اپنی طاقت پہچانو
مزدور، کسان اورعام لوگ اپنے ووٹ اپنے طبقات کے نمایندوں کودیں توکیامزدوروں، کسانوں اورغریب طبقات کی حکومت نہیں بن سکتی؟
مزدوروں، کسانوں اور غریب طبقات کے ساتھ اس ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اور ان طبقات کی زندگی کو جس طرح جہنم میں بدل دیا گیا ہے، کیا اسے مزید برداشت کیا جانا چاہیے؟ یہ ہے وہ سوال جو اس ملک کے 22 کروڑ عوام کے سامنے صورت سوال موجود ہے۔ ملک میں بسنے والے ہر غریب کا اس حوالے سے یہی جواب ہوگا کہ ہرگز نہیں، ہر گز نہیں۔ جب جواب یہی ہے تو پھر اس 72 سالہ مظلومیت کی زندگی کو بدلنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
اس سوال کے دو جوابات ہیں۔ دنیا بھر کے ملکوں میں اشرافیہ کی لوٹ مار کا وہی نظام جاری ہے جو پاکستان میں 72 سال سے جاری ہے۔ دنیا کے سیکڑوں ملکوں میں یہی نظام جاری ہے اور عوام اس نظام سے نفرت کرتے ہیں اور ہر حال میں اس نظام سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ کیسے ہوگا؟ یہی سوال 1789 میں فرانس کے عوام کے سامنے کھڑا تھا۔
اشرافیہ کی طاقت کی انتہا یہ تھی کہ وہ عدلیہ کے عہدے خرید لیتی تھی کہ بکے ہوئے عہدیدار اس کے حکم کی تعمیل کریں۔ یہ تھی اس ظلم کی انتہا جو فرانس میں جاری تھی۔ اس ظلم سے عوام کی برداشت کا پیمانہ چھلک گیا اور وہ سڑکوں پر آگئے اور اشرافیہ یعنی دولت مند اور بااختیار طبقات کے افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرتے رہے۔ فرانس کی سڑکیں اشرافیہ کے خون سے سرخ ہوگئیں۔
اس خون خرابے یعنی ایلیٹ کے قتل عام کو انقلاب فرانس کا نام دیا جاتا ہے۔ غالباً اس انجام سے بچنے کے لیے ایلیٹ کے حامی دانشوروں نے وہ نظام رائج کیا جسے جمہوریت کا نام دیا گیا۔ جمہوریت کیا ہوتی ہے، کیسے ہوتی ہے، اس کا نظارہ ہم پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں کرسکتے ہیں۔
یہ کھلونا جمہوریت پاکستان میں بھی رائج ہے۔ مڈل کلاس کے چند لوگ اس نظام میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، یہ کوئی انقلابی نہیں بلکہ ایک مبہم نظام کا حصہ ہے لیکن ہماری اشرافیہ کو یہ بھی گوارا نہیں۔ آج اشرافیہ اسی بے معنی تبدیلی کو بھی قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ۔ ہماری دشمن اشرافیہ آج بھی پرانے نظام پر ہی چل رہی ہے۔ماضی میں بھی ہر برسراقتدار پارٹی کے خلاف اپوزیشن جلسے جلوس اور دھرنے دیتی رہی ہے ، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ آج کیاپوزیشن ہر حال میں اس حکومت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ عمران حکومت کے جانے سے انھیں کرسی مل جائے گی، اس کے ساتھ ساتھ ''نیب'' نے ان کے خلاف جو کیسز بنا رکھے ہیں، وہ ختم کر دیے جائیں گے۔
عمران خان جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں، وہ کوئی معاشی یا سیاسی انقلاب نہیں ہے بلکہ پرانے نظام کی ڈینٹنگ پینٹگ کرنا ہے۔ اپوزیشن اس تبدیلی کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ حکومت کے خلاف مظاہروں اور دھرنوں کے لیے تیار ہو ر ہے ہیں۔ اس حوالے تیاریاں جاری ہیں۔ یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کا ایک سابق سزا یافتہ وزیر اعظم علاج کے بہانے برطانیہ چلا گیا اور وہاں صحت کے ساتھ سیاسی مصروفیات میں مصروف ہے۔
کیا حکومت برطانیہ کو یہ معلوم نہیں کہ وہ بندہ دس سال کی سزا کا مجرم ہے؟ برطانیہ کو قانون اور انصاف کا گہوارا کہا جاتا ہے ایک دس سال سزا پانے والا مجرم برطانیہ کے شہروں میں آزاد گھوم رہا ہے اور سیاست بھی کر رہا ہے ۔کیا یہ برطانوی جمہوریت کے مطابق ہے؟ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے اسے بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔کیا یہ مڈل کلاسر وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلی جسے وسیم اکرم پلس کا خطاب دیا گیا، ان کی تحقیقات کا یہ معیار ہے کہ انھیں حقائق معلوم ہی نہ ہوسکے۔
پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے جہاں کے عوام ابھی تک سیاست کے اسرار و رموز سے واقف نہیں۔ ہمارے مفکر، دانشور، اہل علم، اہل قلم وہ ذمے داریاں ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں جو ان پر عائد ہوتی ہیں۔ عوام میں سماجی اور سیاسی شعور پیدا کرنا سیاست کاروں کا کام ہے لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کی سیاست کا مرکز ذاتی اور جماعتی مفادات کیسواکچھ نہیں۔ ایسے کلچر میں عوام میں سماجی اور سیاسی شعور پیدا کرنے کی ذمے داری کون ادا کرسکتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت بتایا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں مزدوروں کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ ہے اور کسان اور ہاری دیہی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ ہیں، عام غریب طبقات کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے، اس طرح مزدور، کسان اور غریب طبقات بھاری اکثریت میں ہیں لیکن ہمارے انتخابات میں اشرافیہ ہی اکثریت کے ووٹ حاصل کرکے حکومت میں آجاتی ہے ۔اگر مزدور، کسان اور عام لوگ اپنے ووٹ اپنے طبقات کے نمایندوں کو دیں تو کیا مزدوروں، کسانوں اور غریب طبقات کی حکومت نہیں بن سکتی؟ اس سوال کا جواب ہے، بن سکتی ہے۔ لیکن کیسے؟