معیشت بے روزگاری اورمہنگائی
آئی ایم ایف کے مطابق 2020 میں عالمی معیشت 4.4 فیصد گرائوٹ کا شکار ہوئی ہے۔
ہماری معیشت دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شامل ہے ہرچندکہ ہم وسائل سے مالا مال ہیں۔ تانبے سے سونے تک، بادام سے چلغوزے تک، کپاس، گندم، چینی،معدنیات، پھلوں اور اجناس سے لدا ہوا خطہ ہے، مگر یہاں کے باسی بھوک، افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق 2020 میں عالمی معیشت 4.4 فیصد گرائوٹ کا شکار ہوئی ہے۔ اس حوالے سے یہ 1930کے بعد سے بدترین بحرانی صورتحال ہے۔ جاری سال کے دوران امریکا کے جی ڈی پی میں 4.3 فیصد گراوٹ آئی ہے جب کہ چین کی معیشت صرف 1.9 فیصدکی شرح سے اضافہ کرے گی۔ آئی ایم ایف کی مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق جاری مالی سال میں معیشت صرف 1 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی جب کہ مہنگائی مزید اضافے کے ساتھ 10 فیصد سے زیادہ جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی معیشت پچھلے مالی سال کے دوران 0.4 فیصد گراوٹ کا شکار ہوئی۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے صرف ایک سال کے دوران بے روزگاری میں مزید 13 فیصد اضافہ ہوگا۔ ورلڈ بینک کا تخمینہ اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ اس کے مطابق جاری مالی سال کے دوران ملکی معیشت صرف 0.5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی، جب کہ ورلڈ بینک کے ہی مطابق پچھلے مالی سال کے دوران معیشت0.4 فیصد نہیں بلکہ 1.5 فیصد گراوٹ کا شکار ہوئی۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب روپے کی قدر میں کمی کو معاشی بحالی کا درجہ دیا جاتا تھا، مگر اب روپے کی قدرمیں کمی کے باوجود معاشی بحالی کے بجائے بد حالی ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر روپے کی قدر میں کمی کرنے کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔ ہم پہلے چینی اورگندم برآمد کرتے تھے اب درآمد کرتے ہیں، یہ کوئی تعجب خیزی کی بات نہیں بلکہ سرمایہ داری میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
تب ہی تو غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے، ورنہ طبقاتی نظام ہی ختم ہوجاتا۔ ان حالات میں کروڑوں محنت کشوں کی معاشی مشکلات میں 300 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اب سے قبل مہنگائی اور بے روزگاری کا بوجھ محنت کش طبقے کے کاندھوں پر ہی پڑتا تھا، مگر اب متوسط طبقہ بھی اس بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے۔ پچھلے سال اگست کے بعد سے غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی شرح شہری علاقوں میں 10 سے 19 فیصد جب کہ دیہی علاقوں میں 12 سے 23 فیصد رہی ہے۔
پھل کھانے کے بارے میں غریب آدمی تو پہلے بھی سوچ نہیں سکتا تھا لیکن اب تو درمیانے طبقے کے لیے بھی ان کی خریداری انتہائی مشکل ہوگئی ہے۔ ابھی آئی ایم ایف بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، جس سے نہ صرف مہنگائی مزید بڑھے گی بلکہ اشیا کی پیداواری لاگت میں اضافے سے برآمدات میں بھی کمی واقع ہوگی۔
سرکاری شعبوں میں چھانٹی کا سلسلہ جاری ہے۔ پنجاب میں 50 ہزار ٹھیکے پررکھے گئے اساتذہ کو فارغ کرنے کی تجویز زیر غورہے۔وزیراعظم عمران خان سمیت تمام وزرا بیانات دے رہے ہیں کہ پنشن کے اخراجات حکومت پر بہت بڑا بوجھ ہے، لہٰذا مستقل ملازم کے بجائے وقتی ملازم رکھے جائیں گے۔ حال ہی میں پاکستان اسٹیل مل سے ہزاروں مزدوروں کو برطرف کردیا گیا ہے، پی آئی اے کے ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ کے نام سے فارغ کیا جا رہا ہے۔ جس پر مزدور سراپا احتجاج ہیں۔
اسٹیل مل کا ایک ملازم جو برطرفی کی خبر سنتے ہی حرکت قلب بند ہونے پر انتقال کرگیا۔ نام نہاد پی ڈی ایم اور حکومت کے درمیان جاری لڑائی میں اگر بے روزگاری، مہنگائی اور غربت جیسے لوگوں کے سلگتے ہوئے مسائل کا ذکر ہوتا بھی ہے تو وہ بھی انتہائی واجبی اور فروعی انداز میں اور ثانوی مسائل کے طور پر کیا جاتا ہے۔
حکمران طبقات کی بیشتر آپسی لڑائیوں کی طرح بنیادی طور پر یہ حصہ داری کی لڑائی ہے۔ اس سارے کھلواڑ میں زیادہ دلچسپی اور شمولیت متوسط طبقوں کے مختلف حصوں کی ہے۔ بحیثیت مجموعی محنت کش طبقہ عملی طور پر اس سے لاتعلق ہے۔ وسیع تر عوام کی بھی اس ساری لڑائی میں کوئی عملی شمولیت موجود نہیں ہے، لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے دیکھ ضرور رہی ہے اور بالخصوص موجودہ حکومت کے انتہائی تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد کسی واضح متبادل کی عدم موجودگی میں نواز شریف کے رجحان کے ساتھ کسی حد تک ہمدردی رکھتی ہے۔
ویسے بھی متوسط طبقے سے کسی بڑی اور موثر مزاحمتی تحریک کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اب ملازمت پیشہ متوسط طبقہ میں بھی حکومت سے بیزاری خاصی بڑھ گئی ہے۔ جو حزب اختلاف کو کم ازکم اس لحاظ سے فائدہ دے رہی ہے تحریک انصاف اپنے ان روایتی حمایتی حلقوں کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوچکی ہے۔ سب سے بڑھ کر اس حکومت کو جس طرح لایا گیا ہے اور جس انداز سے مسلط رکھا جا رہا ہے ، عوام اس سے ہرگز بے خبر نہیں ہیں۔ حکومت کی ناکامی نے بہت سے سوالات پیدا کیے ہیں۔
ریاستی اداروں سے متعلق جو باتیںکبھی مخصوص لبرل یا ترقی پسند حلقوں میں ہوا کرتی تھیں آج عام لوگ کر رہے ہیں۔ پالیسی ساز اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ دوسری طرف یہ حزب اختلاف کی جماعتیں بالخصوص نواز لیگ کے بھی سیاسی اور مالیاتی وجود کا سوال ہے۔ نواز شریف حکمران طبقے کے اس حصے کی نمایندگی کرتے ہیں جن کا مالی مفاد ریاستی اداروں کے کردار کو ایک مخصوص حد میں مقید کرنے سے جڑا ہے۔ اسی لیے وہ سویلین بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے نعرے لگا رہے ہیں۔
اگر پچھلے کچھ مہینوں کی پیش رفت پر غور کریں تو نواز شریف بڑے محتاط لیکن بتدریج انداز میں ایک کے بعد دوسری حد کو عبور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی حالیہ تقاریر اشتعال انگیزی کی حد کو چھو رہی تھیں۔ اسی طرح مریم نواز نے کوئٹہ کے جلسے میں بھی کی ہے۔ جہاں اس نے جبری گمشدگی جیسے ممنوع موضوع پر بات کی۔ اس طرح وہ لاہور میں سراپا احتجاج بلوچ طلبا کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے بھی پہنچ گئیں۔ یہ بے سبب نہیں ہے بلکہ دباؤ بڑھانا مقصود ہے۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں سرکاری سنسر شپ بھی بڑی حد تک غیر موثر ہوکر رہ گئی ہے۔ اس حوالے سے یہ تقاریر سوشل میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر موضوع بحث بنی ہیں۔ (ن) لیگ میں توڑ پھوڑ کی واردات بھی آگے بڑھائی جاسکتی ہے۔ حزب اختلاف کے کسی حصے کو راضی کرکے پی ڈی ایم میں پھوٹ بھی ڈلوائی جاسکتی ہے۔ پی ڈی ایم جلسوں کے بعد آنے والے دنوں میں زیادہ جارحانہ انداز اور اقدام کی طرف بھی جاسکتی ہے۔
اس حوالے سے اسلام آباد کی طرف مارچ اور بڑے دھرنے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ مگر یہ کھلواڑ سماج کو نہیں صرف چہرے بدلنے اور اقتدار کے رکھوالوں کو بدلنے کی تگ و دو ہے۔ حزب اختلاف یہ قطعی نہیں کہہ رہی ہے کہ ''ہم اقتدار میں آکر آٹا، دال، چاول، تیل، دودھ، چینی سستی کردیں گے۔'' بلکہ مبہم سی نعرے بازی پر گزارا کر رہی ہے۔