تبدیلی نہیں آئی
ہم سب سمیت پوری قوم مایوسی کی طرف چلی گئی اور یہ کھیل آمروں کا جاری رہا۔
میری عمر رواں کے پچھتر برس بیت گئے ہیں۔کیا خواب تھے کیا دن تھے،کب برصغیر تقسیم ہوا ،کب پاکستان بنا؟ خیر جب بچپن گزرا، لڑکپن آیا، گلی ڈنڈا کھیلا، فٹ بال کھیلا ،گولیاں کنچے کھیلے۔ پہلے مسجد اور پھر حاجی سر عبداللہ ہارون اسکول (پاکستان چوک) میں پہلی جماعت میں داخل ہوا،جب اسکول میں داخل کرایا گیا جہاں میں نے چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
بعد ازاں پانچوں جماعت میں سندھ مدرستہ السلام میں داخل کرا دیا گیا۔ جہاں میں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، ہمارے پرنسپل گورے چٹے انگریزوں کی مانند کوٹ پتلون اور ٹائی لگائے ہاتھ میں فوجی جرنیل کی طرح اور چھوٹا ڈنڈا پکڑے ہوئے گراؤنڈ اور اسکول کی کلاسوں کا دورہ کرتے نظر آتے، سر پر ایک ہیٹ لگاتے تھے نام تھا ان کا ناصرخان۔ اسکول بہت بڑا تھا کھیل کا گراؤنڈ شاید اس وقت کسی اور اسکول میں نہ تھا مختلف مسالک کی دو مسجدیں تھیں اور آج بھی گراؤنڈ اور مسجدیں موجود ہیں۔ خیر یہ تو مختصر اپنی بچپن کی داستان حیات تھی۔ مجھے جب ہوش آیا جب ملک میں پہلی مرتبہ ایوب خان کا مارشل لا لگا۔
میں نے اپنی دادی اور ابا سے پوچھا کہ یہ ''مارشل لا کیا ہوتا ہے'' انھوں نے کہا کہ ''یہ فوج کی حکومت آگئی ہے۔ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف اب ملک ترقی کرے گا'' خیر وقت گزرتا گیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بندرروڈ پر اونٹ گاڑی پرگندم کی بوریاں لدکر آرہی ہیں اور ایک لمبی قطار اونٹ گاڑیوں کی لگی ہوئی ہے۔ اونٹ کی گردن میں رسی کے ساتھ ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا تھینک یو امریکا۔ میں نے گھرآکر پوچھا یہ کیا چکر ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں گندم اور آٹے کی کمی ہورہی ہے، اس لیے امریکا نے ہمیں امداد میں کئی جہاز بھرکر پاکستان بھیجے ہیں اور دودھ کے ڈبے بھی آئے ہیں۔ وقت گزرتا رہا جوان ہوا تو ابا نے مجھے بھی ریلوے میں نوکرکرا دیا اس طرح میں 1965 میں ریلوے میں بھرتی ہوگیا مجھے اصل میں علم وادب اور فلمی دنیا میں جانے کا بڑا شوق تھا، شاعری بھی شروع کی۔ فلمی گانے بھی لکھے مگرکامیاب نہ ہوسکا۔
امریکا نے ویت نام پر حملہ کردیا۔ جہاں ہوچی منہ کی حکومت تھی اور امریکا بمباری کر رہا تھا۔ ریلوے میں یونین بھی موجود تھی مگرمجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ والد صاحب تھوڑا بہت یونین میں تھے اس دورمیں 1965 کی جنگ بھی ہوئی جب کراچی میں ہم اپنے گھروں کے باہر چارپائیاں ڈال کر سورہے تھے بڑے بڑے جنگی جہاز پورٹ کی جانب جا رہے تھے اور آگ کے گولے برسا رہے تھے۔ خیر ہم سب گھروں میں گھس گئے اس زمانے میں ڈان، نئی روشنی، نوروز اخبار آتے تھے جو ایک یا دو آنے کے ہوتے، ہم پڑھتے تھے۔
بی بی سی ریڈیو سنتے تھے پورے ملک میں ایوب خان کے خلاف بغاوت تھی۔ نوجوانوں، طالبعلموں اور مزدوروں میں بھی کافی بغاوت، روز کے پی ٹی اور شپ یارڈ میں ہڑتال ہو رہی تھی اور ایک خاتون لیڈر محترمہ کنیز فاطمہ کوگرفتار بھی کیا گیا۔ اکتوبر 1967 میں ریلوے میں ہڑتال ہوگئی جو تیرہ روز جاری رہی، ریلوے میں بھی کچھ کامریڈ یونین بازی کرتے تھے اور وہ میرے رابطے میں آگئے، چار پانچ روزکے بعد وہ مجھے بھی ہڑتال کرنے ڈیزل شیڈ ورکشاپ کراچی کینٹ لے گئے جہاں ریل مزدور ریل کی پٹریوں پر دھرنا دیے ہوئے کئی دن سے بیٹھے ہوئے تھے۔
لیڈر تقریرکررہے تھے مجھے بھی کہا کہ آپ بھی کوئی بات کریں، میں نے کہا کہ مجھے تقریرکرنا نہیں آتی، میں شاعری کرتا ہوں، انھوں نے کہا کہ آپ شاعری سنا دیں۔ لوگ امریکی سامراج کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے میں نے بھی امریکا کے خلاف ویت نام پر ظلم کے خلاف نظم لکھی تھی سو اسٹیج سے اسپیکر نے کہا کہ ایک نوجوان منظور رضی آپ کو ایک انقلابی نظم سنائیں گے اور مجھے لے جا کر محنت کشوں کیسامنے کھڑا کردیا۔
ابھی میں نے نظم کا ایک بند ہی پڑا تھا کہ ایک دم سیکیورٹی اہلکار آگئے اور میں اسٹیج پر تھا پہلے مجھے پکڑا اور بعد میں 12،13 مزدور بھی پکڑ لیے۔ میں کہتا رہا کہ میرا یونین سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن انھوں نے کہا کہ تم تو اسٹیج پر تقریرکررہے تھے اس طرح 1967 اکتوبر میں میری پہلی گرفتاری ہوئی اور ساتھ ہمارے لیڈر محمد سلیمان سمیت 13 دیگر لوگ پکڑے گئے اور آرٹلری میدان تھانے میں قید کردیا۔ 14 روز کا جسمانی ریمانڈ لے لیا گیا ریلوے میں مکمل ہڑتال ہوگئی۔ جہاں گاڑیاں کھڑی تھیں وہیں 13 روز تک کھڑی رہیں۔ ریڈیو پاکستان سے خبریں آرہی تھیں۔
لاہور سے مرزا محمد ابراہیم، چوہدری عمر دین سمیت سیکڑوں لیڈر گرفتار ہو چکے تھے۔ پھر ہمیں ریمانڈ کے بعد کراچی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا جہاں جیل کے قیدیوں میں مزدور سیاسی کارکنوں، لیڈروں سے بھری ہوئی تھی، جہاں میں نے سیاسی تربیت حاصل کی۔ ترقی پسند تحریک کے لیڈروں کارکنوں سے ملاقاتیں کیں، کئی کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ روس اور چین کے انقلاب کی خبریں پتا چلیں اور ماؤزے تنگ، چو این لائی، میکسم گورکی کی ماں کتاب بھی، ایک ماہ بعد جیل سے رہائی ملی۔ ضمانت ہوئی لیڈروں سمیت مجھے بھی ملازمت سے نکال دیا گیا اور یوں ذوالفقار علی بھٹو، ایوب کابینہ سے نکل کر اپنی پارٹی بنانے کے لیے تیار ہوئے۔
اس وقت ہم بہت کچھ سیکھ اور سمجھ چکے تھے۔ چین نواز گروپ طالب علموں کا گروپ محنت کشوں کا گروپ، پی آئی اے کے طفیل عباس، ذکی عباس سمیت معراج محمد خان، حفیظ پیرزادہ، اظہر عباس اور ہم سب ریلوے والے بھی زین الدین لودھی، ڈاکٹر شمیم زین الدین، ڈاکٹر رشید خان ہزاروں بلکہ ملک بھر میں انقلابی دوست بھٹو صاحب کے ساتھ ہو لیے اور اس طرح 30 نومبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن خان کے گھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی گئی۔ چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو ہوگئے۔
منشور بھی ترقی پسندوں نے بنایا تھا خیر ایک بڑی تبدیلی آئی ہمارا مشرقی بازو علیحدہ ہوگیا۔ صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور سندھ اور پنجاب اور صوبہ سرحد کے پی کے اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام۔ خیر ملک چلتا رہا اور پھر سرحد اور بلوچستان کی حکومت ختم ہوگئی اور رہنماؤں کو جیل بھیج دیا گیا۔ باقی کی تاریخ عوام کو معلوم ہے۔ پی پی پی اور خاص کر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی 1974 میں یو ٹرن لے لیا۔ پارٹی بنانیوالے اہم رہنماؤں کو جیل بھیج دیا گیا۔کراچی اور لاہور میں مارشل لا کی طرز پرکرفیو لگا دیا اور ہم سب جیل بھیج دیے گئے۔
کراچی جیل، حیدرآباد، سکھر جیل، خیرپور جیل اور ڈی پی آر ڈیفنس پاکستان رولزکے تحت نظر بندی لیفٹ کا کام تمام ہوا اور پھر بھٹوکو آمر ضیا الحق نے عدالتی قتل کے بعد پھانسی پر لٹکا کرکام تمام کردیا اور ہم سب سمیت پوری قوم مایوسی کی طرف چلی گئی اور یہ کھیل آمروں کا جاری رہا ۔ میں نے جو سیاسی اور ٹریڈ یونینسٹ کا سفر 1967 سے جاری کیا تھا 53 سال ہوگئے اور عمر بھی 75 سال سے زائد ہونا شروع ہوگئی۔ جو روشنی میں نے دیکھی اب بھی خواہش ہے کہ میرے وطن میں محنت کش، عوام، سیاسی، دانشور، ادیب، صحافی اور بعض سوشل میڈیا والے اس ترقی اور روشن خیالی کے اس سفرکو جاری رکھیں۔ ہمارے ایک شاعر غلام محمد قاصر نے کہا تھا:
کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا
ہم ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
ہے شوق سفر ایسا اک عمر سے یاروں نے
منزل بھی نہیں پائی رشتہ بھی نہیں بدلا
سو ہم اسی روشن سفر پر جا رہے ہیں یہ ظالم اور مظلوم کا سفر صدیوں سے جاری ہے کئی ملکوں میں انقلاب آئے، جاگیرداری، غلام داری اور سرمایہ داری کا خاتمہ ہوا۔ یورپ میں انسانی حقوق اور سوشل حقوق سے تبدیلیاں آئیں، لیکن پسماندہ اورغریب ملکوں کا برا حال ہے۔