سارے رنگ

گذشتہ تین سال میں ہماری کلاس اسکول بھر میں اچھی خاصی ’بدنام‘ ہو چکی تھی


Rizwan Tahir Mubeen November 17, 2020
فوٹو : فائل

QUETTA: اسکول کا 'ٹُلّا' مارنا 'قابلِ تعزیر' جرم کی طرح ہوتا تھا!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول میں جب ہم تیسری کلاس میں آئے، تو گذشتہ تین سال میں ہماری کلاس اسکول بھر میں اچھی خاصی 'بدنام' ہو چکی تھی۔۔۔ جس ٹیچر کو دیکھو وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا نظر آتا۔۔۔
تیسری کلاس میں ہمارا کمرا بالکل وہی تھا، جو کلاس 'ون' میں تھا۔۔۔ اور اب کے ہماری 'کلاس ٹیچر' بڑے بڑے بڑبولوں کو قابو میں کر لینے والی مس نصرت صاحبہ تھیں۔۔۔ رعب اور دبدبہ ان کا مس شہلا قیصر سے کہیں زیادہ تھا، لیکن مس شہلا کے برعکس وہ ذرا کلاس کو کھلا ڈلا سا رکھتی تھیں، اتنا کہ ایک دائرے میں کلاس کے سب بچے آزاد ہوتے، لیکن جب سزا دینے پر آتیں، تو پھر یوں لگتا کہ شیطان بھی ان سے پناہ مانگتا ہوگا۔۔۔ لیکن ان کو کسی کو سزا دینے کی نوبت بھی شاذونادر ہی آتی تھی۔

تاہم بچوں کو جسمانی سزا دینے کے لیے انھوں نے کبھی کسی اسکیل، 'بید' یا لکڑی وغیرہ کا سہارا نہیں لیا، ان کے تین مخصوص 'دائو' ہوتے تھے، ایک پینسل انگلیوں کے درمیان رکھ کر دبانا، دوسرا شاید وہ انگلیوں سے ہونٹوں پر ضرب مارتی تھیں اور تیسرا بالوں کی 'قلمیں' پکڑ کر زور سے کھینچا کرتی تھیں۔۔۔ سب سے زیادہ اسی سزا پر عمل ہوتا تھا، اور اس کا سب سے زیادہ شکار ہماری کلاس کا فرحان ارشاد بنتا۔۔۔ جس میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ وہ بریک کے دوران کلاس کے عقب کے باغیچے میں سگریٹ کا سوٹا لگا رہا تھا اور چوتھی کلاس کے کسی بچے نے اسے دیکھ کر شکایت کی تھی۔۔۔ بس پھر جو حشر ہوا، وہ بتانے کی ضرورت نہیں، لیکن فرحان ارشاد تھا بھی بہت ڈھیٹ۔۔۔ یوں لگتا کہ اس پر ڈانٹ یا مار کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا۔

لیکن اب کلاس میں 'خود سری' کے نئے مراحل طے ہونے لگے تھے، یہی تھرڈ کلاس تھی، جب 'کے جی' سے ساتھ پڑھنے والے سیدھے سادے شاہ زمان کا بھائی کامران بھی ہماری کلاس کا حصہ بنا۔۔۔ کامران اور اس کا دائرہ آگے 'بدمعاشی' سے بھی آگے 'مجرمانہ' امور کی طرف ہوگیا تھا۔۔۔ اس کا ذکر پھر کبھی، پہلے اُس وقت کی سب سے بڑی 'مجرمانہ سرگرمی' کا ذکر جسے اسکول کا 'ٹُلّا مارنا' کہتے تھے۔۔۔ یعنی آپ گھر سے اسکول کے لیے نکلے اور اسکول جانے کے بہ جائے سارا وقت اِدھر اُدھر ضایع کر کے چھٹی کے سمے گھر پہنچ گئے۔

اب چھٹی کرنے پر تو شاید مس نصرت اور پھر مس شہلا بھی چھوڑ دیتی تھیں، لیکن ٹُلّا تو ایک ناقابل معافی اور 'قابلِ تعزیر' جرم تھا۔۔۔ جس کی سزا کوئی تھوڑی بھی نہیں تھی۔۔۔ اب اس باب میں فرحان ارشاد کے بعد ہماری کلاس میں کامران بہت بدنام تھا۔۔۔ اب یہی وہ کلاس تھری تھی، جس میں ایک لڑکا حارث بھی آیا۔۔۔ یہ تھوڑا سا شرارتی ضرور تھا، لیکن بدتمیز یا 'میلا' ہر گز نہیں تھا۔ یہ حارث جو ہے ہماری سینئر ٹیچر مس شہلا کا بھانجا تھا۔۔۔ لیکن یہ ذرا اٹھنے بیٹھنے لگا کامران لوگوں کے ساتھ۔۔۔ اور اسی اثنا میں ایک دن اِس نے کامران کے ساتھ مل کر اسکول کا ٹُلا مار لیا۔۔۔! اور یہ خبر اگلے دن مس شہلا کے علم میں آگئی۔

اب یہ یاد نہیں کہ کلاس ٹیچر نہ ہونے کے باوجود انھوں نے باقی 'گینگ' کے ساتھ کیا سلوک کیا، لیکن حارث کو تو انھوں نے دل کھول کر کُوٹا اور شاید ہی اس کے سوا مس شہلا نے کبھی کسی کی اتنی زیادہ پٹائی کی ہو۔۔۔ یعنی ان کا بھانجا تھا، تو بالکل اپنے گھر والی بات ہوگئی۔۔۔ اور روبرو پٹائی کے یہ 'پرتشدد' مناظر کلاس کے لیے کسی خوف ناک فلم کی طرح ہوتے تھے۔۔۔ لیکن باقیوں کے لیے 'عبرت' کا باعث بھی ہوتے تھے کہ برے کاموں کا یہ انجام ہوتا ہے۔

۔۔۔

دوسروں کے کھانے پر 'تنقید' نہ کریں۔۔۔!
احمد اشفاق، کراچی
مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کا سب سے لذیذ کھانا آپ ہی کے گھر میں پکتا ہے۔ آپ کی والدہ، اہلیہ، بہن، بھاوج یا دختر جو کھانا بناتی ہیں، اس کا کوئی ثانی نہیں، لیکن کیا اس اعتماد کو اپنے اندر قائم رکھتے ہوئے آپ کچھ باتوں کا خیال کر سکتے ہیں؟

جیسے آپ کے لیے آپ کے گھر کا کھانا بہترین ہے، ویسے ہی دوسرے شخص کے لیے اپنے گھر کا کھانا اچھا ہے۔ اگر آپ دفتری احباب یا دوستوں کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں، جہاں سب اپنے گھر سے کچھ نہ کچھ لے کر آئے ہیں، تو یہ بالکل نہ کہیں کہ فلاں چیز ہمارے گھر میں ایسی بنتی ہے یا ویسی بنتی ہے۔۔۔ یا یہ کہ 'یار اس قورمے میں وہ بات نہیں، کسی دن آپ کو اپنے ہاں کا قورمہ کھلائیں گے۔' اس قسم کی باتیں آپ کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہیں، تربیت اس لیے نہیں کہہ رہا، کیوںکہ مجھے یقین ہے کہ آپ کی تربیت بہت اچھی رہی ہوگی، زمانے کے سرد وگرم نے اسے دھندلا دیا ہے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ کسی کے ہاں کھانے پر جاتے ہیں اور اگر کھانے میں کوئی کمی بیشی رہ جائے، تو میزبان کے سامنے ہی شکوہ کرنے لگتے ہیں کہ کھانا اچھا نہیں، یا کچھ کسر ہے، یہ ظلم ہے۔۔۔! اگر آپ میزبان کا لحاظ کر لیتے ہیں، لیکن بعد میں آپس میں تبصرے ضرور کرتے ہیں کہ کھانا اچھا نہیں تھا، تو یہ بھی نہایت غیر مناسب طرزِ عمل ہے۔۔۔ یہی عزت کیا کم ہے کہ کسی نے آپ کو وقت دیا، اپنے گھر میں بلایا، عزت سے بٹھایا، آپ کے لیے دسترخوان بچھایا اور اس پر آپ کے تناول کرنے کے لیے کھانا چُنا۔۔۔؟

اگر آپ نہیں جانتے کہ لوگوں کہ ساتھ کیا مسائل ہیں، کہیں وہ بیماریوں کی وجہ سے نمک کم تو نہیں کھاتے، کہیں مرچ مسالا انھیں منع تو نہیں، تو اگر آپ ایک وقت کے کھانے میں کسی کی دل آزاری نہ ہونے کی

خاطر صبر کر لیں گے، تو کسی کی دل آزاری سے بچ جائیں گے اور بہترین اجر پائیں گے!

اس کے ساتھ ساتھ کسی کے گھر میں کھانا کھاتے ہوئے کبھی یہ سوال نہ کیجیے کہ کھانا باہر کا ہے؟ چاہے وہ کھانا بازار کا ہی کیوں نہ ہو۔ اپنے گھر میں کھانا جیسے جی چاہے کھائیں، لیکن کسی اور کے ہاں تہذیب سے کھائیں، چاہے کم ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔ ویسے کھانا تو اپنے ہاں بھی تمیز سے ہی چاہیے۔ ممکن ہے اس مہنگائی کے دور میں ہر آدمی گوشت خریدنے کا متحمل نہ ہو سکتا ہو، جب آپ کہتے ہیں کہ میں تو سبزیاں نہیں کھاتا، یا ہمارے ہاں تو صرف چھوٹا گوشت ہی پکتا ہے تو آپ کو اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ دوسرے شخص کا دل کتنا برا کر رہے ہیں۔۔۔ خدارا! ان معمولی باتوں کا خیال کیجیے، آپ ذرا سی زبان ہلا دیتے ہیں، لیکن لوگوں کو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بہت بڑی بن کر چبھتی ہیں۔

۔۔۔

ساحلِ اقبال
ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی
یہ 1986ء کی بات ہے، جب ہمارے اندر علامہ اقبال کے خودی کے اسرار کچھ کھلنے لگے تھے۔ مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ''نکلے تیری تلاش میں'' اور مختار مسعود کی کتاب ''سفر نصیب'' پڑھنے کے بعد ہم بھی نکل کھڑے ہوئے کسی کی تلاش میں، بفضلِ تعالیٰ سفر نصیب ہوا اور ایک لمبی سیاحت حاصل کی، سفر کا پہلا پڑاؤ فرینکفرٹ (جرمنی) تھا۔ میرے میزبان بزلہ سنج اسلم صدیقی تھے، انھیں اقبالیات سے خاص لگاؤ تھا۔ 'پی آئی اے' میں کار گزاری نے انھیں ایک عالَم کی سیر کرائی تھی، ایک روز وہ مجھے فرینکفرٹ سے ہیڈلبرگ لے گئے۔

ایک پرسکون علاقے میں انھوں نے گاڑی روکی اور مجھے وہاں لے گئے، جو تمام عاشقانِِ اقبال کے لیے ایک یادگاری مقام ہے، کیا دیکھتا ہوں کہ لبِ ساحلِ ایک بورڈ آویزاں تھا، جس پر جلی حروف میں Iqbal Ufer لکھا ہوا تھا، یہی وہ جگہ تھی جہاں 1907ء میں ہیڈلبرگ کے مقام پر علامہ اقبال زیر تعلیم رہے، اس بورڈ کے پاس کھڑے ہو کر ہماری سوچ کا دھارا علامہ اقبال کی جانب ہو گیا، اسلم کہنے لگے کہ مغربی تنقید نگاروں کا خیال ہے کہ اقبال جرمن مفکر نطشے سے بہت متاثر تھے۔

اس نظریے کے ثبوت میں وہ اقبال کے 'مردِ مومن' کا نطشے کے 'سپرمین' سے موازنہ کرتے ہیں، جو بظاہر ایک دوسرے سے مماثل معلوم ہوتے ہیں۔ اس تصور نے خاص طور پر اس وقت جنم لیا، جب علامہ اقبال کی 'اسرارِ خودی' کا انگریزی ترجمہ منظر عام پر آیا۔ مغربی تنقید نگاروں نے یہ ٹھپّا لگادیا کہ اقبال نطشے کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

اس سوچ کی تردید میں علامہ اقبال نے خود ڈاکٹر نکسن کو اپنے ایک خط میں تحریر کیا کہ کچھ تنقید نگار میری تخلیق کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غلط بحث کر کے میرے 'مردِ مومن' کا اور جرمن مفکر نطشے کے 'فوق الانسان' کو ایک ہی تصور کر بیٹھے۔ میں نے اس سے پہلے انسان کامل کے معترفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے، جب کہ نہ تو نطشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا اور نہ ہی اس کی کتابیں میری نظر سے گزری تھیں۔ سوچ کی مماثلت کبھی بھی کہیں بھی اتفاقیہ ہو سکتی ہے۔

علامہ اقبال نے فارسی ادب اور ثقافت کا بہت گہرا اور وسیع مطالعہ کیا تھا اس کا ثبوت ان کی فارسی شاعری ہے۔ اقبال کی مصر، فلسطین، ہسپانیہ، اتالیہ اور افغانستان جیسے ممالک کی سیاحت جن سے اسلامی عظمتیں وابستہ ہیں۔ ان کی طبیعت حرکتی عنصر کو اجاگر کرنے میں ان ممالک کی تاریخ اور سیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ علامہ اقبال کے کلام اور خیالات اور فلسفے کے بغور مطالعے سے یہ بات عیاں ہے کہ علامہ اقبال کا مردِ مومن کون ہے۔ الحمدللہ ہم صاحب ایمان کو اس کامل ہستی کو سمجھنے کے لیے کسی نطشے یا زرتشت کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پیارے نبیﷺ سے بڑھ کر نہ کوئی کامل ہستی تھا، نہ ہوگا۔ ہیڈلبرگ سے واپسی کے بعد میں گویا اقبال کے نطشے قدم پر اپنی سیاحت کرتا رہا۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ہے:

آب رواںِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

اس شعر نے مجھے اندلس کی فضاؤں میں پہنچا دیا، جہاں آج سے صدیوں پہلے طارق بن زیاد نے ساحل پر اپنی کشتیاں جلائی تھیں۔

جہاں کی وادیاں رشک گزار ہیں، جہاں غرناطہ اور قرطبہ ہیں، جہاں اشبیلیہ ہے۔ جہاں الحمرہ اور مدینۃالزہرہ ہیں۔ آہ! میری روح شاید ازل سے یہاں آنے کو بے چین تھی، یہاں ایک عظیم قوم کی عظمت کی داستان ہے اور پھر ناعاقبت اندیشی سے زوال کی شرم ناک کہانی ہے۔ یہاں غرناطہ کے عالی شان محلات ہیں۔ اب ان کے در ودیوار کھڑے درسِ عبرت دے رہے ہیں۔ وہ زمانہ خواب وخیال ہو گیا، جب یہاں پتھر پتھر خوشی کے ترانے سناتا تھا۔ اے الحمرا کہاں ہے تیری وہ رعنائی، کہاں گیا تیرا وہ بانک پن۔

اندلس کی سرزمین پر کتنی دل فریب داستانیں پوشیدہ ہیں عبدالحلیم شرر کے ناول ''فلورا فلورنڈا'' کو کون بھول سکتا ہے۔ کون جانے تاریخ پھر اپنے آپ کو دُہرائے اور مستقبل عظمت رفتہ کی واپسی پیمبر بن کر آئے۔ قرطبہ پہنچ کر کون ہے، جسے علامہ اقبال کی مشہور نظم مسجدِ قرطبہ یاد نہ آئے۔ علامہ کی نظم مسجدِ قرطبہ کا یہ سلسلہ روز و شب بہت طویل ہے۔ بس آپ کی خدمت میں پہلا اور آخری شعر پیش خدمت ہے؎

سلسلہ روز و شب نقش گرِ حادثات
سلسلہ روز اصل حیات و ممات

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

۔۔۔

نوجوانوں پر چھائی
افسردگیاں۔۔۔!
حبا رحمن، کراچی
آج کل جب سبھی نقصان اور فائدے کا سوچنے میں مصروف ہیں، وہاں ہماری نوجوان 'پیڑھی' کسی نہ کسی ذاتی مسئلے میں گھِری ہوئی دکھائی دیتی ہے، جسے دیکھو افسردہ ہے یا غم زدہ شاعری یا گانے سن رہا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ آج کل کی سب دوستی صرف مطلب کی ہوتی ہے، ہر لڑکا لڑکی بھی ایک دوسرے کے ساتھ صرف 'ٹائم پاس' کے لیے رہتے ہیں، رشتہ نہ نبھے، تو توڑ دو، طلاق دینا معمول ہے، ماں باپ بوڑھے ہو جائیں تو گھر سے نکال دو۔ ذرا سی ناکامی پر اپنی جان لے لو، سیدھے راستے سے کام نہ بنے، تو غلط راستہ اختیار کرلو۔ ماں باپ تھوڑی سی آواز اونچی کرلیں، تو گھر چھوڑ دو۔۔۔ ایسے سارے فطور دینے والا کوئی اور نہیں بس یہی اِبلاغی مواد ہیں، جو مختلف اسکرینوں پر ہمہ وقت ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔

ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ پہلے سب کا تعلیم کی طرف رحجان اور سیکھنے کی چاہ ہوتی تھی، تو میں یہی سو چتی ہوں کہ تب تو یہ سب نہیں تھا بس اخبار اور ریڈیو ہی تھے، لیکن آج کل ریڈیو، ٹی وی اور 'سوشل میڈیا' وغیرہ ضرورت سے زیادہ ہی ایسی چیزیں دکھا رہے ہیں، جس میں یا تو طلاق ہو رہی ہے یا بے سروپا عشق ہے یا پھر گھریلو لڑائیاں۔ ان سب میں کچھ سبق آموز چیزیں بھی ہیں، لیکن افسردگی کا غلبہ اتنا ہے کہ اسکرین سے باہر بھی بس ہمارا یہی مقصد دکھائی دینے لگا ہے۔ تبھی آج نوجوانوں کو سنجیدہ عملی چیزوں سے دل چسپی نہیں۔

آدھے لوگ دل ٹوٹنے کی وجہ سے افسردہ ہیں، باقی آدھے آپس میں بات کرنا پسند نہیں کرتے یا پھر اپنے فون پر ہی مصروف رہتے ہیں اور پھر ایسے میں وہ کوئی تخلیقی سرگرمی انجام ہی نہیں دے پاتے۔ اس 'افسردگی' کی وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرتا اور جب اپنے دل کی بات باہر نہ لائو تو وہ اندر ہی اندر طوفان کھڑا کر دیتی ہے، جس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے، جو ہم اپنے نوجوانوں میں دیکھ رہے ہیں۔ اگر اس مسئلے پر غور کرلیں، تو شاید کچھ بہتری کی صورت نکل آئے اور نوجوان اپنے لیے اور اپنے اردگرد کے لیے خوشیوں کا باعث بن سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