کراچی کے مسائل پر پی ایس پی کا جلسہ
اس جلسے میں حکومت پر تنقید تو اپنی جگہ ریاستی اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ کراچی کی سیاست ملکی سیاست سے ہٹ کر اپنی جگہ بنا رہی ہے حالانکہ کراچی کو ملکی سیاست کے ساتھ ہی چلنا چاہیے مگر لگتا ہے اس کی وجہ ملکی سیاست میں کراچی کی ترقی اور اس کے مسائل کو سرے سے نظرانداز کرنا ہے۔
اس کی جیتی جاگتی مثال حال ہی میں سب کے سامنے آئی ہے جب حزب اختلاف کی گیارہ سیاسی پارٹیوں نے مل کر کراچی میں ایک سیاسی جلسہ کیا مگر اس میں کراچی کے مسائل کے سوا ملک کے سارے ہی مسائل پر بات کی گئی۔ اس میں حکومت پر کڑی تنقید بھی کی گئی اور کی بھی جانی چاہیے تھی اس لیے کہ جب ملک میں غربت اور مہنگائی بے قابو ہو، غریب کو پیٹ بھر کر روٹی نہ ملے تو غریب حکومت کو کوسنے ہی دینگے اور حزب اختلاف غریب کی آڑ میں اپنی سیاست چمکائے گی تاہم اس کا موقعہ خود حکومت حزب اختلاف کو دے رہی ہے۔
اس جلسے میں حکومت پر تنقید تو اپنی جگہ ریاستی اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس طرح اس جلسے میں سب کچھ ہی کہا گیا مگر کسی بھی پارٹی کے سربراہ نے کراچی کی بات نہیں کی۔ کراچی میں کوئی قومی سطح کا جلسہ منعقد کیا جائے اور کراچی کے مسائل کو نظرانداز کیا جائے، کراچی کے عوام کو یہ بات بہت ناگوار گزری اور اسی لیے اس جلسے میں کراچی کے عوام کی شرکت بہت معمولی رہی۔ کراچی کے عوام کسی کو اپنے شہر میں جلسہ کرنے یا ریلیاں نکالنے سے نہیں روک سکتے اس لیے کہ وہ جمہوری اقدار کے حامل ہیں اور اظہار رائے کی آزادی کے ہمیشہ سے علم بردار ہیں۔
اس وقت کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری پیپلز پارٹی پر ہے اس جلسے میں اس کے چیئرمین نے ملک کو درپیش تمام مسائل پر تو زور دار خطاب کیا مگر کراچی کے مسائل پر کچھ نہ بولے۔ ایک خاتون رہنما نے وفاق پر تنقید کرنے کے ساتھ ہی اس کی نااہلی کو ملکی اہم اداروں سے جوڑنے کی کوشش کی، کاش کہ وہ کراچی کے عوام سے بھی ہمدردی کے دو بول بول لیتیں۔ پھر سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ کراچی کی ایک سیاسی پارٹی جو خود کو کراچی کے عوام کی نمایندہ جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے وہ کراچی والوں کے ووٹوں سے مختلف حکومتوں کا حصہ بن کر اقتدار کا مزہ لوٹتی رہی ہے وہ اپنے تیس سالہ دور میں کراچی کے عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے ہی مسائل حل کراتی رہی ہے تو ایسے حالات میں جب سب ہی کراچی کے مسائل کو حل کرنا تو کجا کراچی کی بات کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔
اس بے حسی کے عالم میں کراچی کے ایک محسن جنھوں نے اپنی میئرشپ کے زمانے میں کراچی کو سجانے اور چمکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ کراچی کے مسائل کو ارباب اختیار کے سامنے پیش کرنے کے لیے ایک بڑا سیاسی جلسہ گزشتہ اتوار کو منعقد کیا۔ اس جلسے میں کراچی کے عوام نے بھرپور شرکت کی۔ بعض اخباروں نے اسے فقیدالمثال جلسہ قرار دیا تو بعض نے اسے کراچی کا ایک تاریخی جلسہ بنا دیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاک سرزمین پارٹی نے کراچی کے مسائل پر یہ جلسہ منعقد کرکے کراچی والوں کے دل جیت لیے ہیں۔
