منشی پریم چند اردو کا پہلا ادیب
ہولی کا تہوار آتا تو ڈھیروں عبیر، رنگ، مٹھائی بھنگ وغیرہ لاتے۔
پریم چند ہمارے اہم ترین ادیبوں میں سے ہیں۔ اردو افسانے اور ناول کے بنیاد گزار۔ 30 کی دہائی میں جب وہ بیماری کے آخری مراحل میں تھے، تب بھی ادب کے لیے ان کی بے قراری دیکھنے کی چیز تھی۔ ہانپ رہے ہیں، لڑکھڑا رہے ہیں لیکن ادب کی خدمت کا خیال ان کے دل سے نہیں جاتا۔
اردو سے ان کا عشق آخری سانس تک ساتھ نہیں چھوڑتا۔ جان ہار ماں کے جانے کے بعد اپنی تنہا اور اندھیری راتیں جس لڑکے نے مہ لقا اور صرصر جادو کی محفلوں کی چکاچوند میں گزاری تھیں۔ وہ لڑکا ان ہی دنوں اردو کے عشق میں گرفتار ہوا تھا۔ مولوی صاحب نے اسے ''ماصقیماں، گلستان، اور بوستان گھول کر پلائی تھیں۔ فارسی اردو کی بڑی بہن ہندی، اردو کی جڑواں بہن ۔
یہ باتیں منشی پریم چند کی گھٹی میں پڑی تھیں۔ وہ آخر وقت تک اپنی سی کرتے رہے لیکن سیاست کا تقاضہ کچھ اور تھا۔ ہندوستان کا بٹوارا 1947میں ہوا، اچھا ہوا کہ منشی پریم جی اس سے گیارہ برس پہلے گزر گئے۔ وہ یہ صدمہ کیسے سہار سکتے تھے۔
ہمیں ڈاکٹر حسن منظر کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے شورانی دیوی کی کتاب 'پریم چند گھر میں' اور ان کے نامکمل ناول ''منگل سوتر'' کو اردو میں منتقل کر کے اس کے خزانے میں اضافہ کیا۔ ڈاکٹر انوار احمد کے بھی ہم احسان مند ہیں کہ انھوں نے ''منگل سوتر'' اور ''پریم چند گھر میں'' کے تراجم کے لیے ڈاکٹر حسن منظر کو زحمت دی۔
''منگل سوتر'' کے صرف چار باب منشی جی لکھ سکے تھے کہ موت نے انھیں چھاپ لیا۔ اسے اتفاق کہیے یا زندگی کا مذاق کہ پریم چند کا پہلا ناول ''اسرار معابد'' بنارس کے ایک ہفتہ وار اخبار ''آواز خلق'' میں قسط وار شایع ہوا تھا اور جس پر ان کا نام منشی دھنپت رائے عرف نواب رائے الہ آبادی لکھا گیا تھا۔ اس ناول کو اول تا آخر پڑھ جائیے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ نا تمام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ منشی پریم چند اس میں پنڈت رتن سرشار کی پیروی کر رہے تھے۔ وہ سرشار کے انداز تحریر پر فریفتہ تھے۔ اس ناول کا کھوج پروفیسر قمر رئیس نے تلاش بسیار کے بعد لگایا تھا۔
''اسرار معابد'' کو انھوں نے سرشار کی پیروی میں ناتمامی کا رنگ دیا۔ ''گئودان'' کے فوراً بعد بقول شورانی وہ ''منگل سوتر'' کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ زندگی کے آخری دو مہینوں میں انھوں نے اس کے چار باب تحریر کیے۔ اس کے بعد ان کی طبیعت اتنی بگڑی کہ وہ پانچویں باپ کی پہلی سطر بھی نہ لکھ سکے۔ اور اپنے لکھے ہوئے پر نظر ثانی بھی ان کے لیے ممکن نہیں ہوا۔ ''اسرار معابد'' کو انھوںنے رتن ناتھ سرشار کی پیروی میں جان بوجھ کر نامکمل چھوڑا تھا لیکن ''منگل سوتر'' کے وسط اور اختتام کو موت نے ان کے ہاتھوں سے جھپٹ لیا۔
شورانی نے لکھا ہے کہ ''گئودان'' کے انجام پر میں رو رہی تھی۔ اس وقت منشی جی نے مجھے دیکھ لیا اور میرا دل بہلانے لگے، پھر انھوں نے کہا کہ چلو میں تمہیں اپنے نئے ناول ''منگل سوتر'' کا پلاٹ سنائوں۔ لیکن میرا دل غم سے اس قدر بوجھل تھا کہ میں نے ''منگل سوتر'' کا پلاٹ سننے سے انکار کر دیا۔ یہ تمام تفصیل ڈاکٹر حسن منظر نے ''منگل سوتر'' کی ابتدا میں تحریر کی ہے۔ یہاں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ اگر شورانی دیوی نے پریم چند کی زبان سے اس کا پلاٹ سن لیا ہوتا تو شاید خود وہ یا امرت رائے اسے مکمل کرنے کی کوشش کرتے۔
ڈاکٹر حسن منظر نے بجا طور پر لکھا ہے کہ جس سماج میں مکمل ناول اور کہانیاں ہی بہ مشکل شایع ہوتی ہوں۔ وہاں کسی کو ادھورے ناول چھاپنے کی فکر کیوں ہو۔ اس کے برعکس مغرب میں بڑے ادیبوں کی نامکمل تحریریں بھی بہت اہتمام سے شایع ہوتی ہیں۔ اس بارے میں وہ الیگزینڈر پکشن، نکولائی گوگول اور بنکم چندر چٹرجی کے نامکمل ناول کا حوالہ دیتے ہیں۔
وہ اپنے گھر کے پھاٹک سے متصل ایک اندھیری کوٹھری میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوا۔ اسے اندھیرے سے ڈر لگتا تھا۔ فیضی کے طسلم ہوشربا میں روشن کنول اور جھاڑ فانوس اس اندھیرے کو دور دھکیلنے لگے۔ مہ لقا جادو اور نازک چشم جادو کی پرچھائیوں سے زندگی میں اجالا ہوا۔ ماں کی دل داریوں سے محروم لڑکا ان پر چھائیوں کی چھائوں میں سوتا اور جب اندھیرے کی چادر میں اجالے کا دھاگا ٹانکے لگاتا تو دھن پت رائے عرف نواب رائے آنکھیں ملتا اٹھتا، دنتون کرتا، منہ پر الٹے سیدھے چھپکے مارتا، جزدوان بغل میں دابتا اور گائوں کے دوسرے کائستھ بچوں کی طرح مولوی صاحب کی خدمت میں حاضری دیتا۔ اور انھیں شیخ سعدی کی حمد کا موختہ سنتا، کریمابہ بخشائے برحال ما... کہ ہستم اسیر کمند ہوا۔ یہ گائوں کے مولوی صاحب تھے جنھوں نے اسے فارسی گھول کر پلا دی تھی۔ یہ صاحب کام کے درزی اور نام کے مولوی تھے۔ اس زمانے میں کیا مسلمان، کیا ہندو یا سکھ سب کا یہی طرز زندگی تھا۔ زندگی سخت تھی۔ بے رحم تھی، باپ جلد ہی دوسری بیوی بیاہ لائے اور لذتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہوئے۔
ماں کے بعد نواب رائے یعنی مستقبل کے پریم چند نے چھاپ لیا۔ اسی زمانے میں کتابوں کی چٹیک ایسی لگی کہ پہلے فیضی طسلم ہوشربا کے دفتر کے دفتر چاٹ گئے۔ اس کے بعد ترجموں کی صورت رینالڈز کی مسٹریز آف کورٹ آف لندن کو ہضم کیا۔ رائیڈر ہیگرڈ کی 'غدار اور عزرا کی واپسی' مولوی صاحب کی پڑھائی ہوئی شیخ سعدی کی گلستان، بوستان اور ''خدا جھوٹ نہ بلوائے'' ہزاروں اشعار نوک برزباں۔ اس زمانے میں کائستھوں کے یہاں شادی بیاہ کے موقع پر بیت بازی کی محفل جمنا لازمی تھا۔ نواب رائے یعنی منشی پریم چند ان محفلوں میں اپنی فتح کے جھنڈ گاڑکر اٹھتے۔ پنڈت موتی لال نہرو اپنے اکلوتے بیٹے پنڈت جواہر لال نہرو کی شادی کا دعوت نامہ اردو میں لکھتے تھے۔
وہ ایک ایسے دانشور تھے جو ملکی فضا میں سیاسی تناتنی کو محسوس کر رہے تھے۔ وہ ان میں سے نہیں تھے جو نفاق کی نفیری بجاکر اپنا قامت بڑھاتے ہیں۔ وہ ہندو مسلم ایکتا کو ہندوستان کی بیماریوں کا حل جانتے تھے۔ اردو، ہندی کی کشاکش ان کے دل میں پھانس کی طرح کھٹکتی تھی۔ ہندی اور سنسکرت کی ادبی روایات سے اردو بولنے والوں کو متعارف کرانا، وہ وقت کی ضرورت سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک اردو، ہندوستان کی دوسری زبانوں بہ طور خاص ہندی کی شعری روایات سے سیراب نہیں ہو گی، اس وقت تک اس کی جڑیں زمین کی گہرائیوں تک نہیں اتریں گی۔ چند مضامین انھوں نے منشی پیارے لال شاکر، میگھ دوت اور وکرم اروی کے منظوم ترجموں پر لکھے۔
دنیا میں گھمسان کی جنگ جاری تھی پریم چند کا تبادلہ گورکھ پور ہو گیا تھا۔ یہاں پہنچتے ہی ان کا بیٹا دھنوہوا۔ اس خوشی سے سرشار ہو کر پریم چند پرائیویٹ بی اے کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ شورانی بیمار ہوئیں اور پریم چند بہ امر مجبوری دوسرے شہر گئے تو منشی جی کے ساتھ کام کرنے والوں شورانی کی بہت دیکھ ریکھ کی۔
ہولی کا تہوار آتا تو ڈھیروں عبیر، رنگ، مٹھائی بھنگ وغیرہ لاتے۔ اور اپنے تمام ہندو، مسلمان دوستوں کو ہولی کے جشن میں شریک کرتے۔ سب مل کر گاتے بجاتے اور رات اسی رنگ و آہنگ میں گزر جاتی۔ انھیں ہندو مسلم اتحاد کا بہت شوق تھا۔ ان کی چند کہانیاں اس خواہش کا مظہر ہیں۔ وہ بہت بیمارے ہوئے اور ایک مسلمان حکیم کے یہاں دس دن ٹھہرے ان حکیم صاحب نے جس طرح ان کی خدمت کی اور راتوں کو ان کا کموڈ بھی صاف کرتے رہے۔ اس کے بارے میں وہ بہت ستائشی انداز میں خط لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیکڑوں ہندوئوں کو اس مسلمان حکیم پر وارکر پھینک سکتاہوں۔
منشی پریم چند اردو افسانے کا پہلا سب سے بڑا نام ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کو سادہ اور دیہاتی ماحول کی کہانیوں سے مالا مال کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی المیے پر ڈراما ''کربلا'' لکھا۔ لیکن بعض وجوہ کی بنا پر وہ پس منظر پر رہا۔ یہ وہی تھے جنھوں نے ''نبیؐ کا نیتی نرواہ'' لکھا۔ جس کا بعد میں مانک ٹالا نے اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کی کہانیاں اور ان ہی کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے سدرشن سرلادیوی، علی عباسی حسینی، اعطم کریوی، ابوالفضل صدیقی، احمد ندیم قاسمی اور کئی دوسروں نے اردو ادب میں دیہی زندگی کا ذائقہ شامل کیا۔ وہ ایک بہت بڑے انسان اور ایک بڑے لکھنے والے تھے۔ افسوس کہ ہم نے ان کی بڑائی کا حق ادا نہیں کیا۔