آیندہ 45 دن اہم کیوں

ٹرمپ جاتے جاتے بھی اپنے سخت گیر امیج کو برقرار رکھنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔


اکرام سہگل December 05, 2020

3نومبر کو امریکی انتخابات سے لے کر آیندہ برس 20 جنوری کو نئے صدر کے حلف لینے تک یہ دن بے یقینی کے ہیں۔ جن ریاستوں میں ٹرمپ کے خیال میں بڑی انتخابی دھاندلی ہوئی تھی وہاں بھی ان کے اپنے مقرر کردہ ججوں نے ان کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ اپنی انتخابی فتح پر بضد ہیں۔

اب تو ٹرمپ کے اٹارنی جنرل ولیم بار جیسے قریبی ترین ساتھی بھی ان کے انتخابی دھاندلی کے بیانیے کو علانیہ بے سروپا قرار دے چکے ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والے ٹرمپ کے پیغام پر اب کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے جس میں وہ ایف بی آئی، محکمہ انصاف اور داخلی سلامتی جیسے اداروں کو بھی اپنی انتخابی شکست کے لیے سازش کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔ بہرحال، بائیڈن اب منصب سنبھالنے کے لیے تیاری کر رہے ہیں لیکن اقتدار انھیں منتقل نہیں ہوا۔ فوج سمیت سرکاری محکموں کو ادائیگیاں حکومتی فنڈز سے ہوتی ہیں اس لیے یہ سب 20 جنوری تک بلاشبہ ٹرمپ ہی کے فرماں بردار رہیں گے۔

بادل نخواستہ ٹرمپ نے انتخابات کے تین ہفتے بعد اقتدار کی منتقلی کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ لیکن ٹرمپ کی جانب سے انتخابی نتائج کو مسترد کرنے اور انتقالِ اقتدار میں رکاوٹ ڈالنے کی دھمکیوں کو محض مذاق نہیں سمجھنا چاہیے۔

ایران سے ٹرمپ کی عداوت کی وجہ سے کوئی بھی بڑا عالمی خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ہمارے اس پڑوسی پر ٹرمپ پہلے بھی ایک مرتبہ حملہ ملتوی کر چکے ہیں لیکن اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ انتخابی نتائج کے بارے میں ان کے اندازے کچھ اور ہی تھے۔ ایران میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس سے واضح ہے کہ اسرائیل ٹرمپ کے منصب صدارت پر باقی ماندہ دنوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرداں ہے۔

دوسری جانب ایران کے ساتھ سرحدی تنازعات اور ایران کی عسکری قوت اور بڑھتی ہوئی جوہری استعداد کو روکنے کے لیے امریکا کو اکسایا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے پہلے بھی ایران پر حملے کی دھمکی دی تھی لیکن امریکا کی عسکری قیادت کے محتاط مزاج عناصر نے ان جارحانہ منصوبوں کو تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔

امریکا کے اندر پھوٹنے والے احتجاجی مظاہروں کے خلاف فوج کو شہروں میں اتارنے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے والے سیکریٹری دفاع ایسپر کو ٹرمپ نے انتخابات کے چند روز بعد ہی برطرف کر دیا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسپر نے ٹرمپ کے ایران کے خلاف جارحانہ منصوبوں کو بھی روک رکھا تھا۔ تاہم اسرائیل اگر ایران پر حملہ آور ہوتا ہے تو امریکا کو لامحالہ اس لڑائی کا حصہ بننا پڑے گا کیوں کہ اسرائیل کی جانب سے کسی بھی جارحیت کی صورت میں ایران بلاتردد امریکی اہداف کو نشانہ بنائے گا۔ ٹرمپ کے داماد جیراڈ کشنر کے اسرائیل سے قریبی تعلقات ہیں ، کشنر ایران سے اس کی مخالفت کی آگ کو مزید بھڑکاتا رہا ہے۔

رواں سال 3 جنوری کو امریکی ڈرون حملے میں بغداد ایئر پورٹ کے نزدیک ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ بغداد میں عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی سے ملاقات کے لیے راستے میں تھا۔ سلیمانی ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کی پانچ شاخوں میں سے ایک قدس فورس کا کمانڈر تھا اور اسے ایران میں رہبر معظم آیت اﷲ علی خامنہ ای کے بعد سب سے طاقتور شخصیت تصور کیا جاتا تھا۔ امریکی ڈرون حملے میں سلیمانی کے ساتھ چار ایرانیوں اور پانچ عراقیوں کی بھی موت ہوئی۔

ان میں عراق کی معروف پاپولر موبلائزیشن فورسز (پی ایم ایف) کا چیئرمین اور ایرانی حمایت یافتہ کتیب حزب اﷲ ملیشیا کا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی شامل تھا۔ مہندس کو امریکا اور امارات دونوں نے دہشتگرد قرار دے رکھا تھا۔

گزشتہ جمعے کو ایرانی ایٹمی سائنسدان اور نائب وزیر دفاع ڈاکٹر محسن فخری زادہ کی کار پر حملے میں ہلاکت ہوئے۔ اگرچہ اسرائیل نے اس کی باضابطہ ذمے داری قبول نہیں کی۔ اسرائیل ایٹمی طاقت ہونے کے باجود کبھی تنقید کی زد میں نہیں رہا بلکہ آئی اے ای اے کے ذریعے اس نے ایران کے جوہری عزائم کو قابو میں رکھا ہے۔

