حقیقی جمہوریت
اگر ملک میں جمہوری حکومت قائم ہے، چاہے وہ لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہو لیکن ہوتی تو جمہوریت ہی نا۔
اپوزیشن ہمیشہ حقیقی جمہوریت کی تلاش میں رہتی ہے تو دوسری جانب حکومت اپنے آپ کو جمہوریت کا اصل وارث سمجھتی ہے۔ حکومتوں کا یہ خیال درست ہوتا ہے کہ اگر ملک میں جمہوری حکومت قائم ہے، چاہے وہ لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہو لیکن ہوتی تو جمہوریت ہی نا۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہم آزادی کی سات سے زائد دہائیاں گزارنے کے باوجود بھی حقیقی جمہوریت کی تلاش میں ہیں۔
یعنی ہمارے سیاسی لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت صرف اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ اقتدار میں ہوں اور جب وہ اقتدار میں نہ ہوں تو چاہے ملک میں جمہوری حکومت قائم بھی ہو لیکن ان کی نظر میں نہ تو وہ حکومت جمہوری ہوتی ہے اور جمہوریت بھی خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔
پاکستانی سیا ست دانوں میں ابھی تک اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کہ ان کی نظر میں حقیقی جمہوریت کیا ہے۔ مجھے تو جو سمجھ آ رہی ہے وہ یہی ہے کہ حکومت میں ہونا جمہوریت ہے اور حکومت سے باہر جمہوریت نظر نہیں آتی۔ بہر حال ہمارے لیڈروں کو یہ مغالطہ ایک مدت سے چلا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا اور ہم عوام اپنے لیڈروں کے پیدا کردہ انھی مخمصوں میں زندگی کے دن کاٹتے رہیں گے ۔
پاکستان کی گرم سیاست ان دنوں ملک کے شمالی علاقہ جات کے ٹھنڈے پہاڑوں میں گھوم رہی ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے الیکشن منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت ان دنوں گلگت بلتستان میں اپنی گرجدار آوازوں کو یخ بستہ پہاڑوں سے ٹکرا رہی ہے ۔
نوجوان بلاول بھٹو پیپلز پارٹی میں نئی روح پھونکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، وہ پیپلز پارٹی کو ایک فعال سیاسی پارٹی کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرنے میں مصروف ہیں اور پارٹی سے سیاسی غیرمقبولیت کا لیبل اتارنے کی تگ ودو میں ہیں۔ دوسری طرف ان کی غیر فطری اتحادی جماعت نواز لیگ، جس کی نمایندگی ان دنوں مریم نواز شریف کر رہی ہیں، وہ اپنے والد میاں نواز شریف کے بیانئے کو آگے بڑھا رہی ہیں جس بیانئے کے متعلق ان کی اپنی پارٹی میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
اور اسی اختلاف رائے کی وجہ سے نواز لیگ کے صف اول کے کئی رہنماء اور میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی ان کے نئے بیانئے سے اتفاق کرتے نظر نہیں آتے۔ وہ اپنے آپ کواس بھاری بھرکم بیانئے کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں سمجھتے لیکن مجبور ہیں اور میاں نواز شریف کو انکار بھی نہیں کر سکتے اس لیے ان میں چند ایک تو خاموش ہو گئے ہیں جب کہ بلوچستان سے دو رہنماؤں نے نواز لیگ سے الگ ہونے کا واضح فیصلہ کرتے ہوئے پارٹی سے اپنی سیاسی راہیں جدا کر لی ہیں۔
ان حالات میں نواز لیگ میں مزید توڑ پھوڑ کی پیشگوئیاں بھی کی جا رہی ہیں لیکن میاں نواز شریف اپنے بیانئے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔ میاں صاحب نہایت ہی زیرک ، مدبر اور سیاسی داؤ پیچ کے ماہرسیاست دان ہیں اور پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹی کو لیڈ کرتے ہیں، واقفان حال کہتے ہیں کہ انھوں نے جو نیا بیانیہ عوام کے سامنے رکھا ہے اس کے پس منظرمیں کوئی ایسی بات پوشیدہ ہے جس کو وہ ابھی سامنے نہیں لا رہے اور مناسب وقت اور موقع کے منتظر ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ کسی ایسے مقتدر حلقے کی آشیر باد سے اپنے بیانئے پر ڈٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ماضی میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں سعودی عرب نے میاں نواز شریف کو پاکستانی سیاست میں واپسی کے لیے بھر پور مددکی تھی لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت ایک نوجوان رہنماء کے سپرد ہے۔ پاکستان کے ''دوست'' امریکا میں بھی حکومت تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ ٹرمپ الیکشن ہار چکے ہیں۔ جو بائیڈن آیندہ چار سال کے لیے امریکا کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ سپر پاور امریکا کی نئی حکومت کی اپنی ترجیحات ہوں گی جس کا علم جو بائیڈن کے حکومت کے تخت پر بیٹھنے کے بعد ہی ہو گا۔
پاکستان کی سیاسی صورتحال واضح نہیں ہے ۔ اپوزیشن نے حکومت مخالف اتحاد تو تشکیل دے دیا ہے اور اس اتحاد کے جھنڈے تلے جلسے بھی شروع کر دیے ہیں لیکن رفتہ رفتہ جو صورتحال سامنے آ رہی ہے، اس سے یہ بات البتہ واضح ہو چکی ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان اتحاد تو ہو چکا ہے لیکن اتفاق نہیں ہے، ان کے درمیان رابطوں کا فقدان بھی ہے اور کسی ایک ایجنڈے پر وہ متفق بھی نہیں ہیں ۔ اپوزیشن کی ہر پارٹی کا اپنا الگ ایجنڈہ اور ترجیحات ہیں جو اتحاد کے فوراً بعد نظر آنا بھی شروع ہو گئی ہیں۔ اپوزیشن کی کوئی بھی سیاسی پارٹی اپوزیشن اتحاد میں کسی دوسری پارٹی کو سبقت دینے کو تیار نظر نہیں آتی کجا کہ وہ میاں نواز شریف کے بیانئے کا بوجھ اٹھا سکیں۔
عوامی رہنماء جب بھی عوام کے پاس جاتا ہے تو عوام اس کے پاس کھینچے چلے آتے ہیں لہٰذا اس بات کو کسی سیاسی جماعت کی مقبولیت کاپیمانہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں پارٹی کے جلسے میں کتنا ہجوم تھا۔ میں نے زندگی بھر جلسوں کی رپورٹنگ کی ہے اور عوامی سمندر بھی دیکھے ہیں لیکن الیکشن کے نتائج کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام تک براہ راست اپنی بات پہنچانے کے لیے سیاسی جلسے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے سیاسی میدان میں اپوزیشن رہنماؤں کی جانب دھواں دھار تقاریر کا سلسلہ جاری ہے۔
عوام ان کے جلسوں میں شرکت کر رہے ہیں، عوامی پذیرائی ان کی تقریروں کو جلا بخش رہی ہے، بھر پور سیاسی سرگرمی کا مظاہرہ جاری ہے۔ لیکن اتنی بڑی سیاسی سرگرمی کے باجود ان کو حقیقی جمہوریت نظر نہیں آ رہی اور میرے لیڈروں کی نظر میں حقیقی جمہوریت صرف وہی جمہوریت ہوتی ہے جس میںوہ حکمران ہوتے ہیں۔