ذاتی زندگی کی تربیت و تہذیب
فرانس اورجرمنی خود انحصاری کی دوڑمیں سرفہرست ہیں، یورپ وامریکا میں کچن گارڈنزکی اہمیت خودانحصاری کا منہ بولتا ثبوت ہے
PITTSBURGH, PA, US:
جمہوریت کی یہ دوسری بہار ہے۔ جمہوری حکومتوں سے عوام کی بہت ساری امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ سوچ، لفظوں سے عمل کی طاقت بننے تک ایک طویل راستہ طے کرتی ہے۔ جمہوریت، سوچ، لفظوں و عمل کے درمیان رابطے استوار کرتی ہے۔ جمہوری عمل میں عوام کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو حکومتوں اور عوام کے تعاون سے سر انجام پاتے ہیں۔ دنیا کی بہت سی قومیں ایسی ہیں جو خود انحصاری کی طرف مائل ہیں۔ وہ اپنے بہت سے کام ذاتی طور پر تو کبھی اجتماعی طور پر سر انجام دیتی ہیں۔ فرانس اور جرمنی خود انحصاری کی دوڑ میں سر فہرست ہیں۔ یورپ و امریکا میں کچن گارڈنز کی اہمیت و افادیت خود انحصاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے پاس مثبت سوچ بھی ہے اور عمل کی طاقت بھی۔ یہ مثبت رویے مصروفیت کی دین ہیں۔
جہاں یہ شعور نہ ہو تو عوامی زندگی نہ ختم ہونے والے مسائل کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ مشہور چینی مفکر کنفیوشیئس کے مطابق ''قدیم لوگوں کا دستور تھا کہ اگر دنیا میں اخلاقی ہم آہنگی کی تمنا کرتے ہو تو سب سے پہلے قومی زندگی کی تنظیم کرنی پڑے گی۔ جس کے لیے گھریلو زندگی کو باقاعدہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ذاتی زندگی کی تربیت و تہذیب چاہیے۔ وہ سب سے پہلے دلوں کو صاف کرتے، نیتوں کو مضبوط بناتے، سمجھ اور مفاہمت پیدا کرتے۔ سمجھ اشیا کے علم کی چھان بین سے پیدا ہوتی ہے۔ اشیا کے علم سے سمجھ پیدا ہوتی ہے۔ سمجھ سے نیت اور ارادے مخلص ہو جاتے ہیں۔ دل صاف ہو تو ذاتی زندگی کی تہذیب و تربیت پوری ہو جاتی ہے''۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر انفرادی سوچ اور انفرادی مفاد کا پرچار کرتے رہیں گے تو اجتماعی بھلائی کا خواب اس خودغرضی کی نذر ہو جاتا ہے۔
قدیم زمانے کے لوگ اپنا کام خود کرتے تھے۔ مگر جیسے جیسے انسان ترقی کے منازل طے کرنے لگا وہ خود انحصاری سے دور ہوتا چلا گیا۔ اور دوسروں پر انحصار کرنے لگا۔ آج بھی دنیا کی بہت سی قومیں ایسی ہیں جو غذا سے لے کر گھر کے باقی کام اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتی ہیں۔ سہولت، کفایت اور حفظان صحت کے اصولوں کے تحت ان کی زندگیاں ایک اچھے احساس کے تحت گزرتی ہیں۔ ذات کی ذمے داری کا احساس بہتر معیار زندگی کا تعین کرتا ہے۔ نفسیات کی رو سے یہ رویّے گھر کی تربیت سے ترویج پاتے ہیں۔ انسیت اور لگاؤ کا جو جذبہ بچے میں خود اعتمادی، عزت نفس اور خود انحصاری کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔ جیسا کہ کنفیوشیئس کا کہنا ہے قومی زندگی کی تنظیم کا آغاز بہتر گھریلو زندگی سے ہوتا ہے۔ لیکن اس کی بنیاد ذاتی زندگی کی تربیت و تہذیب فراہم کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی بے ترتیبی کی وجہ گھر کے نظام کا انتشار ہے۔ زندگی کی ترتیب میں انتشار کمزور ذہن و کردار کے لوگ لے کر آتے ہیں۔
خود انحصاری ذات کی ترتیب ہے جس کا عکس ماحول سے جھلکتا ہے۔ جنوبی راجستھان کا ایک خوبصورت گاؤں پوری دنیا کے لیے خوبصورت سوچ اور خود انحصاری کی منفرد مثال بن گیا ہے۔ کچھ سال پہلے یہ گاؤں خشک صحرا کا منظر پیش کرتا تھا۔ پھر اس گاؤں کے ایک باشعور انسان نے پنچایت کے سامنے ایک منفرد منصوبہ رکھا جو لوگوں کی اکثریت نے بہت پسند کیا اور جلد ہی اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ وہ لوگ لڑکی کی پیدائش پر ایک سو گیارہ درخت لگاتے۔ پھل دینے والے یہ درخت آگے چل کر اس لڑکی کے بہتر مستقبل کی ضمانت بن جائیں گے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ گاؤں درختوں میں گھر کر سرسبز و شاداب ہو گیا۔ درخت بڑھتے تو وہ لوگ یہ محسوس کرتے کہ یہ ہریالی اس لڑکی کے وجود میں مہکنے لگی ہے۔ خود انحصاری کی طرف یہ ایک مضبوط قدم تھا۔ ہندوستان میں جہاں عورتوں کے استحصال کی خبریں مستقل آتی رہتی ہیں، وہاں ایسا قدم غیر انسانی سوچ اور رویوں کی نفی کرتا ہے۔ اس گاؤں میں ہر سال ساٹھ لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہر سال وہاں پر لاکھوں درخت لگائے جاتے ہیں۔ پھر لڑکی کے والدین اور پنچایت مل کر لڑکی کے لیے کچھ رقم محفوظ کر کے رکھتے ہیں، جو آگے چل کر اس کے کام آتی ہے۔ ایسے مثبت رویوں سے احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں فقط برائی، وحشت دہشت و بربریت نہیں ہے، بلکہ زندگی میں اچھے انسان بھی بستے ہیں جو اپنے عمل کی سچائی سے تبدیلی لے کر آتے ہیں۔ ان کی سوچ ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند ہے۔
ہمارے ملک میں دیکھا جائے تو بہت سے مسائل بیک وقت سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ مسائل کی اس بھرمار سے لوگوں کے حواس باختہ ہو چکے ہیں۔ ان مسائل میں سے کچھ مشکلات خود انحصاری کے رویے کو اپنا کر دور کی جا سکتی ہیں۔ میری دوست زائرہ جب انگلستان سے واپس آئی تو اس نے یہاں پر سبزیوں و پھلوں کو زمین پر پڑے دیکھ کر بہت اعتراض کیا۔ اس نے کھانے پینے کی دیگر اشیا کو بھی مضر صحت قرار دیا۔ کہنے لگی ''تم لوگ خود سبزیاں کاشت کیوں نہیں کرتے؟ میں نے بہت سے گھروں میں خالی جگہ دیکھی ہے، جہاں کاشت ہو سکتی ہے، سبزیاں مہنگی ہیں پھر انھیں کیڑا وغیرہ لگنے سے بچانے کے لیے زہریلی دواؤں کے اسپرے چھڑکے جاتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سبزیاں کھانے کے قابل نہیں ہوتیں۔ میں نے سنا ہے کہ سبزیوں کی کاشت میں گندا پانی بھی استعمال ہوتا ہے۔''
''تمہاری بات اپنی جگہ پر بالکل صحیح ہے مگر ہم لوگ خود انحصاری لفظ کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پاتے ہیں''۔ میری بات سن کر کہنے لگی ''اسی لیے تو ہم آج ترقی و خوشحالی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ محلے کے لوگ مل کر ایک پلاٹ کیوں نہیں خریدتے جس پر کاشت کاری کی جائے۔''
''اس کے بعد بٹوارے کے جھگڑوں کو کون منہ دے گا؟'' میں نے مسکرا کے جواب دیا تو اس کے چہرے پر وحشت کے آثار نظر آنے لگے۔ پھر توقف سے سوچ کر بولی ''ہر مسئلے کا حل موجود ہے ایسے اصول بنائے جائیں کہ کسی بدنظمی کا امکان ہی ختم ہو جائے'' یہ وہ ملک ہے جہاں اصول توڑنے کا گراف کبھی نیچے ہی نہیں آتا مگر یہ بات میں اس سے نہیں کہہ پائی کیونکہ وہ سچائی سے مسائل کا حل بتا رہی تھی۔ کہنے لگی ''میں جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے انگلستان گئی تو جس علاقے میں، میں رہائش پذیر تھی وہاں کے لوگ انفرادی طور پر یا مل کر پلاٹ لیتے اور اس پر خود کھیتی باڑی کرتے۔ کیونکہ وہاں کے لوگ حفظان صحت کے حوالے سے بہت چوکنے ہیں۔''
میں زائرہ کی باتوں سے متفق تھی وہ بہت صحت مند اور ہشاش بشاش تھی۔ میں نے اسے ایک بار بھی بیمار پڑتے نہیں دیکھا۔ جس کی وجہ غذا کے بارے میں اس کی احتیاط اور چناؤ تھے۔ وہ خود کام کرتی، میلوں چلتی، غذا کے بارے میں چھان بین کرتی۔ اس حوالے سے کوئی غلط بات اسے نظر آتی تو وہ اپنا احتجاج ضرور درج کرواتی، اس کا ہر نیا دن توجہ، نظر داری اور تجزیے کے باعث بہت اچھا اور خوشگوار گزرتا۔ وہ اپنی ذاتی ذمے داری سے باخبر تھی۔ اس میں تجزیے اور مشاہدے کی حسیں بہت متحرک تھیں۔
اس کی باتیں سننے کے بعد میں جب ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ ذات کی ذمے داری کے احساس سے عاری ہو چکے ہیں۔ وہ فقط اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ جب کہ اپنے فرائض سے غافل دکھائی دیتے ہیں۔ فرائض و حقوق میں توازن ایک اخلاقی معاہدہ ہے۔ بقول کنفیوشیئس کے کہ سمجھ جو اشیا کے عمل کی چھان بین سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ سمجھ ہماری زندگی سے منفرد ہے۔ چھان بین بھی پرکھنے کا صحیح پیمانہ مانگتی ہے۔ غیر جانبدار سوچ تجزیے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوتی ہے۔ ذاتی تجزیے کی صلاحیت بھی خود انحصاری کے اصولوں سے ترتیب پاتی ہے۔