’’پاکستان سوشلسٹ مائنڈ سیٹ کا حامل ایک سرمایہ دار ملک‘‘
تبدیلی کیلیے سبسڈیز کے بغیر دولت کمانے والوں کا تذکرہ عام کرنے کی ضرورت ہے
2 سال قبل ایک سیاست دان نے کہا تھا کہ ' پاکستان سوشلسٹ مائنڈ سیٹ کا حامل ایک سرمایہ دار (capitalist) ملک ہے یہ سیاست دان اب موجودہ حکومت کا حصہ ہیں۔
گذشتہ دنوں چیئرمین نیب کا بیان سامنے آیا کہ نیب ان لوگوں کے مقدمات دیکھ رہی ہے 1980ء کی دہائی میں جن کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں تھی اور آج وہ کثیرالمنزلہ عمارتوں کے مالک ہیں۔
چیئرمین نیب کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشلسٹ مائنڈ سیٹ آج بھی پایا جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے اور ذرائع ابلاغ جو رائے عامہ کی تشکیل کرتے ہیں، سوشلسٹ مائنڈ سیٹ کے حامل ہیں جبکہ عملی طور پر وہ سرمایہ درانہ ماڈل پر عمل کررہے ہیں۔
اگر 40 سال پہلے کوئی قلاش تھا اور آج وہ عمارتوں کو مالک ہے تو اس میں کیا غلط ہے؟ اس معاشرے میں ہم دولت کا منفی تصور کیوں رکھتے ہیں؟ اس سوال کا جزوی جواب 1970ء میں اداروں کو قومیانے چلنے والی تحریک تھی۔
جزوی جواب کاروباروں اور حکومت کے باہمی تعلق میں بھی پوشیدہ ہے۔ آج یہ تعلق مارکیٹ میں چینی، گندم، بجلی اور ہاؤسنگ میں نظر آتا ہے۔ جن مارکیٹوں میں ان کاروباروں اور حکومت کے درمیان تعلق عنقا ہو وہاں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ملکی کپڑے کی مارکیٹیں، کیوں کہ غریب سے غریب شہری بھی کپڑے خرید سکتا ہے۔ چھت اور خوراک کے مقابلے میں کپڑوں تک رسائی کوئی مسئلہ خیال نہیں کی جاتی۔
سوشلسٹ مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لیے ہمیں بالخصوص کاروباری حضرات کی داستانیں شیئر کرنے کی ضرورت ہے جنھوں نے سرکاری سبسڈیز سے دور رہ کر کامیابیاں سمیٹیں اور دولت مندوں کی صف میں شامل ہوئے۔