گلگت بلتستان الیکشن 2020ء

علاقے کے عوام کی قومی سیاسی دھارے میں مکمل شمولیت پارٹیوں کی فتح و شکست سے کہیں زیادہ اہم ہے


علاقے کے عوام کی قومی سیاسی دھارے میں مکمل شمولیت پارٹیوں کی فتح و شکست سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ فوٹو: فائل

گلگت بلتستان کے سات لاکھ ووٹرز آج چوبیس میں سے تیئس نشستوں پر اپنے نمائندگان منتخب کرنے کے لئے ووٹ ڈالیںگے۔ ان میں سے سوا لاکھ نئے ووٹرز ہوں گے۔ان انتخابات کی سب سے خاص بات غیرمعمولی طور پر جوش و خروش ہے جو پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے۔ اس بار انتخابی مہم میں اس قدر زیادہ جوش و خروش دیکھنے کو ملا ہے کہ ملک کے باقی حصوں میں بسنے والے بھی 15نومبر کے انتخابات اور ان کے نتائج کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔

انتخابات2020ء میں سب سے زیادہ نمایاں تین پارٹیاں ہی نظر آرہی ہیں، مسلم لیگ ( ن ) جو حال ہی میں یہاں کی سابقہ حکمران جماعت بنی ہے، وہ اس کوشش میں ہے کہ ایک بار پھر اسے حکمرانی عطا ہو، دوسری پیپلزپارٹی جس کا یہاں اچھا خاصا ووٹ بنک موجود ہے، اور جس کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران باقی سارے کام چھوڑ کر گلگت بلتستان ہی میں ڈیرے ڈالے رکھے، انھیں امید ہے کہ اب حکمرانی انہی کی پارٹی کو ملے گی، تیسری تحریک انصاف ہے، جو اس روایت کو ذہن میں رکھے ہوئے ہے کہ مرکز میں جس پارٹی کی حکمرانی ہوتی ہے،گلگت بلتستان میں بھی اسی کی حکومت ہوتی ہے۔ دیگر کئی جماعتیں بھی میدان میں ہیں، مثلاً مجلس وحدت مسلمین، اسلامی تحریک پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی۔ آزاد امیدواروں کی بھی بڑی تعداد انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔

اب تک مختلف اداروں کے تحت ہونے والے رائے عامہ کے جائزے ظاہر کررہے ہیں کہ نتائج روایت کے مطابق ہی آئیں گے یعنی جس پارٹی کی مرکز میں حکمرانی ہوگی، وہی گلگت بلتستان کے انتخابات میں زیادہ بڑی جماعت بن کر ابھرے گی ۔ '' گیلپ پاکستان '' کے سروے کے مطابق 27 فیصد لوگ تحریک انصاف کو ووٹ دیں گے ، 24 فیصد نے کہا کہ وہ پیپلزپارٹی ، 14فیصد نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے کا خیال ظاہر کیا۔ 12فیصد نے آزاد امیدواروں کے حق میں بات کی جبکہ چار فیصد نے جمعیت علمائے اسلام کا نام لیا۔

ایک دوسرے ادارے ' پلس کنسلٹنٹ ' کے تحت رائے عامہ کا جائزہ تحریک انصاف کے حق میں زیادہ شرح بتا رہا ہے۔ اس کے مطابق 35فیصد نے تحریک انصاف کو ووٹ دینے کی بات کی۔26فیصد نے پیپلزپارٹی کو ،14فیصد نے مسلم لیگ ن اور 12فیصد نے آزادی امیدواروں جبکہ چار فیصد نے جمعیت علمائے اسلام کے حق میں فیصلہ سنایا۔ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام اور آزادی امیدواروں کے لئے پسندیدگی کی شرح دونوں جائزوں میں ایک جیسی ہے۔

