مالی حالت خراب ہونے پر متوسط طبقہ بھی پرانے گرم کپڑے خریدنے لگا

معاشی مسائل کے شکارغریب گھرانوں کیلیے سردی سے بچنے کاواحدسہاراپرانے گرم کپڑے رہ گئے،پرانے گرم کپڑوںسے سردی گزرجاتی ہے


عامر خان December 14, 2020
شدید سردی کی لہر آنے پر شہری گرم کپڑے خرید رہے ہیں

کورونا کے سبب معاشی صورتحال خراب ہونے، مہنگائی، بیروزگاری نے جہاں غریب عوام کی کمر توڑ دی وہاں سرد موسم سے بچنے کے لیے نئے گرم کپڑے خریدنا غریب گھرانوں کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔

معاشی مسائل کے شکار غریب گھرانوں کے لیے سردی سے بچنے کا واحد سہارا پرانے گرم کپڑوں کا استعمال ہے ان گرم کپڑوں کو پہن کر وہ سردیوں کے4 ماہ گزارتے ہیں، کراچی میں سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ استعمال شدہ گرم کپڑوں کی خریداری بڑھ گئی ہے اسی وجہ سے شہر کے مختلف مقامات پر استعمال شدہ گرم کپڑے ٹھیلوں اور اسٹالوں پر سجائے گئے ہیں۔

گزشتہ برس کے مقابلے میں گرم کپڑوں کی قیمت میں 30 سے 50 فیصد دیکھنے میں آیا ہے اس حوالے سے گرم کپڑے بیچنے والے محمد رضوان نے ایکسپریس کو بتایا کہ پوری دنیا اس وقت عالمی وبا کورونا کی لپیٹ میں ہے اس وبا سے جہاں جانی نقصان ہوا ہے وہاں معیشت بھی تباہی کا شکار ہوگئی ہے کورونا وبا کا شکار پاکستان بھی ہے ملک کا معاشی مرکز کراچی بھی کورونا کی لپیٹ میں ہے اس وقت عوام معاشی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل سے پریشان ہے سرد موسم کا آغاز ہوچکا ہے۔

متوسط اور غریب خاندانوں کے لیے سردی سے بچنے کے لیے نئے گرم کپڑے خریدنا بہت مشکل ہوگیا ہے اس لیے غریبوں کا واحد سہارا پرانے گرم کپڑے ہیں جو وہ آسانی سے خرید کر گزربسر کرلیتے ہیں، شہر کے کئی علاقوں میں پرانی جیکٹس،سوئٹر، اپر،گرم ٹی شرٹس، موزے،ٹوپیاں، دستانے، کپڑے والے جوتے، ٹراؤزر،جوتے،کن ٹوپ، مفلر، کوٹ، واسکٹ فروخت ہورہی ہے، یہ تمام اشیا مناسب قیمتوں میں فروخت ہورہی ہیں جو متوسط اور غریب گھرانے خریدرہے ہیں۔

پرانے گرم کپڑوں کی قیمت میں گزشتہ برس کی نسبت اضافہ ہوا ہے تاہم یہ نئے گرم کپڑے اور جوتے اب بھی بازار سے سستے ہیں انھو نے بتایا کہ گرم کپڑے فروخت کرنے والے تو ان کی قیمت زیادہ بتاتے ہیں لیکن مردوں کے بجائے خواتین بھاؤ تھاؤ کرکے کم قیمت میں یہ اشیا خریدتی ہیں اس وقت سردی سے محفوظ رہنے کے لیے یہ استعمال شدہ کپڑے اور جوتے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔

استعمال شدہ کپڑے صدر،کورنگی،لانڈھی لیاقت آباد،ناظم آباد،ملیر میں بکنے لگے
کراچی میں پہلے استعمال شدہ کپڑوں اور جوتوں کی خریداری کا مرکز لائٹ ہاؤس کا لنڈا بازار ہوتا تھا لیکن تجاوزات کے خلاف کارروائی میں لنڈا بازار کے بیشتر پتھارے ختم کردیے گئے ہیں اب استعمال شدہ کپڑے اور جوتے صدر،کورنگی ، لانڈھی ، لیاقت آباد، ناظم آباد، ملیر سمیت تمام علاقوں میں ٹھیلوں پر فروخت ہورہے ہیں۔

چھوٹے بچوں کے لیے نئے گرم سوٹ بھی بکنے لگے
کراچی کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بچوں کے لیے گرم سوٹ بھی فروخت ہورہے ہیں،یہ سوٹ نئے ہوتے ہیں جو نیوکراچی،کورنگی،اورنگی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں گھریلوں سطح پر تیار ہوتے ہیں۔یہ سوٹ 150روپے سے 300روپے تک دستیاب ہیں۔زیادہ تر افراد اپنے چھوٹے بچوں کے لیے یہ کپڑے خریدتے ہیں۔

اس کے علاوہ ٹھیلوں اور اسٹالز پر کم عمر بچوں اور بچیوں کے لیے کم قمیت پرانے اور نئے کپڑے بھی فروخت ہورہے ہیں۔زیادہ تر افراد اپنے بچوں کے لیے کم قیمت کپڑوں کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں، سردی سے محفوظ رہنے کے لیے نوجوانوں اور،مردوں میں پرانی جینز پینٹ اور فل گرم کپڑے کی ٹی شرٹس کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے۔یہ استعمال شدہ جینز اور ٹی شرٹس 100سے200روپے تک میں فروخت ہورہی ہیں۔اس حوالے سے مختلف علاقوں میں اسٹالز اور ٹھیلے لگائے گئے ہیں۔

کوروناسے بیروزگارہونیوالوں نے کپڑے اورجوتے بیچنا شروع کردیے
کورونا کی وجہ سے جو افراد بڑی تعداد میں بے روزگار ہوئے تھے،انھوں نے عارضی روزگار کے تحت شاہراہوں اور علاقوں میں پرانے کپڑے،جوتے اور دیگر اشیا فروخت کرنا شروع کردی ہیں اس طرح یہ افراد اپنے اہل خانہ کی کفالت کررہے ہیں۔

اونی موزوں، دستانوں اورٹوپیوں کی مانگ میں اضافہ
سرد موسم میں سر، ہاتھوں،پاؤں اور کانوں کو ڈھپنا لازمی ہے اس لیے مرد،خواتین،نوجوان،بچے اور بزرگ سردی کے موسم میں دستانے،موزے،کن ٹوپ،شال اور ٹوپیوں کا استعمال کررہے ہیں،اس وقت اونی موزوں،دستانوں اور ٹوپیوں کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے۔

یہ موزے ، دستانے،ٹوپیاں اور کن ٹوپ 50روپے سے 200 روپے کے درمیان فروخت ہورہی ہیں،اس وقت نقاب نما اونی ٹوپیاں بھی دستیاب ہیں جو سر،گرون اور چہرے کو سردی سے محفوظ رکھتی ہیں سرد موسم میں گرم کپڑوں کے ساتھ جوتے لازمی حصہ ہیں نئے جوتے غریبوں کی پہنچ سے باہر ہیں اس لیے شہریوں کی بڑی تعداد پرانے اور استعمال شدہ جوتے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں اس وقت جوگرز،چمڑے،گرم اونی،کپڑے ، ریگزین جوتے سمیت مختلف اقسام کی چپلیں فروخت ہورہی ہیں یہ استعمال شدہ جوتے اور چپلیں 100روپے سے 500 روپے تک فروخت ہورہی ہیں۔

جینز کی جیکٹس لڑکیوں کی پسندیدہ
سرد موسم سے بچنے کے لیے خواتین اور بچیاں بھی استعمال شدہ گرم کپڑوں کی خریداری کو ترجیح دے رہی ہیں، محمد رضوان کے مطابق خواتین اور بچیوں کے لیے بھی مختلف اقسام کی ہاف اور فل جیکٹس اور سویٹر 150سے 400 روپے تک فروخت کیے جارہے ہیں، زیادہ تر خواتین اور بچیاں جینز جیکٹس خریدنا پسند کرتی ہیں، خاتون شہناز خان نے بتایا کہ زیادہ تر خواتین اور بچیاں عبایہ اور چادر استعمال کرتی ہیں اس لیے وہ سرد موسم میں گرم شال کے ساتھ شنیل کوٹ،سویٹر اور مختلف اقسام کی جیکٹس یا اپر بھی پہنتی ہیں۔