مصطفیٰ کمال نے اپنے خطاب میں نہ صرف کراچی کے تمام مسائل کو پیش کیا بلکہ ان کے حل کے لیے ایک چھ نکاتی فارمولا بھی پیش کیا جسکے اہم نکات اس طرح ہیں۔ (1)کراچی کی پھر سے ایماندارانہ مردم شماری کرائی جائے۔ (2)میئر کراچی کو بااختیار بنایا جائے۔ (3)این ایف سی ایوارڈ کے فنڈز ڈسٹرکٹ اور یوسی لیول تک دراز کرائے جائیں۔ (4)ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو سٹی حکومت کا حصہ بنایا جائے۔ (5) موجودہ سات ڈسٹرکٹس ختم کیے جائیں اور شہر کو 18 ٹاؤنز میں تقسیم کرکے ایک ڈسٹرکٹ بنایا جائے۔ (6) شہر کی تمام میونسپل سروسز کا ایک سربراہ ہونا چاہیے۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا حزب اختلاف کے جلسے کا ایک ہی مقصد تھا کہ موجودہ حکمرانوں کو اتار کر انھیں حکمران بنا دیا جائے۔ اس کے مطابق سندھ میں بہت جلد انقلاب آئیگا اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو بہا لے جائے گا۔ عمران خان نے کراچی کے عوام کو صوبائی حکومت کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کراچی کی حالت زار کا ذکر کیا اور کہا کہ سرکاری اسپتالوں میں غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کتے کے کاٹے کی ویکسین کسی سرکاری اسپتال میں دستیاب نہیں۔ کراچی کے عوام کے لیے نوکریاں نہیں۔ سڑکیں تباہ ہیں، عوام کو پانی سے محروم کردیا گیا ہے اور سیوریج کے گندے پانی سے سڑکیں اور گلیاں بھری ہوئی ہیں، گندے پانی کی نکاسی کا نظام چوپٹ ہے جس سے شہر میں طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ بجلی کے بعد اب گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ کراچی کے عوام کو امداد نہیں انھیں ان کا حق چاہیے۔ کراچی کے مسائل سے چشم پوشی یقینا کراچی سے احسان فراموشی کے مترادف ہے کیونکہ یہی شہر ملک کی معیشت کو چلا رہا ہے۔ پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ٹیکس اسی شہر کے لوگ دیتے ہیں۔ انھوں نے وفاق کو متنبہ کیا کہ اگر کراچی کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا تو کراچی کے عوام کی مایوسی حکمرانوں کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ وفاق اب امدادی پیکیج کا لولی پاپ دینے کے بجائے کراچی کو اس کا حق دے۔ گوکہ کراچی کے عوام کی نمایندگی کا دعویٰ کرنیوالی جماعت ضرور حکومت سے امدادی پیکیج دینے کا مطالبہ کر رہی ہے اور ان کے مطالبے پر اسے خوش کرنے کے لیے تحریک انصاف کراچی کے لیے دو بڑے پیکیج دینے کا اعلان کرچکی ہے مگر اس میں سے کسی پیکیج پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور شاید کبھی نہ ہو اس لیے کہ قومی خزانہ خالی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت اگر چاہے تو کراچی کی حالت زار درست کرنے کے لیے کچھ رقم مہیا کرسکتی ہے مگر اسے پیپلز پارٹی اور ساتھ ہی سندھ کی اپنی بڑی حلیف جماعت پر بھی بھروسہ نہیں ہے۔ وفاقی وزرا کھلے عام سندھ حکومت کو کرپٹ قرار دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں کراچی کے مسائل کیسے حل ہونگے؟ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل میں 18 ویں ترمیم آڑے آ رہی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے ہر صوبے کے وزیر اعلیٰ کو اتنا خودمختار بنا دیا گیا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والے فنڈز کو خرچ کرنا اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے۔ وہ کسی شہری حکومت کو فنڈز دے یا نہ دے اور کس قدر دے یہ اس کی اپنی مرضی پر ہے۔ سندھ میں دراصل یہی ہو رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ شہری حکومتوں کو ضرورت کے مطابق فنڈز جاری نہیں کر پا رہے پھر کراچی کے میئر کے اختیارات میں بھی کٹوتی کردی گئی ہے اور کئی اہم اور آمدن والے محکموں کو سندھ حکومت نے اپنے قبضے میں کر رکھا ہے جسکی وجہ سے میئر کراچی بے اختیار ہو کر رہ گیا ہے۔ سابق میئر کراچی وسیم اختر اپنی پوری مدت کے دوران اپنے اختیارات میں کمی کا رونا روتے رہے اور کراچی کے مسائل کے حل میں اپنی کوتاہی پر نادم رہے۔ کراچی کے عوام کو یقین ہے کہ مصطفیٰ کمال اپنی جدوجہد کے ذریعے میئر کے اختیارات بحال کروائیں گے اور کراچی کو اس کا حق دلوا کر رہیںگے۔