رائے عامہ کے ان جائزوں کے مطابق عمران خان اب بھی وہاں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ ان کی مقبولیت کی شرح 41 سے 42 فیصد ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی مقبولیت کی شرح' پلس ' کے مطابق 23 فیصد جبکہ گیلپ کے مطابق 17فیصد ہے۔ نوازشریف کی مقبولیت ' پلس' کے مطابق 16فیصد ،' گیلپ ' کے مطابق 15فیصد ہے۔ ' پلس ' کے مطابق مریم نواز 10فیصد لوگوں کی پسندیدہ رہنما ہیں جبکہ گیلپ کے مطابق محض تین فیصد۔ ' پلس ' کے مطابق آصف علی زرداری آٹھ فیصد ، مولانا فضل الرحمن چھ فیصد، سراج الحق تین فیصد جبکہ شہباز شریف دو فیصد مقبول ہیں۔ گیلپ کے مطابق مولانا فضل الرحمن چار فیصد ، مریم نواز تین فیصد، آصف علی زرداری دو فیصد جبکہ سراج الحق اور شہباز شریف کی مقبولیت کی شرح ایک، ایک فیصد ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ لوگ اسی پارٹی کو ووٹ دیں گے جس کے وعدوں پر وہ زیادہ یقین کریں گے۔

گلگت بلتستان ایسا علاقہ ہے جہاں کے لوگوں کو ملک کے باقی کئی حصوں کی نسبت زیادہ وسائل کی ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگوں کو کیا مسائل درپیش ہیں؟ اس حوالے سے لوگوں سے رائے لی گئی۔ '' پلس کنسلٹنٹ '' کے مطابق 48 فیصد لوگوں نے کہا کہ یہاں ہسپتالوں کی ضرورت ہے،35 فیصد نے انفراسٹرکچر نہ ہونے کی بات کی،33 فیصد نے کہا کہ تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے،30 فیصد نے بے روزگاری کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔27 فیصد نے بجلی نہ ہونے اور 20فیصد نے پانی کی عدم دستیابی کی بات کی۔

دوسری طرف 'گیلپ' نے یہی سوال لوگوں سے پوچھا تو اس کو ملنے والے جوابات کی شرح یکسر مختلف تھی، اس کے سروے میں 38فیصد نے بجلی نہ ہونے کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا، 13فیصد نے کہا کہ پینے کے لئے صاف پانی نہیں ہے، 12فیصد نے تعلیمی اداروں کا نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔10فیصد انفراسٹرکچر ، سات فیصد نے بے روزگاری اور چھ فیصد نے ہسپتالوں کے نہ ہونے کو سب سے بڑا مسئلہ بتایا۔

ان مسائل کے تناظر میں یہاں کے لوگوں کو اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے ترقی کے زیادہ منصوبوں اور زیادہ ترقیاتی فنڈز کی ضرورت ہے۔ جہاں ایسے حالات ہوں، وہاں نظریاتی اور سیاسی وابستگیوں سے زیادہ دیکھا جاتاہے کہ کون سی پارٹی فنڈز دے سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ حکمران جماعت ہی نے فنڈز فراہم کرنے ہوتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں انتخاب کے دن لوگوں نے اس سوچ کو بنیاد بنایا اور سابقہ روایت کو برقرار رکھا تو تحریک انصاف کا پلڑا بھاری معلوم ہوتا ہے۔ انتخابات سے قبل جس طرح مسلم لیگ ( ن ) سے وابستہ رہنماؤں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، اس نے بھی اس امکان کو پختہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کو باقاعدہ صوبہ کا درجہ دینے کا وعدہ کیا، اس نے بھی تحریک انصاف کے پلڑے میں وزن پیدا کیا ہے کیونکہ یہاں کے 66فیصد لوگ اپنے علاقے کو باقاعدہ صوبہ کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے بھی اسی قسم کے وعدے کیے ہیں۔ ہر جماعت کا دعویٰ ہے کہ دوسری جماعت خالی خولی وعدے کررہی ہیں، اصلاً وعدہ تو وہی پورا کرے گی۔

بعض ماہرین اور تجزیہ کار پیپلزپارٹی کا پلڑا بھاری محسوس کرتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یہاں پیپلزپارٹی کو پسند کرنے والے بڑی تعداد میں ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کسی بھی دوسری پارٹی سے پہلے انتخابی مہم کی غرض سے یہاں پہنچے۔ وہ گلگت بلتستان کے ہر علاقے میں گئے۔ ان کی اس مہم سے ان کے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری بہت خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ '' بلاول نے اپنے نانا اور والدہ کے انداز میں محنت سے مہم چلائی۔'' پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے لئے اپنی خدمات کا تذکرہ کرتی ہے ، اسکی سابقہ حکومت نے گلگت بلتستان کو باقاعدہ صوبہ بننے کی شاہراہ پر ڈالا۔ یہ بھی سمجھا جاتاہے کہ اس علاقے کو جو کچھ بھی مل چکا ہے ، اس کا بڑا حصہ پیپلزپارٹی ہی کے ادوار میں ملا۔ اگر آج ہونے والے انتخابات کے تناظر میں پیپلزپارٹی کا پلڑا بھاری معلوم ہوتاہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی فیکٹر ہے۔ پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ اگلا وزیراعلیٰ جیالا ہوگا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوگی۔

مسلم لیگ ن بھی پرامید ہے کہ وہ اگلی حکومت بھی بنائے گی۔ مسلم لیگی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کی حافظ حفیظ الرحمن حکومت نے علاقے کو تاریخی ترقی دی ہے۔ اس امید کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کا بھی موقف ہے کہ گلگت بلتستان میں دھاندلی کے انتظامات کئے گئے ہیں۔اس کے مطابق انتخابی مہم چلانے کے لئے جو مواقع تحریک انصاف کے لئے جائز تھے، وہ باقی جماعتوں کے لئے ناجائز قرار دئیے گئے۔ ان کا کہناہے کہ گلگت بلتستان میں 15نومبر کو ووٹ چوری ہوا تو اْس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔

مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے حلقہ دیامر 2 سے کا حوالہ دیا جہاں سرکاری ملازمین کی تعداد 700 ہے لیکن پوسٹل بیلٹ پیپرز 1791 کی تعداد جاری کر دیئے گئے۔گزشتہ دنوں مریم نوازشریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ایک ملاقات ہوئی جس کے اعلامیہ میں بھی دھاندلی کے حوالے سے خدشات ظاہر کئے گئے تاہم دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کا کہناہے کہ دھاندلی ہوئی تو وہ یہاں ایک بڑی احتجاجی مہم چلائیں گے۔

انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو تینوں پارٹیوں نے بڑے بڑے جلسے کئے۔ جلسوں کا موازنہ کیا جائے تو یہ کہنا مشکل ہوگا کہ کس پارٹی کا جلسہ دوسری پارٹیوں سے بڑا تھا ۔ غالب امکان ہے کہ گلگت بلتستان میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جنھوں نے تینوں جلسوں میں شرکت کی، انھوں نے جاننے کی کوشش کی کہ کون سی جماعت ان کے لئے بہتر وعدے کرتی ہے اور کس کے وعدوں میں زیادہ پختگی ہے۔

سابقہ سطور پر ذکر کیا گیاہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو یہاں کے انتخابات میںدھاندلی کے خدشات ہیں۔ خود گلگت بلتستان کے، جن لوگوں کا خیال ہے کہ شفاف انتخابات نہیں ہوں گے، ان کی شرح صرف 11 سے 20 فیصد ہے جبکہ 28 سے 51 فیصد نے کہا کہ وہ اس بابت کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اگرچہ دھاندلی کی بات کرنے والے عام لوگوں کی تعداد کم ہے لیکن شفاف انتخابات کی توقع ظاہر کرنے والوں کی شرح بھی زیادہ نہیں۔یہ صورت حالتقاضا کرتی ہے کہ گلگت بلتستان کا الیکشن کمیشن بہتر انتظامات کرے، اس کے نتیجے میں لوگوں کی سیاسی عمل میں شمولیت اور جوش و خروش میں اضافہ ہوگا۔ اگر دنیا کے دوسرے معاشروں میں لوگ بڑھ چڑھ کر انتخابی عمل میں حصہ لیتے ہیں تو پاکستان اور اس کے صوبوں میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔ حال ہی میں امریکی انتخابات میں ٹرن آؤٹ کا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی لوگوں کو صاف وشفاف انتخابات کا یقین ہو تو یہاں بھی ریکارڈ قائم ہوسکتے ہیں۔ملک اور قوم کی بہتری کے لئے ایسا ہونا از حد ضروری ہے۔

