ڈوزئیر پرول اور خامہ گدائی

براہ کرم ’زباں فہمی‘ سے متعلق اپنی گراں قدرآراء محض نجی گفتگو، فیس بک اور واٹس ایپ حلقوں تک محدود نہ رکھیں۔


سہیل احمد صدیقی December 13, 2020
براہ کرم ’زباں فہمی‘ سے متعلق اپنی گراں قدرآراء محض نجی گفتگو، فیس بک اور واٹس ایپ حلقوں تک محدود نہ رکھیں۔ فوٹو: فائل

زباں فہمی نمبر 76

جب ہم کسی پر غیرضروری رعب ڈالنا چاہیں (یا جمانا چاہیں) تو اس کا بہترین طریقہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ فرنگی زبان کا بے دریغ استعمال کیا جائے، خواہ غلط ہو، ورنہ وہ ہمیں ''اردومیڈئیم بدتمیز'' اور جاہل سمجھے گا۔ یہی وہ خیال ہے جو ایک عرصے سے ہمارے تمام شعبوں کی روزمرہ گفتگو اور مراسلت پر حاوی نظر آتا ہے۔

ہمارے ٹی وی چینلز، محاورے میں تو ''خودرَو'' یا انگریزی کے حساب سے ''کھُمبی کی طرح نشونما ''[Mushroom growth] پارہے ہیں، (یہ نشوونما نہیں ہے) مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام نقارخانے الٹی سیدھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ مقام صد افسوس واستعجاب ہے کہ جو چینل کسی جعلی صحافی کو ایک کروڑ روپے معاوضہ دے سکتے ہیں، انھیں کسی اہل دانش کی خدمات حاصل کرنے کے لیے تہی دامنی کا ڈھنڈورا کیوں پیٹنا پڑتا ہے، چند لاکھ تو کُجا، ایسے لوگوںکو ہزاروں میں بھی مشاہرہ دیتے ہوئے جان جاتی ہے۔ لفظ 'ڈوزئیر'[Dossier] ان دنوں پھر سنائی دے رہا ہے۔

''ہم نے بھارت کی دہشت گردی کے ثبوت، ایک ڈوزئیر میں، اقوام متحدہ کو پیش کردیے ہیں۔'' خاکسار کو ایک مرتبہ پھر اسی کالم میں تصحیح کرنی پڑرہی ہے کہ اوّل تو اس لفظ میں آخری حرف Rساکن [Silent] ہے اور یہ ڈوسی اے۔یا اصل فرینچ تلفظ میں ''دوسی۔اے/دوزی ۔اے'' ہے، دُوَم یہ کہ اس کے اردو میں معانی موجود ہیں: دستاویز، دستاویزات کا مجموعہ، مسلِ کارکردگی۔ اب اتنی زحمت کون اُٹھائے، کون گوار اکرے، کون لغات دیکھے، کون کسی پڑھے لکھے سے پوچھے..........Gentlemen!..........جب ہمارے 'صاحب' کو معلوم نہیں تو آپ کو کیسے معلوم؟ بات ختم! (زباں فہمی نمبر چالیس، مطبوعہ پچیس نومبر سن دوہزار سولہ) دوسرا لفظ جو ہمارے ٹی وی چینلز بہت زیادہ رَٹ رہے ہیں.

وہ ہے Parole....۔ جیسے فُلاں فُلاں کو عدالت نے Parole پر رہا کردیا، فُلاں کی Parole تو اُس کا قانونی حق تھا، حکومت نے کوئی احسان نہیں کیا، فُلاں کی Parole کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ اوّل تو بے چاروں کی اکثریت اس کے صحیح تلفظ سے ناواقف ہے، بعض لوگ (خبر خواں یا خبر رَساں) پے رول [Payroll]کہتے ہیں (یعنی کسی ادارے میں تنخواہ دار۔یا۔تنخواہ یافتہ ملازمین کی فہرست)، کچھ پِیرول (پے کے نیچے زیر) کہہ کر ایک نیا لفظ بنادیتے ہیں اور پھر دوسرے یہ کہ وہ یہ فراموش کرچکے ہیں کہ اس کا اردو متبادل بہت آسان ہے: ''ضمانت۔'' یہ ضمانت شخصی اور قولی ہوتی ہے۔ ایک طرح کا وعدہ ہوتا ہے کیونکہ اصل لفظ فرینچ ہے اور اس کا تلفظ ہے: پاغول یعنی تقریر، قول یا وعدہ۔ انگریزی لفظ Bail بھی اردو میں ضمانت کہلاتا ہے، تفہیم کے لیے ہم 'مشروط ' کا اضافہ کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ معاملہ قانونی اصطلاح میں زیربحث ہے، ورنہ اردو لفظ ضمانت کے لیے انگریزی میں Surety اور Security مستعمل ہیں۔

قانونی معانی میں ضمانت کا ذکر چھڑا ہے تو لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتا چلوںکہ آن لائن تحقیق میں ابھی ابھی دیکھا کہ کسی نے مولانا حسرت موہانی (رحمۃ اللہ علیہ) کے ایک دردناک واقعے کا ذکر کس دردمندی سے کیا ہے۔ انھیں اپنی ضمانت کے لیے اپنی نادرکتب کا ذخیرہ، فقط ساٹھ روپے میں بیچنا پڑا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس دور میں ساٹھ روپے آج کے کئی سو کے برابر ہو ں گے۔

(https://www.urdunews.com/node/444391)۔

ابھی ابھی ایک شعر ضمانت کے موضوع پر دیکھا، منفرد لگا، سو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں: ایسی دفعہ نہ لگا جس میں ضمانت مل جائے/ میرے کردار کو چُن، اپنے نشانے کے لیے۔ شاعر ہیں شکیل جمالی (ہندوستان)۔ خواہ آپ کا تعلق کسی شعبہ زندگی سے ہو، ذرایع ابلاغ سے واسطہ لامحالہ پڑتا ہے۔آپ ٹی وی چینل، ریڈیو چینل /ایف ایم ریڈیواسٹیشن، اخبارات وجرائد، انٹرنیٹ، سینما، سرراہے آویزاں اشتہارات، حتیٰ کہ موبائل فون پر موصول ہونے والے پیغامات و اشتہارات سے قطعاًدور نہیں رہ سکتے۔ ان میں جو مخلوط، (اور اکثر ) اغلاط سے پُر زبان دیکھنے کو ملتی ہے، وہ آپ کی طبیعت مکدر کرنے کو ہمہ وقت کافی ہے۔

لکھنے اور بولنے میں فقط ایک زبان پر بھی قدرت نہ ہونا شاید ہماری اکثریت کا امتیاز ہے۔ حد تو یہ ہے کہ انگریزی اساتذہ کی تربیت کے لیے کسی بڑی درس گاہ میں بطور خاص مدعوکیے جانے پر، اظہارخیال کرنے والی شخصیات کا Minglish میں خطاب یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمیں تو ''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔''۔ بے شمار مثالیں ہمہ وقت، ہر جگہ دیکھنے کو ملتی ہیں اور یہ بھی دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ ''سب چلتا ہے''، ''ایک آپ ہی کو صحیح زبان آتی ہے''، ''بات سمجھ میں آگئی نا؟ پھر کس بات کی Tension؟''، ''یہ 21st Century ہے۔

اس میں آپ سو سال پرانی زبان کیسے بول سکتے ہیں؟''.....علیٰ ہٰذاالقیاس! ایسی تمام باتیں یہ ظاہر، بلکہ ثابت کرتی ہیں کہ ہم ناصرف ایک نیِم خواندہ، پس ماندہ اور کم تہذیب یافتہ معاشرہ ہیں، بلکہ معاف کیجئے گا اِن معنوں میں جاہل بھی ہیں کہ ہم سیکھنا چاہتے ہیں نا اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ فقط اردو کے شعوری وغیرشعوری ستیاناس کی بات کریں، انگریزی کے غیرضروری دخول کی بات کریں، علاقائی زبانوں کے بے جا استعمال کی بات کریں یا انگریزی کی ایک نئی بیہودہ شکل اختیار کرنے کی بات کریں.....ہم ہر لحاظ سے یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ ہم جیسے ہیں، ویسے ہی رہیں گے۔ باقی رہی یہ بات کہ آیندہ کتنے سالوں میں جادو کی چھڑی سے تعلیمی، تربیتی، لسانی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی انقلاب برپا ہوجائے گا تو اس بابت بھی ہم رٹے رٹائے جملے یا فقرے بول کر جان چھڑالیتے ہیں۔

یہ موضوع تو بھڑاس نکالنے اور بات سے بات نکالنے کے لیے بہت عمدہ ہے۔ چلیں کچھ اوروں کے لیے بھی چھوڑدیتے ہیں۔ سرِدست انگریزی کے اردو میں غلط استعمال کی ایک اور مثال دیکھیں۔ کرونا ہے یا نہیں، کیسا ہے، کہاں ہے، کہاں نہیں، کس کس کو چمٹ جاتا ہے، کھا جاتا ہے یا چکھ کر چھوڑ دیتا ہے، فُلاں مقام پر بالکل آزاد ہے، کسی کو کچھ نہیں کہتا اور فُلاں جگہ پر ہر ایک کو ڈس رہا ہے.....یہ مباحث اپنی جگہ ، فی الحال یہ دیکھیں کہ ایک اصطلاح یا ترکیب مسلسل غلط استعمال ہورہی ہے۔

یہ بات اپنے کالم میں دوبارہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ SOPs کا استعمال بمعنی احتیاطی تدابیر بالکل غلط ہے۔SOPsکس کا مخفف ہے؟ ہماری اکثریت اس سے ناواقف ہے۔کبھی لغات میں دیکھیں یا انٹرنیٹ ہی ملاحظہ کرلیں۔ SOPs: Standard operating procedures ۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اس کا مطلب فرنگیوں نے کیا لکھا ہے:

1.A standard operating procedure (SOP) is a set of step-by-step instructions compiled by an organization to help workers carry out routine operations. SOPs aim to achieve efficiency, quality output and uniformity of performance, while reducing miscommunication and failure to comply with industry regulations.

Standard operating procedure - Wikipedia

2.https://dictionary.cambridge.org/dictionary/

english/standard-operating-procedure

  1. For other uses of the term SOP/SOPs:


https://acronyms.thefreedictionary.com/SOP

https://www.allacronyms.com/SOPS

یہ ساری لفاظی فقط اس لیے کی گئی کہ ہمارے ''آدھا تیتر۔ آدھا بٹیر'' قسم کے بقراط یہ جان لیں کہ احتیاطی تدابیر کو SOPs کہنا بالکل غلط ہے۔ اگر بغیر سوچے سمجھے اور جانے یہ اصطلاح استعمال کرتے رہیں تو ہوسکتا ہے کہ ایک وقت آئے جب ''پاکستانی انگریزی'' کے باب میں یہ بھی درج کیا جائے کہ ویسے تو اصل تعریف وہی ہے جو اہل ِزبان(Native speakers) نے طے کی ہے اور اسے ان معنوں میں استعمال کرتے ہیں، مگر پاکستانی اس کا یہ مطلب لیتے ہیں، لہٰذا جب پاکستان جائیں تو خیال رکھیں۔

گزشتہ دنوں اپنے کالم میں ذکر کرنے کے بعد، خاکسار نے بعض فضلاء سے بھی اس بارے میں تائید طلب کی (آج کل بعض ٹی وی چینلز یہ کہتے ہیں: اس بارہ فُلاں نے یہ کہا، اس بارہ / بارے یہ ہوا وغیرہ۔ اسے کہتے ہیں ''بندرکے ہاتھ ناریل '' آجانا۔ اب آئیے اس بات پر کہ کیا کہنا درست ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قومی زبان اردو میں اس موقع پر ''احتیاطی تدابیر'' جیسی عام فہم ترکیب کا استعمال برمحل اور موزوں ہے، پھر بھی اگر آپ 'فادری' زبان میں بقراطی جھاڑکر، غریب (آپ کے نزدیک جاہل) عوام کو اپنی علمیت کا اسیر کرنا چاہتے ہیں تو انگریزی میں کہیے: Precautions/Preventive measures۔ اب اگر مفہوم نہیں معلوم یا کوئی ابہام ہے تو لغات دیکھ لیں۔

بات کی بات ہے کہ خاکسار کی تائید کرنے والوں میں اردو اور انگریزی کی ممتازادیبہ، محترمہ تنویررؤف صاحبہ (سابق سربراہ شعبہ انگریزی، ہمدرد پبلک اسکول) بھی شامل ہیں۔ اردو اور انگریزی کی غلط کھچڑی پکاکر بولنے والے بے شمار ایسی اغلاط کرتے ہیں جن پر الگ الگ مضمون لکھا جاسکتا ہے۔کل لاہور کے ایک مقامی ٹی وی چینل نے ایک خبر میں لفظ Stamped کا ترجمہ کیا، اسٹیمپ شدہ۔ بالکل اسی طرح جیسے بہت سے لوگ Registeredکا ترجمہ رجسٹرشدہ کرتے ہیں۔

اسی پر بس نہیں، ہمارے یہاں تو ''Senior ترین'' اور ''Junior ترین'' کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔ اگر واقعی کبھی اردو پوری طرح نافذالعمل ہوجائے تو ایسے لوگوں کی گرفتاری، ناقابل ضمانت قرار پائے جو قصداً اردو کو نظرانداز کرتے ہوئے کچی پکی انگریزی دانی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسے الفاظ، تراکیب، اصطلاحات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن کا استعمال بجائے خود غلط ہوتا ہے اور اکثر کا اردو متبادل بھی موجود ہے۔

پچھلے دنوں ایک واٹس ایپ حلقے میں کوئی بحث چھِڑی تو کسی صاحب کی غیرمنطقی گفتگو اس بارے میں تھی کہ لفظ Programmeکی جمع، اردو میں، پروگرامات لکھنا غلط نہیں۔ خاکسار نے کہا کہ پھر Hospital سے ہسپتالات (حالانکہ اردو میں اسپتال بنایا جاچکا ہے، مگر آج کل ہم ایسوں کے سواء کوئی استعمال نہیں کرتا)، School سے اسکولات، College سے کالجات اور University سے یونی ورسٹیات بھی بنالینا اور استعمال کرنا چاہیے۔

اردو کی جامعیت اور ہمہ جہتی استعمال کی صلاحیت کا ادراک ناصرف عوام الناس، بلکہ خواص کی بڑی تعداد کو بھی نہیں۔ آپ کو ایسے اہل قلم بھی مل جائیں گے جنھیں اردو شاعری یا نثر سے شہرت ملی، اسی کے طفیل جائز، ناجائز مفادات حاصل کیے، مناصب پر فائز ہوئے، دنیا بھر کی سیرسیاحت کی (وہ بھی دوسروں کے خرچ پر) اور نجی گفتگو میں، بلکہ بعض تو اردو کی ادبی محافل میں بلاضرورت انگریزی کی پیوندکاری کرتے ہیں یا پورا پورا بھاشن ہی انگریزی میں دیتے ہیں۔

ان میں شامل بعض بزرگ یہ سمجھتے ہیں کہ اردو ابھی کوئی نوزائیدہ ، ''پَیّاں پَیّاں '' (پاؤ ں پاؤں) چلنے والی ناقص زبان ہے جس میں ہر موقع محل کی گفتگو اور ہر موضوع پر اظہارخیال کی صلاحیت مفقود ہے۔ اللہ معاف کرے، خاکسار نے ایک مرحوم بزرگ کو دیکھا کہ اردو تحریک کے عَلَم بردار تھے اور مجھ سمیت نامعلوم کتنے ہی خوردمعاصرین کو اپنی انگریزی دانی سے مرعوب کرتے رہتے تھے، حالانکہ اُن کی فارسی پر دسترس اور عربی سے قدرے آشنائی نے اُن کی اردو زبان وبیان پر گرفت بہت مضبوط کردی تھی۔

ایسے مشاہیر جو کریں، اُن کے کورمقلد آمنّا صدقنا کہتے ہیں، البتہ ہم ایسے 'باغیوں' کو تکلیف ہوتی ہے، گو حَدِّادب مانع رہتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ پاتے کہ حضور! ہمیں ایسی مخلوط زبان ہی بولنی ہے اور 'فادری' زبان ہی برتنی ہے تو پھر 'نفاذ ِاردو' کا عَلَم کیوں اُٹھائے پھریں؟ یہاں اردو کے نامور ادیب، نقاد، شاعر اور انگریزی پر بھرپور قدرت کے حامل مترجم، ڈاکٹر وزیرآغا صاحب کی ایک تحریر سے اقتباس پیش کرتاہوں:''انگریزی کی عملداری ابھی تک جار ی ہے اور بعض اوقات اس عملداری کے باعث اردو کی عملداری کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں۔

مثلاً عام زندگی بالخصوص کاروباری زندگی میں انگریزی اور اردو کے الفاظ کا دنگل جاری ہے، حالانکہ اس دنگل کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی، بلکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس خاص میدان میں اردو کی بالادستی کا احساس دلایا جاتا۔ اس سلسلے میں ریڈیو، ٹیلی وژن اور دیگر ثقافتی ادارے معاشرتی رویوں کوایک بڑی حد تک تبدیل کر سکتے ہیں۔

اسی طرح عدالتوں، دفتروں، بنکوں اور دوسرے اداروں میں اردو زبان کومؤثر کردار ادا کرنے کی نہ صرف اجازت ملنی چاہیے بلکہ کوشش ہونی چاہیے کہ یہ زیادہ سے زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکے مثال کے طور پر اگر ملکی بنک ایک ضابطہ سا وضع کردیں کہ وہ غیرملکیوں کو چھوڑ کر باقی سب لوگوں کے صرف اردو دستخطوں ہی کو قبول کریں گے اور اسی طرح اوپر سے نیچے تک تمام سرکاری ملازمین کو یہ ہدایت کردی جائے کہ وہ اردو کے سوا اور کسی زبان میں دستخط نہیں کریں گے تو پورے ملک کی فضا میں ایک خوشگوار تبدیلی آ سکتی ہے کیونکہ جب دستخط اردو میں ہوں گے تو درخواستیں بھی اردو میں لکھی جائیں گی اور احکامات بھی اردو میں صادر کیے جائیں گے اور پوری کاروباری زندگی میں اردو کا نفوذ بڑھ جائے گا۔

ایسی صورت میں اس بات کی ضرورت پڑے گی کہ انگریزی زبان کے الفاظ اور اصطلاحات کے اردو تراجم کو عام کیا جائے۔ خوشی کی بات ہے کہ اس سلسلے میں پیش رفت ہو چکی ہے اور کئی ادارے اس ضمن میں کام کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک ترجمہ کرنے والے ان اداروں میں پوری ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکی۔ نتیجتاً ترجمے کے سلسلے میں مختلف رویّے سامنے آئے ہیں۔ یہ بات اردو زبان کے فروغ کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے''۔ (''اردواور انگریزی زبان کے استعمال کی جائز حدود'' از خامہ ڈاکٹر وزیرآغا۔ منقولہ بر سرکاری ویب سائٹ ادارہ فروغ قومی زبان)

[http://www.nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/

junejuly2013/jun,%20jul%20_1.html]

ڈاکٹر وزیرآغا سے میری بھی خط کتابت رہی، انھوں نے میری ہائیکو اپنے معتبر جریدے 'اوراق' میں شایع کیں اور اپنی شاعری کے انگریزی تراجم کی کتاب برائے استفادہ ارسال کی۔ میں نے اُن کی دیگر انگریزی منظومات کو سرسری دیکھا، مگر اُن کی اردو ہائیکو کا خود کیا ہوا منظوم انگریزی ترجمہ مجھے اتنا بھایا کہ بے اختیار تعریف کرنے پر مجبور ہوگیا۔ بعداَزاِیں راقم نے اپنے کثیر لسانی ادبی جریدے (یہ کثیراللسانی نہیں ہے) ہائیکو انٹرنیشنل [Haiku International] میں اُن کی انگریزی ہائیکو شایع بھی کیں۔

بات کی بات ہے کہ اُن سے نئی صدی اور مِلے نی اَم [Millennium]کے آغاز کے موضوع پر بھی بحث ہوئی تھی، بہرحال اس کا بالتفصیل ذکر پھر کبھی سہی۔ اس انگریزی اصطلاح کے ترجمے پر ہمارے تمام معاصرین نے اپنی اپنی علمیت کے مطابق اظہارخیال فرمایا۔ خاکسار نے فارسی کی مدد لیتے ہوئے اس کا ترجمہ ''ہزارہ'' درست قرار دیا، گو کہ اس کے ماقبل دیگر معانی موجود ہیں۔

معانی تو ''ہزاری'' کے بھی موجود ہیں جسے محترم جمیل الدین عالی (مرحوم) کی تجویز پر بعض حضرات نے اپنالیا تھا۔ خاکسار کے واٹس ایپ حلقے یا بزم بعنوان 'تحریک اصلاح صحافت' میں ایک رکن محترم ندیم ساحر نے ایک 'قلمی خاکہ'[Pen sketch] پیش کیا جس میں جدیدطرز کے قلم کو پیسہ لگاکر چلانے کی مذموم حرکت کا واضح اشارہ موجودتھا۔خاکسار نے اراکین کے استفسار پر اِس کا برمحل عنوان تجویز کیا: ''خامہ گدائی'' جسے ''خامۂ گدائی'' بھی کہا جاسکتا ہے۔ آپ کے ملاحظے کے لیے وہ خاکہ یہاں پیش کررہا ہوں۔

اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔ آخر میں ایک قاری سے ہونے والی ای میل گفتگو کا خلاصہ آپ کی نذر کرتا ہوں۔ اُن کا مؤقف تھا کہ اردو اور انگریزی دونوں نے مل کر ، پاکستان کی علاقائی زبانوں کے حقوق غصب کرلیے ہیں۔ جواب دیکھ کر اُنھوں نے فقط اس نکتے پر اصرار کیا کہ قومی زبان کا فروغ اپنی جگہ، مگر علاقائی زبانوں کو بھی فروغ دینا چاہیے۔

مجھے یہاں صرف یہ کہنا ہے کہ براہ کرم 'زباں فہمی' سے متعلق اپنی گراں قدرآراء محض نجی گفتگو، فیس بک اور واٹس ایپ حلقوں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ روزنامہ ایکسپریس کی ویب سائٹ پر رقم کرنے کی زحمت گوارا فرمائیں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ یہ کالم کتنا پڑھا جاتا ہے اور اس کا حلقہ اثر کہاں تک وسیع ہے یا ہورہا ہے۔ انتظار رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں