پھر بنیں گے آشنا
ہم اپنے تاریخی اعتبار سے بہت کٹھن دور سے گزر رہے ہیں اور اس قوم میں اب بہت بے چینی ہے۔۔۔
ابھی ہم اسی بحث میں الجھے پڑے تھے کہ حکیم اللہ محسود جو ہزاروں معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث تھا، شہید ہے کہ نہیں؟ کہ ہم پر ایک اور تکراری موضوع آن گرا کہ ملا قادر جسے ڈھاکہ میں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت پھانسی دی گئی وہ ہمارا دوست تھا اور اسے پاکستان کے ساتھ وفاداری کی وجہ سے سزا ہوئی۔ ہم کن راستوں پر نکل آئے، ہمارے وزیر داخلہ نے وزیر خارجہ کی جوتی میں پیر بھی ڈال دیا اور یہ تک بھی قومی اسمبلی میں کہہ دیا کہ مجھے ملک سے بڑھ کر ملت عزیز ہے اور پھر یوں ہوا کہ حکیم اللہ محسود کے شہید لقب پر قوم بٹی ہوئی نظر آئی۔
جب قومی اسمبلی نے ملا قادر کی پھانسی کی مذمت میں قرارداد منظور کی تب بھی قوم منقسم تھی۔ ستار بچانی نے اسمبلی کے فلور پر کہا کہ جو شخص ہزاروں بنگالیوں کے قتل میں ملوث ہو وہ کیسے ہمارا دوست ہو سکتا ہے؟ ستار بچانی کوئی اور نہیں بلکہ اسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں جس کا کردار یا جس کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا 1971 کے سانحے اور فوجی آپریشن میں کردار رہا ہے۔ تو یوں کہیے کہ ڈھکے چھپے لفظوں میں اس پارٹی کا اعتراف تھا جب ہی وہ اس قرارداد کا حصہ نہیں بنے۔ اور آکراس پارٹی کے موقف کے ساتھ کھڑے ہوئے جس سے وہ تاریخی اعتبار سے نظریاتی ٹکراؤ میں تھے۔
وہ تھی اسفند یار ولی خان کی پارٹی، ساتھ ساتھ کراچی کے شہریوں نے بھی اس داغ سے اپنے آپ کو علیحدہ کیا جو داغ یہاں کی 1971 کی قیادت نے ان پر لگائے تھے۔ یعنی کراچی کی نمایندہ پارٹی متحدہ نے بھی اسفند یارولی کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔لیکن قرارداد تو پاس ہو گئی۔ ادھر ڈھاکہ میں حکمراں پارٹی کے لوگ یا عوام راستوں میں نکل آئے، ہماری اسمبلی کی قرارداد کو انھوں نے اپنے ملکی داخلی معاملات میں مداخلت کے برابر سمجھا۔ بیالیس سال گزرنے کے بعد آج پھر ہم ایک دوسرے کے بہت قریب نظر آئے، بس اس میں صرف یہ حقیقت ڈال دیجیے ''آئے توسہی برسر الزام ہی آئے''۔
لیکن اس محبت و نفرت کے تعلق کو ہم اس موضوع کے آخر میں زیر بحث لائیں گے۔ جو حقیقت آپ کے سامنے رکھناچاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے مروجہ فسانے Narrative میں اب بہت گہرے شگاف پڑ چکے ہیں، ان کی کہی ہوئی باتیں اب لوگوں سے ہضم نہیں ہوتیں۔ لوگ اب مفروضوں کے بجائے حقیقت سننا چاہتے ہیں، سچ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملاقادر کو آج کے مروج اصولوں کے تحت شفاف ٹرائل نہ ملا ہو جو کہ ان کا بنیادی حق تھا۔ مگر وہ، ان کے کارکن کیا ہزاروں بے گناہ معصوم بنگالیوں کے قتل میں ان کی عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث نہیں تھے؟ کیا وہ الشمس البدر کے سرغنہ، رہبر نہیں تھے۔ کیا اس فوجی آپریشن میں جس میں لاکھوں بے گناہ بنگالیوں کا قتل ہوا ان کا ساتھ دینے والوں میں نہیں تھے۔ ہم جب ملاقادر کو اپنا کہتے ہیں اس کے ایک معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ ہم نہ حمودالرحمن کی رپورٹ میں شایع کردہ حقیقت مانتے ہیں نہ پوری دنیا میں مانی ہوئی حقیقت کو کہ 1971 کے سانحے میں اس وقت فوجی قیادت کے حکم پر کیے گئے فوجی آپریشن میں ہم نے کیا کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ بھی بنگالیوں کے ساتھ کیا ٹھیک کیا۔
بحیثیت قوم یہ کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ ہم اپنے ساتھ بد دیانتی کر رہے ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ برف کچھ پگھلی ہے۔ ایک طرف تو قومی اسمبلی کی قرارداد تھی تو دوسری طرف وزارت خارجہ کا یہ موقف بھی کہ ملا قادر کی پھانسی بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔ یعنی حکمراں جماعت نے ایک تیر سے دو شکار کیے، ایک تو اس کہانی Narrative کا بھرم رکھا جس کی وجہ سے وہ حکومت میں پہنچے ہیں۔ اور دوسری طرف اس Narrative کی ڈوبتی ہوئی کشتی سے باہر بھی پاؤں رکھا۔ لیکن پیپلز پارٹی اس کشتی کو خیر باد کہتے ہوئے نظر آئی اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایسی داستانNarrative کے ماننے والوں کے ووٹ سے اسمبلیوں میں نہیں پہنچے۔
لیکن بھٹو صاحب کا یہ ماجرہ نہیں تھا وہ دیہی سندھ سے 1971 میں جیتے تو دو چار آزاد ممبران سندھ اسمبلی کو اپنے ساتھ ملا کے مشکل سے سندھ میں حکومت بنانے کے قابل ہوئے تاہم جس حلقے میں آج میاں صاحب پنجاب کے ووٹرز کی نمایندگی کرتے ہیں یہ اس زمانے میں بھٹو صاحب کے ووٹر تھے۔ بھٹو صاحب اقتدار میں ان ووٹرز کی وجہ سے آئے تھے اور ان ووٹرز کی نفسیات یا حرکیات Dynamics سے خوب واقف تھے۔ اور ایک رات میں تاشقند معاہدے سے انکار کر کے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے کر اس بات کو اپنا ایمان بنا کر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن گئے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ کسی سندھی کو پنجاب میں اتنی پذیرائی ملی ہو۔ لیکن ہوا کیا بھٹو صاحب کی اس آمد کو جو اس کہانی کی وجہ سے ہوئی اس سے خود ان کی بیٹی انحراف کر بیٹھی، جس کا فائدہ میاں صاحب کو ہوا اور اپنے نانا کی دی ہوئی اس میراث کو بلاول بھٹو اثاثہ نہیں بلکہ خسارہ سمجھتے ہیں۔ اس بیانیے کے پختون و بلوچ شروع سے مخالف رہے اور آج بھی عمران خان ایک لحاظ سے یہ مانتے بھی ہیں کہ ہم نے فوجی آپریشن کر کے شیخ مجیب کو حکومت بنانے کے حق سے محروم رکھا اور بہت زیادتی کی۔ یوں ہندوستان کو پورا موقع ملا کہ وہ اس ملک کو دولخت کرنے میں آخری کردار ادا کرے۔
رہا سوال پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کا، ان کے لیے عرض یہ ہے کہ صرف عبدالستار بچانی کی فلور پر تقریر سے کام نہیں چلے گا۔ جس طرح بے نظیر صاحبہ نے 2005 میں فہمیدہ مرزا اور عذرا پیچوہو کو کوئٹہ بھیجا تھا کہ وہ وہاں پریس کانفرنس کر کے بلوچوں پر بھٹو صاحب کے زمانے میں کیے ہوئے فوجی آپریشن پر معافی مانگیں۔ بالکل اسی طرح بلاول بھٹو آگے آ کے معافی مانگیں کیونکہ ان کے نانا کو ویسٹ پاکستان کے ملے ہوئے مینڈیٹ کی وجہ سے جو جنرل یحییٰ جیسے لوگوں کو بنگالیوں پر فوجی آپریشن کرنے کی جرأت ہوئی اور انٹر کانٹینینٹل 23 مارچ کو ڈھاکہ میں کی ہوئی بھٹو کی پریس کانفرنس جس نے اسی دن شام کو عوامی لیگ کو آزادی کا نعرہ لگانے کا سبب مہیا کر دیا تھا ۔
جس سے نہ صرف خود بلاول بھٹو کا قد بڑھے گا بلکہ ان کے حلقے بالخصوص سندھ کو بھی اس گناہ سے چھٹکارا ملنے کا سبب نکلے گا جب کہ ہمارا وطن اپنے آپ کو اس اضطراب سے کبھی نہیں نکال پائے گا جب تک پارلیمنٹ قرا رداد منظور نہ کرے اور فوجی آپریشن جو 1971 میں ہوا جس میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام ہوا اس کی معافی نہ مانگے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کیمرون نے ایک سال قبل جلیانوالہ باغ آ کر جنرل ڈائر کی چلائی ہوئی گولیوں پر معافی مانگی تھی۔ تو کیا ہم بھی نصف صدی بعد بنگالیوں سے معافی مانگیں گے؟
شاید یہ بھی سچ ہے کہ فری ٹرائل کے آج کل جو مسلمہ تقاضے ہیں اس اعتبار سے ملا قادر کے اس بنیادی حق کا لحاظ وہاں کی عدلیہ نہ کر سکی اور سب سے بڑی بات یہ کہ سزائے موت خود انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ ہمیں کہیں سے بھی یہ روایت نہیں ملتی چاہے وہ نیلسن منڈیلا ہوں یا کوئی اور ۔ بڑے تدبر کی قیادتوں نے آگے بڑھنے کو ترجیح دی ہے، ٹھیک ہے ان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے جنھوں نے قتل و غارت میں حصہ لیا لیکن کیا عام معافی دے کر عدالت کے فیصلوں کے بعد یہ روایت بھی قائم کی جا سکتی ہے کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔
1997میں بحیثیت وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد پہلی مرتبہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے حوالے سے پہلی مرتبہ پاکستان آئی تھیں ۔ آتے ہی پہلے دن بے نظیر بھٹو اور یوسف ہارون سے ملی تھیں وہاں انھوں نے مجھے بھی ملنے کے لیے بلایا ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد قاضی فیض محمد آل پاکستان عوامی لیگ کے سینئر نائب صدر تھے بلکہ ان پورے ادوار میں ڈھاکہ میں 24 مارچ 1971تک موجود تھے۔
اس ملاقات میں شیخ حسینہ واجد نے بالکل واضح انداز میں مجھے یہ کہا کہ ان کی پاکستان آنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ''ہمیں ماضی کو ماضی سمجھ کر آگے بڑھنا ہو گا یہ ٹھیک ہے کہ وہ زخم ہم بھلا نہیں سکتے، لیکن ان کے تدارک کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ پاکستان بحیثیت ملک بنگالی عوام سے معذرت کرے ''۔ بالکل! شیخ حسینہ واجد آپ نے درست فرمایا کہ ہمیں ماضی کو ماضی بنانا ہو گا۔ اس کے لیے پہل ہمیں ہی کرنا ہو گی لیکن تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ہم اپنے تاریخی اعتبار سے بہت کٹھن دور سے گزر رہے ہیں اور اس قوم میں اب بہت بے چینی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حقیقت سے نقاب اٹھایا جائے۔ اب ہم بہت کچھ ان حقیقتوں کے بارے میں جان چکے ہیں۔ فیضؔ صاحب نے کہا تھا۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا' کتنی مدا راتوں کے بعد