گلگت بلتستان: 1947 ء سے 2020 ء تک

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے یکم نومبر 2020 ء کو گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنا نے کا اعلان کیا ہے جبکہ انتخابی مہم کے دوران چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری گلگت بلتستان کو مکمل صوبہ بنانے کے وعدے کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے آج تک گلگت بلتستان میں نظام حکومت چلانے کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ تقسیم برصغیر سے اب تک گلگت بلتستان میں کوئی مستقل نظام حکومت قائم نہ ہو سکا ، نتیجتاً یہاں بڑے پیمانے پر احساس محرومی پایا جاتا ہے۔

گلگت بلتستان کا نظام 1947ء سے اب تک کیسے چلتا رہا؟اس پر مختصر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گلگت یکم نومبر 1947ء کو آزاد ہوا اور بلتستان کے علاقے 14 اگست 1948ء تک آزاد ہوئے تاہم یکم نومبر1947ء سے 16 نومبر 1947 ء تک گلگت کی حیثیت آزاد ریاست کی رہی ۔ پھر سولہ نومبر کو شمالی مغربی سرحدی صوبہ ( جس کا آج نام خیبر پختونخوا ہے ) کے انتظام میں لایا گیا اور سردار عالم خان کو گلگت میں پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا گیا۔ اس کے ساتھ یہاں ایف سی آر (فرنٹئیر کرائم ریگولیشن)کا نفاذ کیا گیا۔ ایک سال بعد بلتستان (سکردو اور دیگر نئے آزاد ہونے والے علاقوں)کو بھی اسی سیٹ اپ میں شامل کیا گیا۔

ایف سی آر کے نفاذ کے ڈیڑھ سال بعد 28 اپریل 1949ء کو آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر اور فیڈریشن آف پاکستان کے درمیان کراچی میں ایک معاہدے (جسے معاہدہ کراچی کہا جاتا ہے )کے ذریعے اس علاقے کی پرانی حیثیت بحال کرتے ہوئے صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا)کے انتظام سے نکال کر متنازع ریاست جموں کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود اسے آزاد کشمیر سے الگ رکھا گیا اور ایف سی آر برقرار رہا۔ یہ نظام حکمرانی 1971ء تک چلتا رہا سابق صدر ایوب خان نے1960ء میں بی ڈی (Basic Democratic) نظام کے تحت انتخابات کروائے لیکن مقامی حکومت کچھ کام نہ کر سکی۔

1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے شمالی علاقہ جات ( گلگت بلتستان) سے ایف سی آر کو ختم کیا اور صرف پولیٹیکل ایجنٹ کو باقی رکھا۔ اس کے ساتھ ہی بھٹو نے نادرن ایریا ایڈوائزری کونسل قائم کی جو چار سال تک رہی اور پھر1975ء میں بھٹو نے نادرن ایریا ایڈوائزری کونسل کو نادرن ایریاز کونسل میں تبدیل کیا جس کے آٹھ ممبرز گلگت بلتستان کے عوام منتخب کرتے تھے اور آٹھ وفاق کی جانب سے مقرر کردہ ہوتے۔ اس کونسل کا چیف ایگزیکٹو وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کو مقرر کیا گیا تھا۔ بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ضیاالحق کا مارشل لا آیا تو نادرن ایریاز کو E زون قرار دیا اور 1981ء میں پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ کا نفاذ نادرن ایریاز تک وسیع کر دیا گیا۔

1993 ء میں آزاد جموں کشمیر ہائی کورٹ نے آزاد حکومت کو حکم دیا کہ آزاد حکومت پاکستان سے کیے گئے معاہدہ کراچی منسوخ کر کے گلگت بلتستان کا انتظام سنبھالے،آزاد جموں کشمیر اسمبلی میں گلگت بلتستان کو نمائندگی دی جائے اور سرکاری ملازمتوں میں ان کیلئے کوٹہ مختص کیا جائے۔ تاہم آزاد حکومت نے عملدرآمد کے بجائے آزاد جموں کشمیرکے اس وقت کے وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان اور فیڈریشن آف پاکستان نے فیصلے کو سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر میں چیلنج کیا۔ جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 74 ء میں گلگت بلتستان کی جگہ موجود نہیں اس لئے ایسا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی آزاد کشمیر ہائی کورٹ ریاست پاکستان کے خلاف کسی ریفرنس کی سماعت کر سکتی ہے۔

1994میں بے نظیر نے پہلی مرتبہ گورننس آرڈر دیا جس کے مطابق عدالتی اصلاحات اور دیگر تبدیلیاں ممکن ہو سکیں۔ اس آرڈر کے تحت عدالتی نظام میں بہتری لا نے کی غرض سے چیف کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے ساتھ ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ متعارف کروایا گیا۔اس آرڈر کے مطابق چیف ایگزیکٹیو نادرن ایریاز وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات تھا اور ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے پاس صرف وہی اختیارات ہوتے جو اسے چیف ایگزیکٹو تفویظ کرتا تھا۔ اس کے علاوہ کسی قسم کے اختیارات کی تشریح اس گورننس آرڈر میں نہیں تھی۔

الجہاد ٹرسٹ نامی تنظیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ شمالی علاقہ جات کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یہاں کے عوام کا حق حکمرانی بحال کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے یا پھر علاقہ کے باشندگان کو حق رائے دہی کے آزادانہ استعمال کے ذریعے اپنی اسمبلی قائم کرنے ، اپنے علاقے کا نظم و نسق خود سنبھالنے اور اپنے معاملات خود طے کرنے سے نہ روکا جائے۔

جب تک حقوق نہیں دئے جاتے اس وقت تک ٹیکس وصول نہ کیا جائے اور اگر شمالی علاقہ جات پاکستان کا حصہ نہیں ہیں تو سرحد قائم کی جائے اور مداخلت بند کی جائے۔جس پر 1999میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ شمالی علاقہ جات کے عوام چونکہ تمام قانونی دستاویزات پاکستان کی استعمال کرتے ہیں اس لئے ان کو پاکستان کا شہری مانا جائے۔ وہ ٹیکس دیتے ہیں اس لئے ان کو مکمل آئینی و سیاسی حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کے دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔ تاہم پارلیمنٹ یہ فیصلہ کرے کہ وہاں کیا نظام حکومت ہونا چاہئیے اور چھ ماہ میں قانون سازی کر کے اصلاحات لائی جائیں۔

اس فیصلے کے بعد نواز شریف حکومت نے نادرن ایریا ایڈوائزری کونسل کو قانون ساز کونسل کا درجہ دیا جسے 47 مقامی اسبجیکٹس میں قانون سازی کے اختیارات حاصل تھے۔ یہ تمام اسبجیکٹ میونسیپلٹی طرزکے تھے۔ اس قانون ساز کونسل کو چلانے کیلئے پہلی مرتبہ اسپیکر کا عہدہ متعارف کروایا گیا۔(خیال رہے کہ 1975سے 1999 تک نادرن ایریاز کونسل کے اجلاس وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کی زیر صدرات ہوتے تھے)۔

نواز شریف حکومت کے بعد جنرل (ر) مشرف نے ان اصلاحات کو جاری رکھتے ہوئے نومبر 1999ء اور پھر 2004 ء میں قانون ساز کونسل کے انتخابات کروائے اور 2005ء کورٹ آف اپیل قائم کی گئی جسے2007 ء میں چیف اپیلٹ کورٹ کا درجہ دیا گیا۔ یہ عدالت تین ججز پر مشتمل ہے جس کا چیف جج غیر مقامی (گلگت بلتستان سے باہر) ہوتا ہے۔ اس کے بعد دسمبر 2007میںقانون ساز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ دیا۔ان اصلاحات کے باوجود نظام پر وزارت امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کا تسلط برقرار رہا اور وزیر امور کشمیر اس نظام کے چیئرمین بنا دیا گیا۔

دو سال کے مختصر عرصہ بعد 2009ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر کے سیٹ اپ سے ملتا جلتا سیٹ اپ لایا جس میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ساتھ گلگت بلتستان کونسل بھی متعارف کروائی گئی اور پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کو نام ملا اور سرکاری طور پر شمالی علاقہ جات کے بجائے گلگت بلتستان کہا اور لکھا جانے لگا اس کے ساتھ گلگت بلتستان کا یوم آزادی یکم نومبر کو سرکاری طور پر منایا گیا (اس سے قبل گلگت کا یوم آزادی یکم نومبر جبکہ سکردو میں یوم آزادی 14 اگست کو منایا جاتا رہا ہے)۔

اس نظام کے تحت گلگت بلتستان میں قانون سازی کے اختیارات وزیر اعظم پاکستان کے پاس تھے۔2009 ء کے حکم نامے میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں وزیر اور وزارت کے الفاظ متعارف کروائے گئے(اس سے قبل گلگت بلتستان میں مشیر یا ایڈوائزر ہوتے تھے جن کو چیف ایگزیکٹو نامزد کرتا تھا اور وزیر امور کشمیر منظوری دیتا تھا)۔ اس حکم نامے کے مطابق گلگت بلتستان کا ڈومیسائل رکھنے والا شخص ہی گلگت بلتستان کا شہری کہلاتا ہے اور گلگت بلتستان میں پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ پر عملدرآمد ختم ہو گیا تھا۔ اس نظام میں عدلیہ کے ججز کی تقرری کا اختیار وفاقی وزیر امور کشمیر کے پاس تھا۔

اس نظام کو نو سال بعد گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے ذریعے نیا نظام دیا گیا ہے جس میں وہاں کے عوام کو امید تھی کہ گلگت بلتستان کو اندرونی طور پر قانون سازی کے اختیارات ملیں گے لیکن اس حکم نامے کے مطابق گلگت بلتستان کے تمام اختیارات کا منبع وزیراعظم پاکستان ہی رہے۔ اس آرڈر کو گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور فاضل عدالت نے 2018 کے حکم نامے کو کالعدم قرار دیدیا تھا اور گلگت بلتستان بار کونسل نے حقوق کے حصول کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی جس پر فیصلہ دیتے ہوئے 17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نے فیصلہ دیا جس میں وفاق کی جانب سے تجویز کردہ گلگت بلتستان آرڈر 2019 بھی شامل ہے۔

عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کی مشاورت سے 109صفحات پر مشتمل نیا حکم نامہ (آرڈر 2019ء ) دو ہفتے میں نافذ کرنے کی ہدایت بھی جاری کی تھی۔ عدالت نے اس حکم نامے میں 1999 کے عدالتی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے مزید لکھا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کوحقوق دیے جائیں۔ وفاقی حکومت نے آرڈر 2019 کے ابتدائیہ میں لکھا کہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل تک عبوری صوبے کا درجہ دینا چاہتے ہیں جس کیلئے کافی وقت درکار ہے تاہم جی بی کو دوسرے صوبوں کے برابر حقوق فراہم کرنے کیلئے آرڈر 2019 عبوری طور پر نافذ کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے آرڈر 2019 کے نفاذ کیلئے وفاقی حکومت کو دو ہفتے کا وقت دیا تھا جس پر وفاقی حکومت نے وقت بڑھانے کی درخواست کی اور فروغ نسیم کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تاکہ آرڈر 2019ء کو بہتر کر کے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ تاہم 30 اپریل 2020 وفاقی حکومت نے عدالت میں ایک اور درخواست دی جس میں کہا گیا کہ 23 جون 2020 ء کو گلگت بلتستان حکومت کی مدت پوری ہو رہی ہے اور حکومت تاحال آرڈر 2019 کے مطابق قانون سازی نہیں کر سکی اس لئے گلگت بلتستان میں نگران حکومت کے قیام اور انتخابات کا انعقاد کروانے کیلئے آرڈر 2019 میں ترمیم کی اجازت دی جائے۔

اس پر عدالت عظمیٰ نے پاکستان الیکشن ایکٹ 2017 ء کو گلگت بلتستان تک توسیع دینے کے احکامات دیے اور آرڈر2019 ء کے تحت نگران حکومت کے قیام کا حکم دیا۔ جس پر وزیر اعظم پاکستان نے گلگت بلتستان آرڈر 2019 کی دفعہ256/5 کے تحت نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا۔ اب وزیر اعظم کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم نامے کے عین مطابق عبوری آئینی صوبے کا اعلان کیا گیا جس کیلئے پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد آئین میں ترمیم کی جائے گی۔ اس نظام کے تحت گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ آف پاکستان میں نمائندگی کے ساتھ وفاق کے تمام آئینی اور مالیاتی اداروں میں نمائندگی دی جائے گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں