نیشنل بینک کی صدارت سیاسی حمایت یافتہ عہدیداروں میں دوڑ دھوپ تیز

50 میں سے 6 امیدوار بینک ہی کے ملازم ہیں، قائم مقام صدر آصف حسن سامنے نہیں آئے.


Zahid Gishkori December 24, 2013
کئی امیدواروں پر کرپشن الزامات، 28 سالہ ارباب دلاور، 34 سالہ زوبیہ حنیف، ڈاکٹر بھی امیدوار فوٹو: اے پی پی / فائل

نیشنل بینک آف پاکستان کے اعلیٰ عہدے کے حصول کیلیے عہدیداروں میں دوڑ دھوپ تیز ہوگئی ہے جبکہ اس دوران ایسی اطلاعات ہیں کہ اس عہدے کیلیے معروف دعویداروں کو سیاسی حمایت حاصل ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس عہدے کے حصول کیلیے دعویداروں میں دوڑ گزشتہ ہفتے اس وقت اپنے عروج کو پہنچ گئی جب نیشنل بینک آف پاکستان کے قائم مقام صدر آصف حسن نے فنانس منسٹری کو لکھ بھیجا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بہت سے اہم مسائل حل نہیں ہوئے اور وہ اب اس قابل نہیں رہے کہ اس عہدے پر مزید کام کرسکیں۔ نیشنل بینک کے سینئر حکام نے بتایا کہ نیشنل بینک کی صدارت کے عہدے کیلیے موصول ہونیوالی 50 درخواستوں میں سے 6 درخواست گزار ایسے ہیں جو کہ متذکرہ بینک کے ملازم ہیںاور ان میں سے بھی 4 امیدوار ایسے ہیں جو ماضی میں اس عہدے پر رہ چکے ہیں۔ جیسا کہ نیشنل بینک عوامی فنڈکے ٹرسٹی کے طور پرکام جاری رکھے ہوئے ہے، بعض سینئر افسران کرپشن الزامات پر تحقیقات کا سامنا بھی کررہے ہیں جس وجہ سے اسکروٹنی میں بے قاعدگی کا سامنا ہے۔

2011 میں سپریم کورٹ نے سابق صدر علی رضا کو ان کی غیرقانونی تعیناتی پر برطرف کردیا تھا۔ ذرائع کے مطابق بعض سینئر افسران کا دعویٰ ہے کہ کچھ اہم امیدواروں کو سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہے، ان کے مطابق ان امیدواروں نے ایک ماہ قبل ایک اشتہار کے جواب میں صدارت کے عہدے کیلیے اس عہدے کیلیے درخواستیں دیں۔ بینک کے ایک بہت ہی سینئر افسر ڈاکٹر آصف بروہی نے اس عہدے کیلیے درخواست ہی نہیں دی کیونکہ انہیں جبری طور پر ستمبر میں6 ماہ کی رخصت پر بھیج دیا گیا، اسی طرح قائم مقام صدر آصف حسن نے بھی اس عہدے کیلئے درخواست نہیں دی ہے۔ فنانس ڈویژن پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو لکھے اپنے ایک خط بعنوان F.No3(14) Bkg-111/2013 میں یہ درخواست کرچکا ہے کہ پبلک سیکٹر آرگنائزیشن کیلیے وفاقی کمیشن بنایا جائے۔



فنانس ڈویژن نے اسٹیبلشنمنٹ ڈویژن کو مطلع کیا ہے کہ بینک کی صدارت کے عہدہ کیلئے وہ 7 اکتوبر کو سروس ریگولیشن' جاب ڈسپکریپشن کو بھی ثابت کرچکا ہے۔ نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ منیر کمال جنہیں اس عہدے پر مسلم لیگ(ن)کی حکومت نے ساڑھے 3 ماہ قبل تعینات کیا تھا وہ بھی صدارتی امیدواروں کی لسٹ میں اہم امیدواروں میں سے ایک ہیں۔ اس فہرست میں مزید یہ بات سامنے آتی ہے کہ64 سالہ سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ ڈاکٹر مرزا ابرار بیگ نے بھی اس عہدے کیلیے درخواست دے رکھی ہے جبکہ نیب نے گزشتہ برس ڈاکٹر مرزا ابرار بیگ کیخلاف بے قاعدگیوں پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ اسی طرح سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ 58 سالہ ضیا اللہ خان جن کے ذرائع کے مطابق سیاسی تعلقات ہیں وہ بھی دیگر ساتھیوں 55 سالہ کوثر اقبال ملک اور 61 سالہ امام بخش بلوچ کیساتھ ساتھ اس عہدے کے حصول کی دوڑ میں شامل ہیں۔ بینکنگ میں ایم بی اے کرنے والے 28 سالہ ارباب دلاور بھی نیشنل بینک کی صدارت کے عہدے کے امیدوار ہیں۔

ایک اور امیدوار دی بینک آف پنجاب کی 34 سالہ زوبیہ حنیف نے بھی درخواست دے رکھی ہے' اس خاتون کے پنجاب گورنمنٹ سے تعلقات بتائے جاتے ہیں۔ ایک انفرمیشن ٹیکنالوجی کے منیجر 37 سالہ سہیل یونس نے بھی این بی پی کی صدارت کیلئے درخواست دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر جن کا بینکنگ میں کوئی بھی تجربہ نہیں ہے ڈاکٹر منصور احمد نے بھی اس عہدے کیلیے درخواست دے دی ہے۔ نیشنل بینک کے ترجمان سید ابن حسن نے بتایا کہ ابھی تک عہدہ صدارت کیلیے نئی تعیناتی میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے جبکہ فنانس ڈویژن سے معاملات ابھی چل رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں کہ قائم مقام صدر نے بیان دیا ہو کہ وہ اب اس عہدے پر مزید کام نہیں کرسکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں