طالب علموں کے ناتواں کندھے اور بھاری بستوں کا بوجھ

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے وزنی اسکول بستوں سے متعلق قانون سازی خوش آیند اقدام ہے


Adnan Ashraf Advocate December 11, 2020
بستے کا وزن بچے کے وزن کے 15 فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

حال ہی میں خیبرپختونخواہ حکومت نے School Bags (Limitation of Weight) بل پاس کیا ہے۔ اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم شہرام خان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کے پی کے پہلا صوبہ ہے جہاں اس دیرینہ عوامی مسئلے کے حل کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔ اس قانون کا اطلاق صوبے کے تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں پر ہوگا۔ اس میں کتابیں، کاپیاں ہلکے میٹریل سے تیار کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب اسکول انتظامیہ پر دو لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جاسکے گا۔

پچھلے سال اپریل میں پشاور ہائیکورٹ نے ایک آئینی درخواست کی سماعت کے موقع پر کے پی کی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ کتابوں کاپیوں کی تعداد، جو بستوں کو بھاری بناتی ہیں، سے متعلق چار ماہ کے اندر قانون سازی کرے۔ تاکہ بچوں پرسے اس اضافی و غیر ضروری بوجھ کو ختم کیا جاسکے جس سے اسکول جانے والے بچوں کی صحت اور تعلیمی استعداد کار بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں عدالت عالیہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ جلد اس سلسلے میں صوبائی اسمبلی میں بل پیش کریں گے۔ اس مقدمے کی سماعت کے موقع پر جسٹس قیصر راشد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ بچے ایسے بستہ لے کر اسکول جاتے ہیں جیسے کمانڈو ٹریننگ پر جارہے ہوں۔

International Pediatric Chiroparactice Association (ICPA) کے مطابق بچے پر بستہ کا وزن اس کے وزن کے 15فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔ ایک KG کلاس کا بچہ جس کا وزن 15 تا 20 کلو گرام ہو، اس کی کتابوں کا وزن 2.25 تا 3 کلو گرام سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح 20 تا 23 کلو گرام وزن کے حامل بچے کی کتابوں کا وزن 3 کلوگرام سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔

خیبرپختونخوا حکومت کے وضع کردہ قانون میں KGکلاس کے لیے بستے کا وزن 1.5 کلوگرام، پہلی دوسری کلاس کے لیے 2.4 کلو گرام، تیسری جماعت کے لیے 3 کلوگرام، چوتھی جماعت کے لیے 4.4 کلوگرام، پانچویں جماعت کےلیے 5.3کلوگرام، چھٹی جماعت کےلیے 5.4 کلوگرام، ساتویں جماعت کے لیے 5.8 کلوگرام، آٹھویں جماعت کےلیے 5.9کلوگرام، نویں جماعت کے لیے 6 کلوگرام، دسویں جماعت کےلیے 6.5کلوگرام جبکہ گیارہویں، بارہویں جماعتوں کے لیے بستے کا وزن 7 کلوگرام مقرر کیا گیا ہے۔ اس میں صحت یا وزن کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔

کے پی کے حکومت کی جانب سے وزنی اسکول بستوں سے متعلق قانون سازی ایک خوش آیند اقدام ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی اسکول کے بچوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اس قسم کی قانون سازی ہونی چاہیے اور بچوں سے متعلق دیگر مسائل کو بھی زیر غور لانا چاہیے۔ طلبا کے بستوں میں صرف کتابوں کاپیوں کا وزن ہی نہیں ہوتا، بلکہ لنچ باکس، تھرماس یا پانی کی بوتلیں، کھیل کھلونے، بیٹ، ریکٹ وغیرہ جیسی اشیا بھی ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اسکولوں کی چھوٹی ڈیسک یا کرسیوں میں ان بستوں کو کھپانا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کو ٹائم ٹیبل کے مطابق کتابیں کاپیاں بستے میں رکھنی چاہئیں۔ انھیں بستہ چیک کرنے کا پابند بنانا اور بستوں کی سرپرائز چیکنگ کا متحرک اور فعال نظام وضع کرنا چاہیے۔

عام مشاہدے کی بات ہے کہ اسکول کی گاڑیوں میں بچوں کو جانوروں کی طرح لاد دیا جاتا ہے۔ چھتوں اور گاڑیوں کے باہر اسکول بیگز کے ڈھیر لٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ بعض بچے گاڑیوں سے باہر فٹ بورڈ پر پیر رکھ کر سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کا گاڑیوں کے اندر بٹھا کر گرل مقفل کردی جاتی ہیں۔ گاڑیوں کے اندر غیر معیاری گیس سلنڈر نصب ہوتے ہیں۔ بوسیدہ و ناکارہ گاڑیاں اسکولوں کے بچوں کو لانے لے جانے کےلیے استعمال کی جاتی ہیں، جن میں اسکول انتظامیہ سے لے کر حکومتی اداروں و انتظامیہ کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ یہ تمام عوامل انتہائی خطرناک ہیں، جن سے بچوں کی زندگیوں کو مستقل خطرات لاحق رہتے ہیں۔ ماضی میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جن میں گیس سلنڈر پھٹنے سے بچوں کی زندگیوں کا اتلاف ہوا ہے۔

گاڑی کی گرل لاک ہونے یا ناکارہ دروازوں کے نہ کھلنے کے باعث معصوم بچے جل کر خاکستر ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہر واقعے کے بعد انتظامیہ چند روز کے لیے بیدار اور متحرک ہوتی ہے۔ گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے۔ رشوت بازاری اور بلیک میلنگ کا کاروبار مزید تیز ہوجاتا ہے۔ کچھ دنوں کی بیان بازی، نمائشی غیر حقیقت پسندانہ بلکہ احمقانہ اقدامات کرکے انتظامیہ اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوجاتی ہے۔ نہ ایسے واقعات کے مرتکب اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں آتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ان کے سدباب کے لیے کوئی مربوط پالیسی یا قانون سازی نظر آتی ہے۔

حکومت اور انتظامیہ کی یہ روش تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے وسیع و منظم استحصال کے مترادف ہے۔ کاش ہمارے حکمران مستقبل کے معماروں اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں، جن کے لیے اقبال کی خواہش و تمنا تھی کہ
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں