جلسوں دھرنوں کی سیاست آخر کب تک

تمام تر مسائل، معالات، اختلافات اور قضیوں کو حل کرنے کا بہترین اور واحد پائیدار فورم پارلیمنٹ ہے


دھرنے اور لانگ مارچ کی سیاست کو ترک کرکے ہوش مندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

BIRMINGHAM: یہ ان دنوں کی بات ہے جب وطن عزیز میں پرویز مشرف کے زیر سایہ الیکشن ہونے جارہے تھے۔ راولپنڈی کے ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں علامہ طاہرالقادری نے چند معروف صحافیوں سے ملاقات کی۔ جس کے آخر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ملک کے تمام مسائل کا حل ہے۔ صحافیوں کے استفسار پر انھوں نے کہا کہ وہ حکومت میں آجائیں تو پھر بتائیں گے۔

اور پھر یوں ہوا کہ طاہرالقادری تو اقتدار میں نہ آسکے مگر ان کے سیاسی کزن عمران خان کو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی غلطیوں کی بدولت اقتدار نصیب ہوگیا۔ حکومت میں آنے سے قبل عمران خان کا بھی یہی خیال تھا کہ وطن عزیز کے تمام مسائل کا حل ان کے پاس ہے۔ ان کا بھی یہی خیال تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آگئے تو ملک میں 10 کروڑ روپے روزانہ ہونے والی کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جب لیڈر ایماندار ہوگا تو تمام لوگ ٹیکس دیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ کپتان ٹھیک ہونا چاہیے، باقی ٹیم خودبخود ٹھیک ہوجائے گی۔ اس لیے آپ نے جو ملا، جیسا ملا، بس الیکشن جیت سکتا ہو، اسے اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ایسی ٹیم ہے جو معیشت، سیاحت، بدعنوانی، غربت، انصاف کی جلد فراہمی، پولیس کے محکمے کی بہتری، ہاؤسنگ، زراعت ،لائیو اسٹاک اور دیگر شعبوں میں ایسے انقلابی اقدامات کرے گی جن سے اسلامی جمہوریہ پاکستان دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا۔ مگر پھر بقول شاعر:

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں


آج مریم نواز بھی پی ڈی ایم کے اسٹیج سے وہی دعوے کرتی نظر آرہی ہیں جو طاہرالقادری، عمران خان اور شاید اپوزیشن کا ہر سیاستدان کرتا ہے کہ ملک کے تمام مسائل کا حل اس کے پاس ہے۔ اگر مریم نواز کے پاس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسائل کا کوئی حل ہے تو براہِ کرم حکومت کے خلاف تحریک چلانے کےبجائے وہ حل موجودہ حکومت کو پیش کردیں۔ اگر پھر بھی عمران خان ناکام ہوگئے اور ملک کے مسائل جوں کے توں رہے تو پاکستان مسلم لیگ پوری طاقت کے ساتھ بیساکھیوں کے بغیر اقتدار میں آجائے گی۔ اور اس طرح ان کے والد کا یہ قول درست ثابت ہوجائے گا کہ اس حکومت کو خود گرنے دیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک معروف صحافی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں 2019 کے اختتام پر موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ ہوچکا تھا اور تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے تھے، مگر میاں نواز شریف نے یہ کہہ کر منصوبہ ناکام بنادیا کہ اس حکومت کو خود گرنے دیں۔

غور طلب امر یہ ہے کہ کیا لاہور جلسے کے بعد اپوزیشن کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوپائے گی؟ ن لیگ کے دعوے کے مطابق لیگی گڑھ ہونے کی بدولت لاہورکا جلسہ کامیاب رہا۔ آنے والے دنوں میں مولانا فضل الرحمٰن کے مدراس سے لائے گئے طلبا اور مسلم لیگ نواز کے پنجاب میں اثرورسوخ کی بدولت دھرنا اور لانگ مارچ (اگر ہوا تو) بھی کامیاب رہے گا۔ لیکن اس سے ملک کھوکھلا ہوجائے گا۔

یہ حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ وطن عزیز آج جس حال میں ہے اس کا ذمے دار عمران خان نہیں ہے۔ اگر ماضی میں آنے والی حکومتوں نے کرپشن سے ملک کی جڑیں کھوکھلی نہ کی ہوتیں تو عمران خان کی نااہلی اس ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی۔ اگر عمران خان ذمے دار ہوتا تو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو 2018 میں حکومت کی تشکیل کے وقت یہ نہ کہنا پڑتا کہ اگر عمران کو مزہ چکھانا ہے تو اسے حکومت کرنے دیں اور دوسری جماعت کے ذمے داروں کو یہ پریشانی لاحق نہ ہوتی کہ اگر ہم حکومت میں آگئے تو ہم کیسے حکومت کریں گے۔ بدقسمتی سے ماضی میں ہر ایک نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ عمران خان کا قصور صرف اتنا ہے کہ اس کی ٹیم کے اکثر کھلاڑی توقع کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا پارہے۔ اور وہ ان کے محکمے بدلنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دھرنے اور لانگ مارچ کی سیاست کو ترک کرکے عقل مندی، ہوش مندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں ہر جماعت کے قابل ترین اور ایماندار لوگوں پر مشتمل ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے، جو ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف ملک کےلیے کام کرے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔ وگرنہ آج یہ لوگ دھرنا دے کر عوام کی زندگی کو عذاب میں ڈالیں گے، تو کل کو عمران خان اسلام آباد کی جانب مارچ کررہے ہوں گے۔ آج عمران خان کے خلاف اتحاد بن رہے ہیں تو کل کو معمولی وقفے سے عمران خان اتحاد بنارہے ہوں گے۔

آخر میں حکومت اور اپوزیشن دونوں سے عاجزانہ التماس ہے کہ تمام تر مسائل، معالات، اختلافات اور قضیوں کو حل کرنے کا بہترین اور واحد پائیدار فورم پارلیمنٹ ہے۔ حکومت کو چاہیے پارلیمنٹ اور اراکین پارلیمنٹ دونوں کو عزت دے اور اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ استعفوں کی ضد چھوڑ کر حکومت سے سنجیدہ مذاکرت کرے۔ نہ کہ جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے کورونا کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں