مساجد و مدارس کا تحفظ لازم دوسرا اور آخری حصہ
موجودہ وقف کا قانون بنیادی انسانی حقوق سے بھی متصادم ہے۔ یہ ہے وہ تبدیلیاں جن پر سوالیہ نشان نظر آرہا ہے۔
ظاہر ہے کہ آگے چل کر چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بھی اس کی روشنی میں ایسے ہی ایکٹ بنیں گے۔
اس کی شق 3 میں کہا گیا ہے: (۱) ''چیف کمشنر اسلام آباد و وفاقی دارالحکومت علاقہ جات کے لیے ناظمِ اعلیٰ اوقاف کا تقرر کرے گا اور بذریعہ حکم ایسی تمام وقف املاک جو اسلام آباد و وفاقی دارالحکومت کی علاقائی حدود کے اندر واقع ہیں، بشمول اس سے متعلق تمام حقوق، اثاثہ جات، قرضہ جات، واجبات اور ذمے داریاں اس کے زیر اختیار دے سکتا ہے۔
(۲) کسی شخص کا ناظم اعلیٰ کے طور پر تقرر نہیں کیا جائے گا تاوقتیکہ وہ ایک مسلمان ہو اور ایسی قابلیت کا حامل ہو جیسا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صراحت کی گئی ہو، (۳) ناظمِ اعلیٰ، اوقاف اسلام آباد و وفاقی دارالحکومت : ناظمِ اعلیٰ کے نام سے ایک واحد کارپوریٹ ادارہ ہوگا جو دوامی تسلسل اور مخصوص مہر کا حامل ہو گا اور وہ اپنے کارپوریٹ کے نام سے مقدمہ دائر کر سکے گا اور اس کے خلاف بھی مقدمہ ہو سکے گا، (۴) ناظمِ اعلیٰ، وفاقی حکومت کی نگرانی میں اپنے فرائض سر انجام دے گا''۔
مندرجہ بالا دفعہ تین (۲) میں ناظمِ اعلیٰ کی مطلوبہ کوالیفکیشن میں اْس کا مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایکٹ صرف مسلمانوں کے اوقاف سے متعلق ہے اور غیر مسلموں کے اوقاف پر ان قوانین کا اطلاق نہیں ہو گا اور نہ اْن پر ایسی پابندیاں عائد ہوں گی جو اس قانون کا تقاضا ہیں؟ مذکورہ ایکٹ میں دفعہ 21 کی شق 2 کے تحت ناظمِ اعلیٰ کے دائرئہ اختیار کے بارے میں درج ہے: ''ناظمِ اعلیٰ اوقاف کسی ایسی وقف جائیداد کے بارے میں' جسے انتظامیہ نے اپنے کنٹرول میں نہیں لیا یا اْس کا ایسا ارادہ نہیں، وقف کے اہتمام، کنٹرول اور دیکھ بھال کے بارے میں ایسی ہدایات جاری کر سکتا ہے۔
جنھیں وہ ضروری سمجھے، بشمول ایسے خطابات یا لیکچرز پر پابندی کے بارے میں جو پاکستان کی خودمختاری اور یکجہتی کے بارے میں متعصبانہ ہوں یا مختلف مذہبی فرقوں یا گروہوں کے بارے میں نفرت انگیزی کے جذبات پر مبنی ہوں، اسی طرح ایسے شخص کو اپنے خطابات یا لیکچرز کے ذریعے جماعتی سیاست میں ملوث ہونے سے روک سکتا ہے، اوقاف کا ناظم ایسے احکامات اور ہدایات کی تعمیل کرائے گا''۔ اس میں محکمئہ اوقاف کے ایک افسر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ازخود یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا کوئی خطبہ، خطاب یا لیکچر ملکی خود مختاری اورسالمیت کے منافی ہے۔
مذہبی اور گروہی فرقہ واریت پر مبنی ہے اور اس سے جماعتی سیاست کا تاثر ملتا ہے، یہ تو اس کے ہاتھ میں ایسا ہتھیار آجائے گا کہ جسے جب چاہے جائز و ناجائز استعمال کرتا پھرے، وہ اپنے اس عمل کے بارے میں خود کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ علماء اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین پر مشتمل ایسا بااختیار کمیشن ہو، جس کے پاس یہ افسر شکایت درج کرے اور اپنی شکایت کے ساتھ ثبوت و شواہد بھی پیش کرے، وہ کمیشن متعلقہ عالم یا خطیب کا موقف سن کر فیصلہ کرے۔ قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کی بیشتر تعلیمات ایسی ہیں' جنھیں سن کر کوئی شخص از خود رائے قائم کر سکتا ہے کہ اس سے فلاں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
مذکورہ بالا ایکٹ کی دفعہ 9 بعنوان ''متفرق معلومات'' میں کہا گیا ہے: ''دفعہ 9 کے تحت وقف یا ناظمِ وقف رپورٹنگ اتھارٹی کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ نمبر 7 مجریہ 2010'کے تحت بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق اپنے ذرایع کو واضح کرے گا''۔ اندیشہ ہے کہ اس کی رُو سے دینی اداروں کو عطیات دینا ایک مشکل امر بن جائے گا اور رفاہی اداروں کے لنگر خانے' جن کی وزیر اعظم تحسین کرتے ہیں' بند ہو جائیں گے یا یہ قانون ایسا ذریعہ بن جائے گا کہ Pick & Choose کے ذریعے جسے چاہیں گے۔ہدف بنائیں گے۔
اسلامی قانون اور جدید فلسفئہ قانون یہ ہے کہ آپ بے قصور ہیں تاوقتیکہ آپ کا قصور ثابت نہ ہو جائے، منی لانڈرنگ کے قانون کا وقف پر مبنی دینی مدارس و جامعات، مساجد اور رفاہی اداروں پراطلاق بے چینی کا سبب بن سکتا ہے یوں حکومت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں بد اعتمادی بڑھے گی۔
اس قانون کو دینی طبقات قبول نہیں کریں گے، بنیادی طور پر فیٹف کے نام پر منظور کردہ وقف املاک سے متعلق موجودہ قانون مساجد، دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے قائم دیگر اداروں پر غیر ضروری قواعد و ضوابط لاگو کر کے ان اداروں کے لیے املاک وقف کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
وقف کا اسلامی تعلیمات میں بہت اہم مقام ہے، وقف خالصتاً اﷲ کی رضا و خوشنودی کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ موجودہ وقف کا قانون بنیادی انسانی حقوق سے بھی متصادم ہے۔ یہ ہے وہ تبدیلیاں جن پر سوالیہ نشان نظر آرہا ہے۔ دینی حلقوں میں بے چینی بڑھے گی، اس لیے بہتر ہے حکومت اس قانون کی اصلاح کرے اور بیرونی دباؤ سے نکلے۔