فخری زادہ کے قتل کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے تند و تیز بیان میں تنبیہ کی تھی کہ مناسب وقت آنے پر اس کارروائی کا جواب دیا جائے گا۔ ممکن ہے اس کے لیے واشنگٹن سے اسرائیل کے سب سے بڑے دوست کی رخصتی کا انتظار کیا جائے۔ روحانی نے قابل اعتماد خفیہ اطلاعات کی بنا ہی پر اس قدر سخت بیان دیا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ تہران نے یہ اطلاعات بھی افشا کر دی ہیں کہ اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے جاسوسوں نے آئی اے ای اے کی دستاویزات سے فخری زادہ کی تفصیلات حاصل کیں جہاں ایران کی وزارت دفاع کے فزکس ریسرچ سینٹر کے سینیئر سائنسدان کے طور پر فخری زادہ کی نشاندہی کی گئی تھی۔

پیر کو ایران کی سپاہ پاسدارن کے ایک اور سینیئر کمانڈر مسلم شاہدان کو شام عراق 20 جنوری تک کے اس عبوری دورانیے میں اشتعال انگیزی کی مزید کارروائیاں کسی کے بھی حق میں نہیں۔ ایرانی صدر روحانی مسلسل اسرائیل کو اشتعال انگیزی کے لیے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں اور اس میں بڑی حد تک حقیقت بھی ہے۔ ایرانی قیادت میں شامل دانش مند عناصر جذبہ انتقام کو ضبط کیے ہوئے ہیں کیوں کہ انھیںمعلوم ہے اسرائیل انھیں اسی لیے مشتعل کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اشتعال انگیزی جاری رہی تو ایران کب تک صبر کرے گا؟ ادھر بائیڈن اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ایران سے اس جوہری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، ٹرمپ نے جس سے یک طرفہ دست برداری اختیار کر لی تھی۔ اسی لیے اسرائیل 20 جنوری سے قبل مزید اشتعال انگیزیوں کے لیے اتاولا ہو رہا ہے۔

موجودہ حالات میں ایک ہی منظر نامہ ذہن میں آتا ہے کہ اسرائیل ایران پر اب تک کا سب سے زور دار حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ تاہم امریکا کی عسکری قیادت کے دانشمند عناصر سے یہی توقع ہے کہ وہ کوئی جارحانہ قدم نہیں اٹھائیں گے۔ تاہم خطے میں امن ہی سب کے حق میں ہے۔ دوسری جانب گزشتہ برس فروری میں پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں ہزیمت کا جواب دینے کے لیے ممکن ہے مودی بھی اس موقعے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔

کورونا کے باعث پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے مودی حکومت کئی مشکلات کا شکار ہے اور بھارت کے کسان بھی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں مودی اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ بھارتی ٹی وی اینکروں نے رفائل طیاروں کی خوب رٹ لگائی اور انھیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ یہ کوشش تو ناکام گئی لیکن سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ لداخ میں چین کے ہاتھوں مودی کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں جنگی جنون کے مارے مودی کے سیاسی ہمنواؤں سے بعید نہیں کہ وہ اپنی بلا ٹالنے کے لیے مودی کو جنگ میں دھکیلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیں۔ ایسا ہوا تو مودی کے لیے اس مشکل میں سے نکلنا محال بھی ہو سکتا ہے۔

ٹرمپ کے دور میں نائب صدر کی حیثیت رکھنے والا ان کا داماد جیرڈ کشنر بخوبی جانتا ہے کہ انھی چند دنوں میں سب حساب صاف کرنا ہوں گے۔ کوئی ہنگامہ یا انتشار کھڑا کرنا ٹرمپ کے قریبی ترین ساتھیوں کے مفاد میں ہو گا۔ بہت تواتر سے یہ افواہیں گردش میں ہیںکہ ٹرمپ مقدمات سے بچنے کے لیے اپنے اہل خانہ اور خود کو بھی سرکاری معافی دینے کے اعلان کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس اقدام سے ٹرمپ اور ان کے قریبی ساتھی وفاقی قانون کی گرفت سے تو بچ نکلیں گے لیکن نیویارک میں کیا ہو گا؟ جہاں وفاقی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔

ڈیڑھ ماہ کا یہ عرصہ پاکستان اور خطے کے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی بری و فضائی افواج کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن کسی بڑی جنگ کے خطرے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے حالات میں چین لاتعلق نہیں رہے گا اور ایسا صرف پاکستان سے دیرینہ دوستی ہی کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ اسے سی پیک کا تحفظ بھی کرنا ہے جو ہمالہ کے دونوں سروں پر چینی حکمت عملی کی اہم ترین کڑی ہے۔

ٹرمپ جاتے جاتے بھی اپنے سخت گیر امیج کو برقرار رکھنے کی کوشش جاری رکھیں گے جب کہ اس وبا سے نکل کر امن اور معیشت کی تعمیر نو باقی دنیا کی ترجیح ہے۔ امید ہی کی جا سکتی ہے کہ اس عالمی بحران کا راستہ روکنے والے لوگ دنیا سے ختم نہیں ہوئے۔ دنیا اور مختلف اتحاد میں سیاسی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور حالیہ وبا نے عالمی حالات کو معاشی سطح پر یکسرتبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ ڈیڑھ ماہ خطے میں کسی بد امنی کے بغیر گزر بھی جائے تو وبا سے ہونے والی تبدیلیاں جوں کی توں ہی رہیں گی۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں