قائد اعظم اسلامی افکار کے آئینے میں
قائد اعظمؒ کی قرآن پاک سے محبت اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے بے شمار واقعات ان کی زندگی کا حصہ ہیں۔
QUETTA:
کچھ ہستیاں دنیائے آب وگل کے افق پر اس طرح جلوہ گر ہوتی ہیں کہ ان کی سیرت وکردار کی روشنی تا ابد جگمگاتی ہے ان کے عظیم کارنامے بے مثال بن جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ہرگوشہ ان کے قول وعمل سے منور ہوکر پوری دنیا کے لیے قابل رشک بن جاتا ہے، ایسے اعلیٰ حضرات کی زندگیاں اللہ اور سنت رسولؐ کی پیروی میں بسر ہوتی ہیں تب ہی انھیں دین ودنیا کی کامیابی خوش آمدیدکہتی ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا شمار بھی ایسی ہی مہان ہستیوں میں ہوتا ہے،قائد اعظم نے اپنی پوری زندگی فہم القرآن کی روشنی میں بسرکی اور اسی حوالے سے قوم کے لیے راہیں استوارکیں اور قوم کو بقا کا راستہ دکھانے کے لیے مردِ مجاہد کی طرح سرگرم عمل رہے۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ اخلاقی قدریں انسان کی کردار سازی کے لیے بہت اہم ہوتی ہیں، تاریخ میں ایسے لوگ کم ہی نظر آتے ہیں جو ایمانداری، حق گوئی اور ایثاروقربانی کے ساتھ سچائی کا مرقع ہوں، قائد اعظم کا شمار بھی انھی چیدہ چیدہ لوگوں میں ہوتا ہے، قائد اعظم کا ایسا ہی کردار انھیں عزت وبلندی پر فائزکرتا ہے۔
قائد اعظمؒ کی قرآن پاک سے محبت اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے بے شمار واقعات ان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ یہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اور جس سے ان کی اسلامی فکرکا پتا چلتا ہے، جن دنوں قائد اعظم ممدوٹ والا لاہور میں تشریف فرما تھے، رانا نصر اللہ خان ایک موقع پر ان سے محوگفتگو تھے، قائد اعظم نے فرمایا '' میں نے قرآن حکیم کا ترجمہ کئی بار پڑھا ہے، مجھے اس کی بعض سورتوں سے بڑی تقویت ملتی ہے۔''
رانا نصر اللہ نے سوال کیا ''مثلاً؟''
قائد اعظم نے فوراً جواب دیا '' وہ چھوٹی سی سورت ہے، جس میں ابابیلوں کا ذکر ہے۔''
نصر اللہ خان صاحب نے کہا ''کیا آپ کی مراد اس آیت سے ہے، جو یوں شروع ہوتی ہے:
الم ترکیف فعل ربک۔
قائد اعظم نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا۔ ''اللہ تعالیٰ نے جس طرح کفارکے بڑے لشکرکو ابابیلوں کے ذریعے شکست دی، اسی طرح ہم لوگوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کفارکی قوتوں کو شکست دے گا۔''
(سرحد) خیبر پختونخوا، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو 1945 میں جو پیغام دیا تھا وہ یہ تھا:''پاکستان کا مطلب صرف آزادی وحریت کا حصول نہیں ہے بلکہ اسلامی نظریہ کا تحفظ بھی ہے جس کو محفوظ رکھنا ضروری ہے، یہ قیمتی تحفے اور بیش بہا خزانے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔
اگست 1941 میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن میں طلبا کے سوال کے جواب میں کہا۔''اسلامی حکومت کے تصورکا یہ امتیاز ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اطاعت اور وفا کشی کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں، اسلام میں عملاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے اور نہ پارلیمان کی نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآن حکیم ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتا ہے، اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکامِ الٰہی کی حکمرانی کا نام ہے اور حکمرانی کے لیے آپ کو لامحالہ علاقے اور مملکت کی ضرورت ہوتی ہے۔''
قائد اعظم نے 22 مارچ 1940 کو اپنے خطاب مسلم لیگ لاہور میں فرمایا، اسلام کے قومی تصور اورہندو دھرم کے سماجی طور طریقوں کے باہمی اختلاف کو محض وہم و گمان بنانا، ہندوستان کی تاریخ کو جھٹلانا ہے، ایک ہزار سال سے ہندوؤں اور مسلمانوں کی تہذیب ایک دوسرے سے دوچار ہیں اور دونوں قومیں میل جول رکھتی چلی آرہی ہیں مگر ان کے اختلافات اسی شدت سے موجود ہیں، یہ توقع رکھنا کہ محض اس وجہ سے انقلاب آجائے گا، ہندو اور مسلمان ایک قوم واحد بن جائیں گے، سراسر غلطی ہے۔
8 مارچ 1944 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نظریہ پاکستان کا مقصد دو قومی نظریہ ہے، جس کی بنیاد یہ ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کا تشخص علیحدہ ہے دو قومی نظریہ کی حقیقت اس بات پر ختم نہیں ہو جاتی ہے کہ ہم نے پاکستان بنا لیا ہے، نہیں بلکہ حصول پاکستان اس نظریے کی طرف ہمارا پہلا قدم ہے، کیونکہ اگر اپنا ملک پاکستان بنانے کے بعد بھی ہم بعض رسومات میں ہندوؤں یا دیگر عجمی اثرات کے تابع ہوں، سیاست کرنے کے گُر مغرب کے شاطروں سے سیکھنے کو اہم سمجھیں، معیشت کے لیے کسی یہودی کے در پر درخواست گزار ہوں، تو ہمارا نظریہ تو اپنے بدترین انجام کو پہنے گا، وہ بھی ہماری ناعاقبت اندیشی کے باعث۔''
قائد اعظم نے فرمایا ''اخوت، مساوات اور رواداری ہمارے دین کے بنیادی نکات ہیں ہم نے پاکستان کے حصول کے لیے اسی لیے جنگ کی تھی کہ برصغیر میں ہمیں ان بنیادی انسانی حقوق سے محروم کردیے جانے کا خطرہ تھا۔''
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج مسلمان اپنے ہی وطن میں اپنوں کے ہاتھوں بنیادی حقوق سے محروم کردیے گئے ہیں اور قرآنی تعلیم کو بالائے طاق سجا دیا گیا ہے۔ دراصل مسلمانوں کے زوال کا یہی سبب ہے۔ قائد اعظمؒ کے اسلامی افکار اور دینی تعلیم کا ہی اثر تھا کہ انھوں نے انسانی حقوق کے تحفظ کا اعلان کرکے اپنے آپ کو ایک سچا مسلمان اور خلافت راشدہ کے حکمرانوں کی تقلید کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اقلیتوں کے بارے میں فرمایا کہ ''آپ آزاد ہیں، آپ عبادت کے لیے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور اپنی عبادت گاہوں میں مکمل آزادی کے ساتھ جاسکتے ہیں، ہم ایک ہی مملکت کے شہری اور برابرکے شہری ہیں۔''
11 اگست کے تین دن بعد پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس ہوا، اس موقع پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مغل شہنشاہ اکبرکی غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا بطور خاص ذکرکیا، قائد اعظم نے اپنی جوابی تقریر میں کہا کہ یہ کوئی خاص بات نہیں، تیرہ سو سال پہلے ہمارے رسول اکرمؐؐ نے یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ہمدردانہ رویہ اختیار کیا اور غیر مسلموں کو ان کے مساوی حقوق دیے۔ قائد اعظم نے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ مسلمانوں کی پوری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اس وقت کے حکمرانوں نے پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کے زریں اصولوں کی پیروی کی، جن کی ہم سب کو تقلید کرنی چاہیے۔