بحران
اپوزیشن جماعتوں نے جب بھی احتجاج کا راستہ اختیارکیا اور حکومت کو گھر بھیجنے کی تحریکیں چلائیں تو نقصان جمہوریت کو ہوا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی اورکشمکش کی ایک طویل داستان ہے۔ ہمارے جمہوری مزاج میں تحمل، برداشت اور رواداری کی کوئی بھی قابل ذکر اور قابل تقلید مثال نظر نہیں آتی۔ اپوزیشن جماعتوں نے جب بھی احتجاج کا راستہ اختیارکیا اور حکومت کو گھر بھیجنے کی تحریکیں چلائیں تو نقصان جمہوریت کو ہوا، ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے چلا گیا۔
1977 میں بھٹو حکومت کے خلاف 9 جماعتوں کے اتحاد نے جب سڑکوں پر نکل کر احتجاج شروع کیا تو جمہوری استحکام کے بجائے مارشل لا کا راستہ ہموار ہو گیا اور 11 سال تک جمہوریت کا پرچم سر نگوں رہا۔ 1999 میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت کا خون کیا گیا۔ برسر اقتدار حکومتیں چلی جاتی ہیں لیکن اپوزیشن کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آتا۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ ہمارا آئین تمام سیاسی قوتوں کو جلسے، جلوس، ریلیاں، لانگ مارچ اور دھرنوں کی اجازت دیتا ہے کہ یہ سب جمہوری عمل کا حصہ ہے، لیکن یہ تمام چیزیں بہ ظاہر انتخابی سرگرمیوں کے حوالے سے ہی مناسب معلوم ہوتی ہیں اور اگر ایسی احتجاجی تحریک سے جمہوریت یا جمہوری عمل کے تسلسل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ہر دو فریق بات چیت کا راستہ اختیارکریں۔ بدقسمتی سے آج کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس حوالے سے گہرا فقدان پایا جاتا ہے۔
حکومت اور 11 جماعتی اتحاد پی ڈی ایم اپنے اپنے موقف اور بیانیے پر اڑے ہوئے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اپوزیشن مجھے جانتی نہیں، میری حکومت چلی جائے تب بھی احتساب پر سمجھوتہ نہیں کروں گا، اپوزیشن محض اپنی کرپشن بچانے اور نیب کیسز ختم کرانے کے لیے کورونا کی شدید لہر کے دوران عوام کی زندگی خطرے میں ڈال کر جلسے جلوس کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن مینار پاکستان پر دس جلسے بھی کر لے حکومت کوئی رعایت نہیں کرے گی، اپوزیشن کو ڈائیلاگ کرنا ہے تو پارلیمنٹ میں آئے۔ انھوں نے چیلنج کیا کہ آئینی طریقے سے اپوزیشن میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے، میں اپوزیشن سے زیادہ پر اعتماد ہوں اور اپوزیشن جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دیں میں ضمنی الیکشن کرا دوں گا۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم مینار پاکستان کے جلسے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے لیکن جلسے کے منتظمین کے خلاف قانون کیمطابق ایف آئی آرکاٹی جائیں گی۔
ادھر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اپنے 8 دسمبرکے سربراہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ اتحاد میں شامل جماعتوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی 31 دسمبر تک اپنے استعفے اپنی اپنی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرکے پاس جمع کرا دیں۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ حکومت کی کرسی کی چولیں ہل چکی ہیں بس آخری دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ جعلی وزیر اعظم سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ مولانا نے صاف الفاظ میں کہا کہ استعفے دیے تو پی ٹی آئی کی طرحیوٹرن نہیں لیں گے۔
گزشتہ اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان نے اپنے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی کو دیے تھے۔ (ن) لیگ کے اسپیکر ایاز صادق نے استعفے منظور نہ کیے اور ''بیک ڈور ڈپلومیسی'' کے تحت پی ٹی آئی ارکان نے استعفے واپس لے لیے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں اگر استعفے دینے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو وہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر صاحب کو اپنے استعفے بھیج دیں۔ منظور نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن استعفے دے تو ضمنی الیکشن کرا یں گے، یوٹرن لینے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کیمطابق استعفے کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اندر کلی اتفاق رائے موجود نہیں۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جو مفاہمت اور ڈائیلاگ کے حامی ہیں اور ان کے ہم خیال لیگی ارکان استعفوں کے انتہائی قدم کے لیے تیار نہیں اسی طرح لانگ مارچ اور دھرنے کے حوالے سے بھی (ن) لیگ میں اختلافات موجود ہیں۔ شہباز شریف کے جیل میں ہونے کے باعث مریم نواز کی پارٹی پر گرفت مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے انھیں اپنے والد میاں نواز شریف کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ مریم میاں صاحب کے جارحانہ بیانیے ہی کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی مریم بی بی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے استعفے ان کی جھولی میں ڈال دیں گے؟ کچھ ایسی ہی صورتحال پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ہے۔ پی پی پی کے سینئر ترین رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ن لیگ سیاست کو تصادم کی طرف لے جا رہی ہے لیکن یہ منصوبہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ انھوں نے پی ڈی ایم کو لاہور جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومتیں جلسے جلوس سے نہیں جاتیں بلکہ تیسری قوت غالب آجاتی ہے۔ اعتزاز احسن نے اپوزیشن کے استعفوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ نواز شریف کے جارحانہ بیانیے میں پی ڈی ایم کا مفاد نہیں ہے۔ استعفوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے اندر بھی مکمل ہم آہنگی نہیں ہے۔
پی پی پی سندھ میں گزشتہ ایک عشرے سے برسر اقتدار چلی آرہی ہے۔ اندرون سندھ پی پی پی کی سیاسی گرفت آج بھی مضبوط ہے۔ کیا استعفے دے کر پی پی پی اپنی سیاسی ساکھ داؤ پر لگانے اور اقتدار سے دستبرداری پر تیار ہے؟ بلاول بھٹو کے لیے یہ امتحان ہے اسی لیے انھوں نے پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس بلانے اور وہاں استعفوں کا معاملہ حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ڈی ایم نے لاہور جلسے کے بعد جنوری کے آخر میں لانگ مارچ کا بھی اعلان کردیا ہے۔
گویا اپوزیشن اپنی کشتیاں جلا کر بقول مریم نواز کے ''آر یا پار'' کی بازی کھیل رہی ہیں۔ ادھر وزیر اعظم عمران خان بھی اپوزیشن سے محاذ آرائی کی ''آخری جنگ'' قرار دیتے ہوئے پرامید ہیں کہ جیت انھی کی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن معرکہ آرائی میں جو سیاسی وآئینی بحران پیدا ہوگا، اس کا ذمے دارکون ہوگا؟