گنجی کبوتری محلوں میں ڈیرہ
ہماری مٹی بہت زرخیز ہے لیکن ہمیں اپنی اس خوبصورت مٹی کی قدر نہیں،ہاں اگر اس مٹی کا کوئی سپوت ملک سے باہر جاکرکوئی...
ہماری مٹی بہت زرخیز ہے لیکن ہمیں اپنی اس خوبصورت مٹی کی قدر نہیں،ہاں اگر اس مٹی کا کوئی سپوت ملک سے باہر جاکرکوئی ریکارڈ بناتا ہے تو ہمیں اس کی قدرکا اندازہ ہوتا ہے اس لیے کہ وہ قدر ڈالرز، پاؤنڈز یا یورو میں شمار ہوتی ہے لیکن انسان کی اہلیت اس کی قابلیت اور شوق بس بن مول ہی جاتے ہیں۔
ہمارے ایک پرانے جاننے والے ہیں، بچپن سے میں نے یہی دیکھا کہ جب گھر میں کسی کو کاغذات کی تصدیق کے لیے ضرورت پڑتی ان کے گھر کا رخ کیا جاتا اور چونکہ تعلقات خاصے پرانے ہیں لہٰذا آسانی سے کام ہو جاتا تھا۔ بائیس گریڈ کے افسر کی کیا قدر ہوتی ہے ان کے انتقال کے بعد مجھے احساس ہوا جب ایم اے کے داخلہ فارم کے سلسلے میں کاغذات کی تصدیق کے لیے مجھے نکلنا پڑا۔ بہرحال بات ہو رہی تھی اہلیت اور قابلیت کی۔ ان کے بڑے بھائی گلاسگو کی یونیورسٹی میں زولوجی ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے سنا تھا کہ بحری جہاز کے ذریعے وہ پردیس گئے تھے کیونکہ اس وقت یہ ذریعہ خاصا مقبول تھا اور ہوائی جہاز کے مقابلے میں سستا بھی تھا، موصوف نے پی ایچ ڈی کیا ہوا تھا ان کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں جو اس وقت نیا نیا آزاد ہوا تھا کام کرے لیکن یہاں ان کے لیے ایسے حالات پیدا کردیے گئے کہ ان کا دل اتنا برا ہوا کہ انھوں نے ملک ہی چھوڑ دیا۔
حالانکہ برصغیرکی سرزمین سے ان کے خاندان کا رشتہ بہت خوبصورت اور مضبوط تھا ان کے والد مرحوم نے ریاست میسور میں ایک مسجد بھی بنوائی تھی کیونکہ اس علاقے کے لوگوں کے لیے وہاں کوئی مسجد نہ تھی بہرحال جب دل برا ہوتا ہے تو سوائے تاریکی کے کچھ نظر نہیں آتا لہٰذا گوروں کے دیس روانہ ہوئے جہاں انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ غالباً اس مضمون میں پی ایچ ڈی کرنے والے برصغیر میں وہ پہلے مسلم تھے۔ خیر ایسے بڑے بڑے ناموں پر تو اب گرد جمع ہوچکی ہے اور گرد کو جھاڑے کون۔۔۔؟ کیونکہ یہاں تو وہ بات ہے کہ گنجی کبوتری محلوں میں ڈیرہ۔۔۔۔اور اب تو ایسے نااہل کبوتر اور کبوتریوں کی تعداد خاصی بڑھ چکی ہے کون سا محکمہ کھنگالیں کہ سب بیمار ہیں۔
بہت سے ایسے قابل اورہنرمند لوگ بھی ہیں کہ جنھیں ان کی ڈگریوں اور اہلیت کے باوجود معاشرے کے بے رحم تھپیڑوں میں خوار ہونا پڑ رہا ہے کہ ہر کسی کی پہنچ اتنی نہیں کہ وہ لوگوں کے دروازے کھٹکھٹا کھٹکھٹا کر اپنی داستان سنائے۔ ایسے ہی ایک اہل نوجوان ڈاکٹر خالد جنھوں نے جرمنی سے آرگینک کیمسٹری (نامیاتی کیمیا) میں پی ایچ ڈی کیا، اس اہل نوجوان کو حکومت پاکستان نے اس کی قابلیت کی بنا پر اسکالر شپ دیا تھا ۔کراچی یونیورسٹی آج بھی اہل طالب علموں کو پی ایچ ڈی کے لیے ملک سے باہر بھجواتی ہے، وقت کی ستم ظریفی ڈاکٹر خالد کو گردوں کی بیماری نے آ گھیرا ان کو ہفتے میں دو دن ڈائیلائسس کے لیے ضروری جانا ہوتا ہے ۔ ٹھنڈے مزاج کے اس نوجوان نے بڑے شوق سے کراچی یونیورسٹی کو جوائن کیا لیکن اس کی بیماری ایسی ہے کہ ہفتے کے دو دن اس کو دینا ضروری ہے چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ ایک باہمت شخص جس نے اپنے اردگرد کی پریشانیوں کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا، لیکن محکمے کی جانب سے اسے سخت مایوسی کا سامنا ہوا جب اسے یہ کہہ کر استعفیٰ دینے کو کہا کہ وہ انھیں ڈائیلائسس کے لیے دو دن نہیں دے سکتے لہٰذا ان کے اس عذر کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
ڈاکٹر خالد کو ان کے دوست عزیز اقارب نے سمجھایا کہ وہ اپنے اس کیس کو آگے تک لے جائیں وہ حق بجانب ہیں قابل ہیں لیکن اپنے سینئرز کے رویے سے دلبرداشتہ ڈاکٹر خالد نے خاموشی سے استعفیٰ دے دیا اور آج ایک قابل اور اہل انسان گھر پر بچوں کو ٹیوشنز پڑھا کر اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے کیا یہ ہمارا دوغلہ رویہ نہیں ہے آج بھی کراچی یونیورسٹی کے بہت سے ملازمین کو ان کی اہلیت کی بنیاد پر جانچ کر تو دیکھیے کون کتنا اہل ہے ثابت ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ درجنوں کھلی نئی یونیورسٹیوں میں کون کون کیا کیا پڑھا رہا ہے ذرا اس کو بھی کبھی چیک تو کیا جائے ضروری نہیں کہ جس کے نام کے ساتھ پروفیسر لگا ہو وہ واقعی پروفیسر ہی ہو سکتا ہے۔ وہ کوئی جونیئر ٹیچر ہو جس کے نام کے ساتھ پروفیسر لگا کر طالب علموں کو متاثر کیا گیا ہو۔ ایسے کچے پکے پڑھے لکھے لوگ جب واقعی خود کو قابل اور اہل سمجھ کر ملک سے باہر جاتے ہیں تو اپنی کم علمی کے باعث جلد ہی رخصت کر دیے جاتے ہیں۔
خدا گواہ ہے ذاتی طور پر مجھے ایک ایسی ہی ریٹائرڈ استاد کی قابلیت کے گراف کا علم ہوا تو چکرا کر رہ گئی خدایا یہ خاتون جو ایک لاکھ کے قریب تنخواہ حاصل کرتی تھی اردو میں نام بھی ٹھیک سے نہیں لکھ سکتی، مانا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن ایک اچھے استاد کے لیے اردو اور انگریزی دونوں پر دسترس رکھنا ضروری ہے جب کہ اس کا مضمون بھی اس کا متقاضی ہو لیکن آج وہ اساتذہ ہی نہ رہے کیونکہ کریم کو الگ کرکے کھرچن اوپر آ رہی ہے اس کھرچن کا سیلاب جو صرف اور صرف پیسے کی ریل پیل سے متاثر ہے کیا عذاب ڈھاتا ہے خدا جانے۔۔۔۔ تعلیم کے محکمے میں یہ عذاب تو چلتے ہی رہیں گے۔کیونکہ اساتذہ کی موٹی موٹی تنخواہیں منہ میں پانی بھر دیتی ہیں جب کہ پرائیویٹ ادارے اسی عمل کو مخالف سمت میں چلا رہے ہیں یعنی کم تنخواہوں پر ایسے اساتذہ کو رکھا جا رہا ہے جو اپنی کم قابلیت اور اہلیت کے باعث کسی اور محکمے میں چل نہیں سکتے۔ لہٰذا تعلیم کے محکموں میں آجاتے ہیں گلی گلی کالج، اسکول اور یونیورسٹیز کا جال بچھا ہے جب کہ بہت سے ادارے پھر بھی اپنی ساکھ بنانے کے چکر میں اپنے معیار کو برقرار رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اس کے عوض طالب علموں سے موٹی فیسیں وصول کی جا رہی ہیں۔
زرخیزذہن تو اس ملک میں بہت ہیں لیکن ابھی تک ان کی تراش خراش پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے کیونکہ ان کے پیچھے کوئی وزیر، سینیٹر یا سیاسی کارکن جو نہیں لہٰذا وہ اپنے تئیں اپنی سی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، بونیر کا ظاہر شاہ ملنگ جس کا گاؤں اندھیروں کا اسیر تھا اپنی محنتوں اور کاوشوں سے ہائیڈرو الیکٹرک کے ذریعے بجلی بنائی، ظاہر شاہ نے یہ کام محض ایک سو اسی روپے سے شروع کیا۔ شروع شروع میں لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا ان کا خیال تھا کہ یہ پروجیکٹ کامیاب نہیں ہوگا لیکن اس باہمت نوجوان نے اسے ممکن کر دکھایا بڑے بڑے بھاری سامان کندھوں پر اٹھاکر اونچے پہاڑ پر لے جانا خاصا مشکل تھا لیکن جب ہمت جواں ہو تو بڑے بڑے پہاڑ بھی ریت کے ٹیلے بن جاتے ہیں۔ اس کے اس عمل میں اس کا ایک دوست اور ایک وکیل ہارون رشید نے بھی اس کی مدد کی اور اس کام کی تکمیل کے لیے اپنی گاڑی تک بیچ دی، سلام ہے ان جوانوں پر جنھوں نے 2005 سے 2011 تک انتھک محنت کی اور بالآخر کامیاب ہوگئے ان کے علاقے کے ایک سو پچاس گھر بجلی سے روشن ہوگئے، سستی بجلی کا خواب نجانے کب پورا ہوگا لیکن حکومتی اداروں کے بغیر کم پیسوں کی بجلی ایک نوجوان کی ہمت سے ممکن ہوگئی خدا کرے کہ ہم اپنے زرخیز ذہنوں سے اپنے ملک کے خزانوں کو بھرنے اور ترقی کا خواب جلد مکمل کرسکیں۔( آمین)