کردار کی سیلفی

اپنی ظاہری شخصیت کو جاندار بناکر سیلفی لینے کے بجائے اپنے کردار کو مضبوط اور خوبصورت بناکر سیلفی لیجیے


حرا احمد December 14, 2023
سیلفی کے جنون میں مبتلا دیوانے اپنی جان پر کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج کل پوری دنیا میں سیلفی کا جنون وبا کی طرح پھیل چکا ہے اور اس وبا کے متاثرین ہر گھر، ہر گلی، ہر محلے بلکہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ سیلفی کا جنون متاثرین کے حواس پر اس قدر طاری رہتا ہے کہ وہ موقع دیکھتے ہیں اور نہ محل۔ کہیں مرنے والے کے ساتھ سیلفی لی جارہی ہوتی ہے تو کہیں گزرتی ریل گاڑی کے آگے سے۔ کہیں کسی خطرناک ٹاور پر بندر کی طرح چڑھ کر اپنا شوق پورا کیا جارہا ہوتا ہے تو کبھی بہتے ہوئے تیز دریا کے پاس جاکر اپنے فن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔


سیلفی کے جنون نے دیوانوں کو اس قدر بے سکون کر رکھا ہے کہ وہ جان پر کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ آج کل سیلفیوں کا رواج عام ہے اور مصروف دور میں بھی سیلفی ہر انسان کی اہم ضرورت بنتی جارہی ہے۔ ہر موبائل کیمرے والے نے خود کی تصویر اتارنا اپنے اوپر فرض کرلیا ہے۔ خود کو اپنی نظر سے دیکھنے اور دوسروں کو دکھانے کا شوق اور جنون ہی فن کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ہر کوئی کہیں جانے کےلیے تیار ہونے کے بعد سیلفی لینا اپنا حق سمجھتا ہے۔ اپنے ہاتھوں اور اپنے کیمرے سے اپنی تصاویر اتارنے کی سہولت نے لوگوں کو دیوانہ اور جھلا بنا رکھا ہے۔ وہ دن گئے جب لوگوں کو اپنی تصاویر اتروانے کےلیے ایک عدد کیمرہ مین کو برداشت کرنا پڑتا تھا لیکن اب اپنے کیمرے سے اتاری ہوئی اپنی تصاویر کو سیلفی یا سیلف پورٹریٹس بنانے کا فیشن عام ہے۔ لوگ خود سے اور اپنے ماحول سے والہانہ لگاؤ کا اظہار کرنے کےلیے سیلفی کا استعمال بے دریغ کرتے ہیں۔


خوشی تو خوشی، غمی کے موقع پر بھی سیلفی اتارنے اور پھر اس کا اسٹیٹس لگانا مقدس فریضہ بنتا جارہا ہے۔ سیلفی کا چکر اس قدر چل گیا ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بس کوئی مشہور شخصیت کے ہتھے چڑھنے کی دیرہوتی ہے، عاشقان سیلفی اس پر ندیدوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور پھر سیلفیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔


آپ نے فلموں میں دیکھا ہوگا اکثر شیشے کے سامنے کھڑے انسان کے اندر کا انسان آدھمکتا ہے اور اسے باقاعدہ ڈرانے دھمکانے لگ جاتا ہے، ابھی بھی وقت ہے کہ بندے کے پتر بن جاؤ۔ کبھی سوچا ہے کہ اگر اپنے ہاتھوں سے اتاری ہوئی اپنی تصاویر نے بھی انسانوں کے سامنے بولنا شروع کردیا تو کیا ہوگا؟ اپنی ہی تصویروں کی تشہیر کوئی احسن عمل نہیں ہے۔


کبھی اپنے اندر بھی خود کو دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ کبھی فارغ وقت میں اپنے کردار کی سیلفی کو دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ کبھی اپنے اندر کے انسان کو سیلفی سے باہر نکال کر اپنے کردار کو جانچنے کی بھی کوشش کیجیے۔ انسان کا کردار، اس کی شخصیت، اس کا دوسروں کے ساتھ برتاؤ اور اس کی تربیت اس کے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم میں سے بیشتر ایسے لوگ ہیں جو خود تو اپنے اندر جھانکنا پسند نہیں کرتے اور جو خامیاں خود ان میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں، دوسروں کو انھی باتوں کی تنبیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود زندگی میں بری طرح ناکام ہوتے ہیں بلکہ دوسروں پر بھی تنقیدی نگاہ رکھتے ہیں۔ آج ہماری تمام بھاگ دوڑ اور کوششیں صرف روپے پیسے سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں۔ ہم دوستیوں اور رشتے داریوں کی بنیاد بھی کسی نا کسی مفاد کی خاطر رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنے کردار کی مضبوطی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو بدصورت اور تلخ بنانے پر ہمیں افسوس تک نہیں ہوتا اور ہم اپنے اس بدترین سلوک پر بھی فخر سے اپنی زندگی گزارنے میں مصروف رہتے ہیں۔


کہتے ہیں انسان خود عظیم نہیں ہوتا، اس کا کردار اسے عظیم بنا دیتا ہے۔ انسان اپنے کردار کی مضبوطی کا اندازہ اچھائی یا برائی کو منتخب کرکے کرتا ہے۔ والدین کی اچھی تربیت کے بعد آپ کے اردگرد کا ماحول آپ کے کردار کو اچھا یا برا بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انسان اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے اور اس کا اپنے مقصد میں خلوص یا عدم خلوص اس کے پختہ کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا ہر فعل اس کے کردار کی غمازی کرتا ہے۔ اس لیے استقامت کو انسان کے کردار کی ایک بڑی خصوصیت کہا جاتا ہے۔


جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں


آپ کی اصل شخصیت ظاہری خوبصورتی کے بجائے آپ کے کردار میں چھپی ہوتی ہے۔ جتنا خوبصورت آپ کا کردار ہوگا آپ کی شخصیت اپنے آپ حسین تر ہوتی چلی جائے گی۔ اس لیے اپنی ظاہری شخصیت کو جاندار بناکر سیلفی لینے کے بجائے اپنے کردار کو مضبوط اور خوبصورت بناکر سیلفی لیجیے۔ تاکہ زندگی کے حقیقی رنگ آپ کے چہرے پر نظر آئیں اور آپ کی سیلفی کو چار چاند لگ جائیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں