیں۔ حکومتی وزراء مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگاتے ہیں۔
جب سے 11 حکومتی مخالف سیاسی جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں متحد ہوئی ہیں اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لندن سے ڈیپ اسٹیٹ پر حملے کیے ہیں حکومتی وزراء مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو غدار قرار دے رہے ہیں۔
ایک غیر معروف شخص نے ایاز صادق کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی، جیسے گزشتہ مہینہ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے کے لیے تھانوں میں درخواستیں دی گئی تھیں۔ حکومت کے مخالف رہنماؤں کو غدار کہنا بھارت اور پاکستان میں سیاستدانوں کی پرانی روایت ہے۔
ہندوستان کے بٹوارے کے بعد جب پاکستان دنیا کے نقشہ پر ابھرا تو مشرقی بنگال، سندھ اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومتیں قائم تھیں۔ کانگریس کی وزارت صوبہ سرحد میں تھی اور ڈاکٹر خان پریمیئر تھے۔ ڈاکٹر خان نے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا مگر دار الحکومت کراچی سے کنٹرول کرنے والی مقتدرہ نے ڈاکٹر خان کی حکومت کو توڑ دیا۔
ڈاکٹر خان اور ان کے بھائی خان عبدالغفار خان کو گرفتار کیا گیا۔ بلوچستان کے رہنما عبدالصمد اچکزئی کو ان کے حقوق مانگنے پر پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ڈاکٹر خان، خان عبدالغفار خان اور عبدالصمد اچکزئی نے انگریز راج کے خلاف تاریخی جدوجہد کی تھی اور برسوں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ یوں نئے ملک میں ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے اسیر ہوئے۔
مشرقی بنگال کے رہنما حسین شہید سہروردی جو متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ اور مسلم لیگ کے معروف رہنماؤں میں تھے اور ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہدایت پر ہندو مسلمان فسادات کو روکنے کے لیے کلکتہ میں رک گئے تھے اور مہاتما گاندھی کے ساتھ ان فسادات کو روکنے کی کوششیں کی تھیں، وہ ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کے انتقال کے بعد پاکستان آئے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان سہروردی کی شخصیت سے خوفزدہ تھے، انھوں نے سہروردی کی گرفتاری کا فیصلہ کیا۔ سہروردی نے مشرقی بنگال کے حقوق کے لیے آواز بلند کی تو وزیر اعظم لیاقت علی خان اور ان کی کابینہ کے وزراء نے حسین شہید سہروردی کو غدار قرار دینا شروع کیا۔
سہروردی کا شمار ہندوستان کے بڑے وکلاء میں ہوتا تھا۔ حکومت کے دباؤ پر ملک کی بیشتر بار ایسوسی ایشنز نے انھیں وکالت کا لائسنس نہیں دیا۔ پنجاب کے ایک چھوٹے شہر منٹگمری (موجودہ ساہیوال) کی بار نے حکومت کے دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے سہروردی کو لائسنس جاری کیا۔ سہروردی جو بعد میں ملک کے وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تو پہلے مارشل لاء کے دور تک غدار قرار دیا جاتا رہا۔
ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی۔ کئی کمیونسٹ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے، مگر آزادی کے فوراً بعد سے کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کو غدار قرار دیا جاتا تھا ۔ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر جیسے ہی پاکستان آئے ان کے وارنٹ جاری ہوئے۔ معروف کمیونسٹ سوبھو گیان چندانی جنھوں نے انگریز راج کے خلاف جدوجہد میں اپنی جوانی لگا دی تھی اور ہندو مخالف فسادات کے باوجود بھارت جانے سے انکار کیا تھا غدار پائے اور گرفتار کرلیے گئے۔ سندھ کے مسلم لیگ کے سابق رہنما جی ایم سید صوبوں کے حقوق کے علمبردار تھے۔
ان کا بیانیہ تھا کہ ملک 1940 کی قرارداد لاہور کی بناء پر قائم ہوا اور اس قرارداد میں کنفیڈریشن کی تجویز تھی۔ اس بناء پر صوبوں کو خودمختاری دی جائے، اس مؤقف کی بناء پر غدار قرار پائے۔ مسلم لیگ اپنی پالیسیوں کی بناء پر پورے ملک میں غیر مقبول ہو گئی تھی۔ مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ زیادہ غیر مقبول ہوئی۔
1954میں مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ مسلم لیگ کی مخالف جماعتیں جگتو فرنٹ میں متحد ہو چکی تھیں اور قیام پاکستان کے 7 سال بعد ان انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی۔ اے کے فضل الحق وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ کراچی سے کنٹرول کرنے والی مقتدرہ نے اس حکومت کو توڑ دیا اور اس فرنٹ میں شامل عوامی لیگ سمیت تمام جماعتوں کے رہنما غدار قرار پائے اور بیشتر کو جیل بھیج دیا گیا۔
1964 میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل لاء ایوب خان کو چیلنج کیا تو فاطمہ جناح کی کردار کشی کی ایک مہم شروع ہو گئی۔ عوامی لیگ سمیت حکومت مخالف جماعتوں نے فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی۔ فاطمہ جناح کے انتخابات ہارنے کے بعد عوامی لیگ نے 6 نکات پر مبنی منشور کا اعلان کیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن سمیت عوامی لیگ کی کابینہ غداری کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ جیلوں میں گئی۔ شیخ مجیب الرحمٰن جیل میں تھے کہ ان کو اگرتلہ سازش کیس میں ملوث کیا گیا ۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کی مسلسل نظربندی کی بناء پر ان کی مقبولیت میں بھی سو گنا اضافہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سرحد اور بلوچستان میں اکثریتی جماعتوں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کو سرحد اور بلوچستان میں اقتدار سونپا۔ بلوچستان کی حکومت برطرف کر دی۔
ولی خان، غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل اور خیر بخش مری سمیت بہت سے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور نیپ پر پابندی لگا دی گئی اور سپریم کورٹ نے حکومت کے نیپ پر پابندی کے ریفرنس کو منظور کر لیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف حیدرآباد سازش کیس قائم ہوا۔ پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی بخش تالپور کو اس مقدمہ میں ملوث کیا گیا۔
1977 میں پی این اے اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان مذاکرات میں جب نوابزادہ نصر اللہ خان نے حیدرآباد سازش کیس ختم کرنے اور ان رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو وزیر اعظم بھٹو نے فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کو بلایا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ اگر یہ مقدمہ واپس ہوا تو بلوچستان علیحدہ ہو جائے گا مگر تاریخی حقائق کے مطابق 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے حیدرآباد میں نظربند ولی خان سے ملاقات کی اور یہ تاریخی بیان دیا کہ حیدرآباد سازش کیس 90 فیصد سیاسی تھا اور یہ مقدمہ ریاست نے واپس لے لیا۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کو نظربند کیا۔ انھیں پھانسی ہوئی اور ایک دن اخبارات میں حکومت کا یہ ہینڈآؤٹ جاری ہوا کہ حکام نے 70 کلفٹن پر چھاپہ کے دوران خفیہ دستاویزات برآمد کی ہیں۔ ان دستاویزات سے ذوالفقار علی بھٹو کی ملک دشمنی ثابت ہوتی ہے، مگر یہ دستاویزات کبھی کسی عدالت میں پیش نہیں کی گئیں۔
1988 سے 1999 تک محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک قرار دیتے رہے۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے کوششیں کی گئیں، مگر یہ کوششں نامکمل رہیں تو صدر غلام اسحاق خان نے 18 ماہ بعد بینظیر بھٹو حکومت کو برطرف کر دیا۔
2005میں میثاق جمہوریت ہوا، یوں 2008 سے 2018 تک غدار قرار دینے کی روایت کمزور پڑی۔ سیاست دانوں کو غدار قرار دینے اور جیلوں میں بند کرنے سے برسر اقتدار حکومتیں اپنی عمر میں اضافہ نہ کر سکیں مگر لوگوں میں مایوسی بڑھی اور فاصلے طویل ہو گئے۔
یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت انتظامی طور پر کمزور ثابت ہوئی ہے۔ معیشت کو بہتر بنانے کے دعوے حقیقت کا روپ نہ دھار سکے، مہنگائی اور معاشی بحران نے عوام کو حکومت سے دور کر دیا۔ حکومت ماضی کے حکمرانوں کی پیروی کر رہی ہے جس سے صورتحال مسلسل تناؤ کا شکار ہے اگر وزیر اعظم عمران خان ماضی کے حکمرانوں کی روایات سے انحراف کرنا چاہیں تو انھیں اس بیانیہ کو ختم کرنا چاہیے اور عوام کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔
وہ ڈیپ اسٹیٹ کے پیچھے چھپ کر نہ تو اپنی حکومت کی عمر بڑھا سکتے ہیں نہ ملک کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ موجودہ مسئلے کا حل بانی پاکستان قائداعظم کی مارچ 1948 میں کوئٹہ کے اسٹاف کالج کی تقریر میں ہی مضمر ہے۔