بلوچستان …عالمی سازشوں کا محور
موجودہ بغاوت کے تمام اسباب عالمی طاقتوں اور سازشوں سے جڑے ہوئے ہیں
KARACHI:
بلوچستان جل رہا ہے۔ وہاں نفرت کے الائو بھڑک رہے ہیں۔ یہ آگ چند دنوں میں نہیں لگی۔اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
آزادی کے بعد بلوچستان میں بے چینی اور بدامنی کا تعلق مقامی وجوہات سے تھا ۔ا اس کے ڈانڈے شاہ ایران اور افغان حکمرانوں سے ملائے جاتے تھے یا پھر بلوچ سرداروں کے مراعات اور لین دین کے مسائل پر انھیں آزادی کے خواب دن میں دکھائی دینے لگتے ۔
موجودہ بغاوت کے تمام اسباب عالمی طاقتوں اور سازشوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ جس کا ذمے دار ہمارا دوست اور پالن ہار امریکا ہے۔ شاطر امریکی افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلاء کے بعد اس علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کے بہانے تلاش کررہے ہیں ۔ وہ روس، چین اور ایران کے گرد مضبوط فوجی حصار قائم کرناچاہتے ہیں ۔کبھی وہ منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف علاقائی اتحاد کی آڑمیں وسطی ایشیاء کی پانچ مسلمان ریاستوں میں فوجی اڈے بنانے کی اجازت مانگتا ہے اور کبھی افغا نستان سے فوجی انخلاء کے بعد وہاں ایک بہت بڑے فوجی اڈے کے قیام پر اصرار کرتا ہے۔روس اور چین ان مذموم مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
ایک مغربی سفارت کار کے مطابق بدخشان میں ہیروئن کے کارخانے دن رات کام کررہے ہیں۔ جس کی نوے فیصد پیداوار وسط ایشیاء کی دومسلم ریاستوں کرغیزستان اور تاجکستان کے دُشوار گذار پہاڑی راستوں سے روس میں اسمگل کی جاتی ہے جب کہ باقی دس فیصد منشیات کو مسلم اکثریت چینی علاقے سنکیانگ میںاسمگل کردیاجاتاہے۔ اسمگلنگ کے یہ دونوں روٹ بند کرانے میں پاکستان بڑا اہم کردارہے۔ پاکستان کے انسداد منشیات کے ادارے اگر اپنی سرحد سے ملحقہ افغان علاقوں میںہونے والی نقل وحمل کے بارے میں روس اور چین کو آگاہ کرنے کا منظم اورمبسوط طریق کار اختیار کر لیں تو اس حساس علاقے میں امریکی موجودگی کے لیے جاری بہانے بازیوں کاتوڑ ہوسکتا ہے۔
''چال باز امریکی وسط ایشیاء میں سازشوں کے جال بچھانے کے لیے نئے ٹھکانے ڈھونڈ رہے ہیں ۔ وہ قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان،ازبکستان اور ترکمانستان میں اپنے مستقل فوجی اڈے بنانا چاہتے ہیں ''۔لیکن'' شطرنج کی بساط پر ان کا مقابلہ۔ ٹھنڈے مزاج کے حامل چینیوں اور تجربہ کار روسیوں سے ہے وہ کیسے یہاں اپنے مکروفریب کے جال بچھا سکتے ہیں''
میرا دوست سفارت کار سازشوں کے تارکومربوط اور مدلل گفتگو سے کھول رہا تھا۔
اب منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے کے غم میں مبتلا امریکیوں نے گئے سالوں میں اس معاملے میں کوئی مدد کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا تھا۔''ہم تو طالبان کا تعاقب کررہے ہیں،ان سے لڑ رہے ہیں ۔منشیات مافیا کا مقابلہ روس ،چین اور پاکستان کریں''----- پھر آج امریکیوں کے کٹھور دل میں یہ درد کیسے جاگ اُٹھا۔
افغانستان سے اتحادی فوجوں کے انخلاء کاوقت جوں جوں قریب آرہا ہے۔ امریکیوں کے دل میں اس خطے کی محبت جاگ رہی ہے۔
یہ سب بے سبب نہیں !شاطر امریکی اس علاقے کے قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ روس اور چین پر مسلسل دبائو رکھنے کے لیے وسط ایشیائی ریاستوں میں نقب زنی کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بیک وقت چین اور ایران کے گرد گھیرا تنگ کرسکیں اور علاقائی سلامتی کے نام پر اپنے جاسوسی کے نیٹ ورک کووسعت دے سکیں۔
میں اُس وقت پیرس میں برادرم طاہر خوشنود کا مہمان تھا جب ''پیرس پیکٹ''کے اجلاس میں روسیوں نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے تمام امریکی تجاویز کو یکسرمسترد کر دیا تھا۔ معاہدہ پیرس----افغان منشیات کی روک تھام کے لیے تشکیل دیا جانے والاسب سے بڑا عالمی اتحاد ہے۔ وسط ایشیاء کی مسلم ریاستوں کی دولت مشترکہ کے اجلاس میں روس نے رکن ممالک کوبخوبی سمجھا دیا ہے کہ وہ لومڑی صفت امریکیوں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں-----اگر ایک بار امریکی فوجوں کو یہاں صرف قدم رکھنے کی جگہ دی گئی تو بدوکے اونٹ کی طرح سارے خیمے پر قبضہ کرنے سے اُنہیں کوئی نہیں روک سکے گا۔
لیکن امریکیوں نے ہر حال میں اور ہر قیمت پر وسط اور جنوبی ایشیائی خطے کے سینے پر اپنے زہریلے پنجے گاڑنے کی حتمی تیاریاں کرلی ہیں ۔ وقت اس کا فیصلہ کرے گا کہ شاطر امریکی، دانشمند چینیوں اور تجربہ کار روسیوں کا مقابلہ کیسے کریں گے۔
جہاں تک بلوچستان کا سوال ہے وہاں نفرتوں کے الائو بھڑک رہے ہیں اور خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ----بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ-----روز مرہ کا معمول ہیں ۔ ہماری نام نہاد سول سوسائٹی کسی پر اسرار ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دہشت گرد درندوں کے ''انسانی حقوق'' کے لیے نوحہ کناں ہے۔
بلوچستان کے قبائلی ڈھانچے کی ساخت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی کھلے بندوں نسلی تضادات کوبڑھاوا دے کر بغاوت کے شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں اورعلیحدگی کی لہر کو شوریدہ سر طوفان بنانے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں۔
امریکی چاہتے ہیں کہ اس خطے میں نئی سرحدیں تشکیل دی جائیں۔ افغانستان اور ایران کے بلوچ آبادی والے علاقوں کو پاکستانی بلوچستان سے ملا کر''بلوچستان''کے نام سے نیا آزاد اور خودمختار ملک کی نقش گری کی جائے ۔اس مقصد کے لیے واشنگٹن سے جنیوا تک سازشوں کے جال بچھائے جاچکے ہیں۔ گذشتہ مہینوں میں راقم کو بذات خودہوٹل انٹرکانٹینٹل جنیوا میں حادثاتی طور پر ایک اجلاس میں شرکت کاموقع ملا ۔جہاں آزاد بلوچستان کے مبہم نقشے کو بے لگام خواہشوں کے رنگوں سے مزین کیا جا رہا تھا۔
شاید بلوچستان دنیا کے نقشے پر بھڑکتے الائو کی طرح دیر بعد نمودار ہوتا لیکن یہ سارا تنازعہ گوادر کی بندر گاہ کی وجہ سے شدت اختیار کرگیا۔ گوادر کی وہی بندر گاہ-----جسے راندئہ درگاہ مشرف نے امریکیوں کے اشارے پر سنگا پور کے حوالے کر دیا تھا ۔لیکن سنگاپور والے شریف لوگ بین الاقوامی سازشوں میں فریق نہیں بنانا چاہتے تھے ۔اس لیے پسپا ہوگئے ''کون عقلمند ہوگاجو بھڑکتی آگ کواپنے گھر کی راہ دکھلائے گا''۔
اب گوادر بندر گاہ چین چلائے گا۔ خلیج فارس اوربحیرہ عرب کی تنگنائیوں میں یہ ایسا حساس مقام ہے جہاں سے تیل کی کل پیداوارکا 60فیصدعالمی منڈیوں میں جاتاہے ۔ایسی جگہ چینی بحریہ کی موجودگی امریکا اور اس کے ''اتحادیوں''کوکسی طور گوارانھیں۔ اس خطے میں امریکی اتحادی کون ہیں؟ سارامشرق وسطیٰ اور اسرائیل ، صرف شام اور ایران کو استثناء ہے ۔باقی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ۔وہ ترکی کے اسلام پسند جمہوری حکمران ہوںیا پھر مصر کے اخوانِ المسلمون ۔
بہت دن پہلے کا ذکر ہے ۔میرے ایک دوست کو اپنے کاروبار کے سلسلے میںجی ہاں خبروں کے کاروبار کے سلسلے میں مسقط جانا پڑا۔ چار یا پانچ سال ہوتے ہیں، اس نے وہاں کا بڑا ہولناک منظر بیان کیا تھا۔
اومان کی آدھی سے زیادہ آبادی دوہری شہریت کے حامل پاکستانی بلوچوں پر مشتمل ہے ۔ اس خطے میں سب سے بڑامریکی اڈابھی وہاںہے۔میرے دوست نے بتایا کہ امریکی وہاں غیر مطمئن بلوچ نوجوان کو بغاوت کے لیے تیارکررہے ہیں ۔باقاعدہ بھرتی کرکے انھیں فوجی تربیت دی جارہی ہے۔ پھر اس کی تصدیق بی بی سی کی ایک رپورٹ سے بھی ہوئی ۔جس میں انکشاف کیا گیا تھاکہ چند گرفتار ہونے والے بلوچ باغیوں نے اس بارے میں تفصیلی انکشافات کیے ہیں۔
گوادر میں چین کی موجودگی امریکی کیسے ہضم کرسکتے ہیں، اب انہوں نے پاکستان کی ترقی کے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے بلوچ کارڈ کھیلنا شروع کردیا ہے ۔جس کی تیاریاں وہ گذشتہ دہائی سے خاموشی سے کررہے تھے ۔حقیقی معنوں میں آزاد خود مختار اور معاشی طور پر مستحکم پاکستان امریکیوں کو قبول نہیں ۔
اس لیے اب امریکی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔منظم منصوبہ بندی کے تحت کانگریس مین ڈونا رُوہرکومیدان میں اُتاراگیا۔ اس نے آزادبلوچستان حکومت کو تسلیم کرنے کی تجویز پیش کی ۔جس کے بعد امریکی سینیٹ میں پہلی بار بلوچستان کی صورتحال پر بحث کی گئی۔اس کے فوراًبعد امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کارُونا شروع کردیا۔
کہتے ہیں کہ جب اہم امریکی خواتین انسانی حقوق کی پامالی پر بین ڈالنا شروع کردیں تو یہ دراصل امریکی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کا آزمودہ طریقہ ہوتاہے اگر1,30,000 نیٹو اتحادی فوجی جن میں 90ہزارامریکی شامل تھے ۔امن و سلامتی کی صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکے تو چالبازیوں اور سازشوں کے ذریعے امریکی اس خطے میں نئی حدبندیاں کیسے کرسکتے ہیں جب کہ ایران،چین اورروس اس کے مقابل ہوں گے۔
بلوچستان میں بغاوت کی سُلگتی آگ کو بھڑکا کر جوالامکھی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اہم امریکی عورتیں بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر نوحہ کناں ہیں ۔اقوام متحدہ کا حقائق مشن کسی وقت بھی پہنچا چاہتا ہے ۔ اللہ پاکستان کی خیر کرے۔
چلتے چلتے ایک خبر ملاحظہ فرمائیں۔ بجلی کی چوری' بلوں کی وصولی میں ناکامی اور بھتہ مافیا پر بعض سنجیدہ حلقوںنے کراچی میں دوبارہ فوج بلانے کامطالبہ کردیاہے۔باخبر ذرایع کے مطابق وزیراعظم کی موجودگی میں کہاگیا کہ کراچی میں کنڈا مافیا اور بھتہ مافیا کا خاتمہ صرف فوج کر سکتی ہے۔ رینجر ز سمیت تمام ادارے ناکام ہوچکے ہیں۔ اس لیے امن وامان کی صورتحال بہتربنانے کے لیے کنڈا اور بھتہ مافیا کے خلاف آپریشن اور بجلی کے بلوں کی وصولی کے لیے ایک بار پھر فوج کو زحمت دی جائے ۔