نوجوان اورمردجیکٹ پہنناپسندکرتے ہیں
کراچی میں سردی سے محفوظ رہنے کے لیے مرد، نوجوان اور بچے استعمال شدہ جیکٹس خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، یہ سوتی،پیراشوٹ،اونی،جینز اور دیگر کپڑے سے تیار ہوتی ہیں چمڑے اور ریگزین سمیت نئی مختلف اقسام کی جیکٹس 1500سے 4000روپے سے زائد تک کی ہیں جبکہ کپڑے کی مختلف اقسام میں استعمال شدہ جیکٹس 100سے 400 روپے تک کی مل جاتی ہیں پرانے چمڑے اور ریگزین کی جیکٹس کی فروخت کمی آئی ہے زیادہ تر افراد ہلکی جیکٹس پہنتے ہیں۔

نوجوان اور بچے سرد موسم ٹریک سوٹ کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں اس ٹریک سوٹ میں سوتی گرم ٹراؤئزر،ٹی شرٹ،اونی اور سوتی گرم کپڑے کے اپر شامل ہوتے ہیں یہ اپر ٹوپی والے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں یہ اپر اور ٹرائوئزر 300سے 500روپے کے درمیان دستیاب ہیں، استعمال شدہ اپر اور ٹراؤئزر 200سے 300روپے کے درمیان فروخت ہورہے ہیں۔

کورونا وبا میں پرانے گرم کپڑے اور جوتے خریدنے والے محتاط ہوگئے
دفتر ی امور سے وابستہ افراد زیادہ تر پینٹ شرٹ کے ساتھ کوٹ کا استعمال کرتے ہیں عام طور پر نئے کوٹ کا استعمال طبقہ اشرافیہ کرتا ہے متوسط اور غریب گھرانوں سے وابستہ نوکری پیشہ افراد استعمال شدہ کوٹ خریدتے ہیں یہ کوٹ زیادہ تر موسم کی مناسبت سے فروخت ہوتے ہیں استعمال شدہ کوٹ 200 سے500 روپے کے درمیان مل جاتا ہے۔

کورونا وائرس کے سبب سرد موسم کے گرم کپڑے اور جوتوں سمیت دیگر اشیا خریدنے والے افراد محتاط ہوگئے ہیں خاتون شہناز خان کا کہنا ہے کہ ان کپڑوں اور جوتوں کو خرید نے کے بعد ان کو گرم ڈیٹول ملے پانی سے دھویا جاتا ہے جس کے بعد دو دن تک ان کو دھوپ لگائی جاتی ہے اس کے بعد ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔

استعمال شدہ کپڑے اور جوتے کئی ممالک سے آتے ہیں
کراچی میں استعمال شدہ گرم جیکٹس ، کوٹ،جیکٹس،کپڑے اور جوتے مختلف ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں اس کاروبار سے وابستہ ایک شخص نصیب اللہ نے بتایا کہ درآمد شدہ کپڑے، جوتے اور دیگر سامان حاجی کیمپ،شیر شاہ اور بلدیہ ٹائون کے بڑے گوداموں میں لایا جاتا ہے، بڑے تاجر ان اشیا کی لاٹ چھوٹے تاجروں کو کلو کے لحاظ سے فروخت کردیتے ہیں،چھوٹے تاجر ان کو خرید کر ان کپڑوں،جوتوں اور دیگر اشیا کو بنڈل اور پیکٹس میں اے، بی اور سی کے مطابق تیار کراتے ہیں، اے کیٹگری میں صاف اشیا شامل ہوتی ہیں جو کم استعمال شدہ ہوتی ہیں۔

بی کیٹگری میں درمیانی اور سی کیٹگری میں عام یعنی زیادہ استعمال شدہ کپڑے اور جوتے ہوتے ہیں اے اور بی کیٹگری کے کپڑوں اور جوتوں کو صاف کرایا جاتا ہے اگر ان کی مرمت کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ بھی کرائی جاتی ہے اے کیٹگری کے کپڑوں اور جوتوں کی لاٹ کابنڈل 20سے25ہزار کا ہوتا ہے۔بی کیٹگری کا بنڈل 10سے15ہزار اور سی کیٹگری کا بنڈل 4000روپے یا اس سے زائد کا ہوتا ہے۔زیادہ تر بی اور سی کیٹگری کا سامان چھوٹے دکاندار لے جاتے ہیں۔اس کام میں زیادہ تر پختون کمیونٹی کے افراد وابستہ ہیں۔اکثر چار ماہ کے لیے کے پی کے اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے روزگار کمانے کراچی آتے ہیں۔یہ سامان خرید کر مختلف علاقوں اورشاہراؤں پر فروخت کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں