اقتدار کے ایوانوں میں مچی ہلچل بڑھ رہی ہے

عمران خان کی ذات کی حد تک شاید عوام آج بھی پہلے کی طرح ساتھ چلنے اور اعتماد کرنے کو ایک مرتبہ پھر تیار ہوجائیں۔


رضوان آصف November 25, 2020
عمران خان کی ذات کی حد تک شاید عوام آج بھی پہلے کی طرح ساتھ چلنے اور اعتماد کرنے کو ایک مرتبہ پھر تیار ہوجائیں۔ فوٹو : فائل

RAWALPINDI: انتقام، انا اور ضد ایسی دلدل ہے جو انسان کو اپنے اندر کھینچتے ہوئے کامیابی سے دور لے جاتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت 27 ماہ بعد بھی اسی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے، نہ تو اسے باہر نکلنے کی جلدی ہے اور نہ ہی سپورٹ کرنے والے طاقتور حلقے اسے''ریسکیو'' کرنے میں پہلے جیسی پھرتی اور دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔

لگتا ہے کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کی ''لو اسٹوری'' دھیرے دھیرے ''بریک اپ'' کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن اپوزیشن کی شدید ترین کوشش اور خواہش کے باوجود بریک اپ ہونے میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ ایک فریق ابھی شاید متبادل آپشن بارے کلیئر نہیں اور دوسرا فریق کسی نہ کسی طور اس تعلق کو قائم رکھتے ہوئے اپنی سیاسی بقا کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے ، ویسے بھی جب ''عشق'' انتہا کا رہا ہو تو پھر تعلق ٹوٹتے ہوئے کچھ وقت تو لگ ہی جاتا ہے۔ اپوزیشن کی تنقید کو سنجیدہ اس لئے نہیں لینا چاہیے کہ ان کی ہسٹری بھی داغ دار ہے۔

دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت اور اہم ترین رہنماوں کی چند کیسز میں کرپشن کے ناقابل تردید شواہد کو جھٹلایا یا نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ انتہائی غریب مزدوری پیشہ افراد یا اپنی ملکیتی ملز کے جونیئر سٹاف کے اکاونٹس بنوا کر ان میں اربوں روپے کی ٹرانزکشنز کو''سیاسی انتقام'' کے بیانیہ میںکیمو فلاج نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان اور ان کی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج جسے وہ ابھی تک اپنی ''عقل کل'' اور''خوش فہمی'' کی عینک کی وجہ سے دیکھ نہیں پا رہے وہ عام پاکستانی کا حکومت پر عدم اطمینان ہے۔

اس حکومت کو لانے اور ابتک بچائے رکھنے میں بلا شبہ طاقتور حلقوں کی حمایت شامل ہو سکتی ہے لیکن عوام میں عدم پذیرائی تخت کپتان کو تیزی سے غیر مستحکم کر رہی ہے۔ شیخ رشید سمیت کئی سینئر حکومتی ارکان برملا یہ بات کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو اپوزیشن سے نہیں بلکہ مہنگائی اور عوامی غیر مقبولیت سے خطرہ ہے۔عوام کی بات کی جائے تو وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں بھی پریشان تھے اور اب تحریک انصاف کے اقتدار میں بھی ان کی پریشانیاں بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ اگست 2018 ء سے لیکر آج کے دن تک دیہاڑی دار راج مزدور، ٹھیلے والا، گلی میں چھوٹی سی''ہٹی'' والا، میگا مالز کا دوکاندار اور کم ترین سے لیکر بلند ترین سطح کا سرمایہ کار اور صنعتکار پریشان ہیں، سرکاری و نجی ملازمت پیشہ افراد اپنی سفید پوشی کے بھرم کو قائم رکھنے کی جدوجہد میں اب کمزور پڑنے لگے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں یہ اعتراف تو کر لیا کہ انہوں نے حکومت قائم ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کر دی لیکن عام پاکستانی یہ سوال کر رہا ہے کہ کیا وزیرا عظم کا اعتراف اس کی پریشانیوں کا مداوا کرنے کیلئے کافی ہے اور سب سے اہم یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر نے کپتان کو نو ماہ تک آئی ایم ایف کے پاس جانے سے روکے رکھا جس کاخمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے لیکن آج بھی اسد عمر کو اہم ترین منصوبہ بندی میں شامل کر کے کپتان پھر سے کسی''اعتراف'' کی تیاری کر رہے ہیں۔

غلطی اسد عمر اور رزاق داود کریں یا پھرعمرایوب اورسید فخر امام سے کوتاہی ہو، ٹیم لیڈر کی حیثیت سے ہر غلط فیصلے کی ذمہ داری عمران خان کو ہی اٹھانا ہو گی اور اس کے سیاسی مضمرات کو بھی جھیلنا ہوگا۔

عوام کی اکثریت سابق حکمرانوں کی کرپشن اور اقربا پروری سے عاجز آچکی تھی اسی لئے جب عمران خان کی صورت میں ان کے سامنے تیسری آپشن کو''پیش'' کیا گیا تو اسے قبول کرنے میں لوگوں نے دیر نہیں لگائی۔

پاکستان کی سیاسی اور انتخابی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ الیکٹ ایبلز کی ''فراہمی'' یا پھر الیکشن میں ایک مخصوص حد تک ''مینجمنٹ'' کے ذریعے اپنی من پسند جماعت کو اقتدار دلانے میں مدد کرتی ہے لیکن ایسا کبھی نہ ہوا ہے اور نہ ہی یہ آئندہ ممکن ہوسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی پارٹی کے جلسہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بھیج دے یا پھر ناپسندیدہ پارٹی کے جلسہ میں شرکت کے خواہشمند ہزاروں کارکنوں کو روک لے۔

مینار پاکستان کے سائے تلے جمع ہونے والے لاکھوں لوگ اپنی چاہت اور خواہش کے تحت عمران خان کے ''نیا پاکستان'' کے بیانیہ کو سند قبولیت دینے وہاں پہنچے تھے ،جلسہ گاہ میں ہر طبقہ کی نمائندگی موجود تھی، پہلی مرتبہ میڈیا نے یہ مناظر قوم کو دکھائے کہ کسی سیاسی پارٹی کے جلسہ میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ، امیر اور غریب اپنی مکمل فیملیز کے ساتھ شامل ہوئے۔

عوام کو عمران خان سے بہت زیادہ امیدیں تھیں اور پھر عمران خان نے کئی سال تک اپنی تقاریر کے زریعے عوام کی خود سے وابستہ آس امید کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور عوام کو یقین دلایا کہ ملک وقوم کے ہر سیاسی، سماجی، معاشی مسئلہ کا حل ان کے پاس موجود ہے اور آج عمران خان جس عوامی ناپسندیدگی اور مایوسی کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس کی بڑی وجہ ان امیدوں پر پورا نہ اترنا ہے۔ بعض دانشور حلقے تو نہایت دکھی انداز میں یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان نے اس ملک و قوم پر سب سے بڑا ظلم یہ کیا ہے کہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے سبب سابق حکمرانوں کی کرپشن کو ''جسٹیفائی'' کر ڈالا ہے۔ آج عام پاکستانی برملا یہ کہتا ہے کہ پچھلے کتنے بھی کرپٹ کیوں نہ تھے لیکن وہ ہمارے حق میں بہتر تھے۔

عمران خان اورا سٹیبشلمنٹ کے درمیان بڑھتی خلیج ایک حقیقت ہے اور اس کا سبب بھی یہ ہے کہ اسٹیبشلمنٹ بھی حکومتی کارکردگی سے نالاں ہے اور اسے تنقید کا سامنا ہے ۔بعض حلقے تو اس جانب بھی معنی خیز نشاندہی کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ حکومت کو سیاسی مخالفین کے خلاف اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کو میدان میں اتارنا پڑا ہے۔

یہ الگ بحث ہے کہ یہ دونوں ادارے ملکر بھی نیب جتنا رعب دبدبہ اور نتائج فراہم نہیں کر سکتے کیونکہ نیب قانون اور ان اداروں کے قوانین میں بہت فرق ہے۔عمران خان کو اپنی وفاقی و صوبائی ٹیم میں بڑی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے ورنہ نکموں کی نالائقی کا بوجھ حکومت کو روند ڈالے گا۔

بعض وزراء اور حکومتی شخصیات کے خلاف تحقیقات اور الزامات کی وجہ سے کرپشن کے خلاف حکومتی بیانیہ میں بھی پہلے جیسی جان نہیں رہی ہے۔ حکومت اپنی نصف مدت گذار چکی ہے اور یہ عرصہ ناکامیوں اور محرومیوں پر محیط ہے، کورونا وائرس کی وبا کے پیچھے چھپا نہیں جا سکتا کیونکہ وائرس تو رواں برس آیا اس سے قبل تو کوئی وبا نہیں تھی ماسوائے حکومتی بیڈ گورننس کے۔عمران خان کی ذات کی حد تک شاید عوام آج بھی پہلے کی طرح ساتھ چلنے اور اعتماد کرنے کو ایک مرتبہ پھر تیار ہوجائیں لیکن جس ٹیم کو لیکر کپتان اس وقت میچ کھیل رہا ہے ایسے ''ریلو کٹے'' عوام کو نا منظور ہیں۔

عام پاکستانی آج پریشانی کے عالم میں خود کو لاوارث اور تنہا سمجھ رہا ہے کیونکہ اسے میاں نواز شریف اور مریم نواز کا فوج مخالف بیانیہ بھی قبول نہیں، وہ اپنے فوجی کے ساتھ محبت کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ بھارت کی جارحیت ہو یا دہشت گردوں کی بربریت ،عوام کی اصل محافظ افواج پاکستان ہی ہیں اور عوام کی یہی توقعات اسٹیبلشمنٹ پر حکومت کی اندھی حمایت سے پیچھے ہٹنے کیلئے دباو بڑھا رہی ہیں۔

عام آدمی پیپلز پارٹی سے بھی ناامید ہے کیونکہ سندھ کے عوام کا حال سب کے سامنے ہے اور ویسے بھی پنجاب میں پیپلز پارٹی گنتی کی چند سیٹوں تک محدود ہو چکی ہے جبکہ عوام اب تحریک انصاف سے بھی مایوس ہوتے جا رہے ہیں لیکن یہ بھی سیاسی حقیقت ہے کہ پنجاب میں آئندہ الیکشن کا معرکہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مابین ہی ہوگا جبکہ سندھ میں کراچی کی حد تک پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیا ن آئندہ انتخابی دنگل سجے گا۔ عمران خان کو علم ہے کہ ''سب اچھا نہیں'' لیکن اقتدار کے ایوانوں میں مچی ہلچل دور کرنے کی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں