گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ۔۔۔۔ کہاں اور کیسے

ریاست کے تینوں اہم اداروں مقننّہ،عدلیہ اور مسلح افواج کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی کا فقدان آخری حدوں کو چھو رہا ہے


[email protected]

لاہور: ریاست کے تینوں اہم ترین اداروں، مقننّہ، عدلیہ اور مسلح افواج ( سول انتظامیہ اپنے کمزورکردار کے باعث اپنا وجود کھو چکی ہے) کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی کا فقدان آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ عوام ناقابلِ برداشت مہنگائی کے عذاب میں گرفتار ہیں، قومی ادارے آپس میں برسرِ پیکار ہیں اور مقتدر اداروں کے اہم ترین افراد ہدف ِ یلغار ہیں۔

اڑھائی سال کے عرصے میں موجودہ حکومت نے معیشت اور بیوروکریسی دونوں کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ افغانستان جیسے لُٹے پٹے ملک کی شرحِ نمو (جی ڈی پی گروتھ) 2.5% ہے۔ جب کہ پاکستان کی شرحِ نمو0.50% تک گر چکی ہے۔ مہنگائی یا افراطِ زرکی شرح افغانستان میں 3.6%، بھارت میں 3.5% اور پاکستان میں 12%تک جا پہنچی ہے۔

موجودہ حکمران پولیس اور انتظامیہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے جس بُری طرح استعمال کر ر ہے ہیں، اس طرح کی بدترین سیاسی مداخلت پہلے کبھی نہیں تھی۔ عمران خان صاحب کسی بھی شعبے میں نہ بہتری لا سکے ہیں ، نہ اس کی تنزلی روک سکے ہیں ۔ وزیر اعظم کو شاید احساس نہیں کہ جمہوریت کی گاڑی دو پہیوں ( حکومت اور اپوزیشن) پر چلتی ہے۔ ایک پہیے پر چلانے کی کوشش ریاست کو کسی بڑے سانحے سے دوچار کر سکتی ہے۔

13 دسمبر کو اہلِ لاہور کے بارے میں محمود اچکزئی کی باتیں بے محل اور نامناسب تھیں۔ حضور! آپ کے والد نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ آپ نے آئینِ پاکستان کو تسلیم کیا تو مسلم لیگ نے آپ کو گلے لگا لیا اور آپ کو گورنری اور وزارتیں بھی دے دیں۔ تاریخ کو مسخ کرنا چھوڑ دیں۔ جواب دیا گیا تو آپ کو شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔

مگر یہ ماننا پڑے گا کہ ملک کے سیاسی مرکز لاہور کو مریم نواز نے جگا دیا ہے اور وہ اس کی آواز پر ''جان چھوڑو'' کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ پرسوں یخ بستہ سردی میں جان لیوا کورونا کے خوف کے باوجود لوگوں کی بہت بڑی تعداد مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے پانچ چھ گھنٹے تک کھلے آسماں تلے کھڑی رہی۔ عوام کی بے چینی سے پورے ملک کی فضاء طلاطم خیز ہے۔ اپوزیشن لانگ مارچ کی کال دے رہی ہے، لہٰذا اب بھی بڑوں نے سر نہ جوڑے تو آیندہ پیدا ہونے والی انارکی سے ہماری بقاء خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

مگر بنیادی سوال جو تمام دانشور اور تجزیہ کار پوچھتے پھرتے ہیں وہی ہے کہ گرینڈ ڈائیلاگ کا میزبان کون ہو، اس کے شرکاء کون کون ہوں، کہاں منعقد ہو، اور اس کا ایجنڈا کیا ہو؟

کافی غور و خوض کے بعد میں اسے نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس میں چار فریق یعنی اپوزیشن، حکومت، مسلح افواج اورعدلیہ شریک ہوں۔ عدلیہ کی طرف سے سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین جج اور چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان شریک ہوں۔ مقننّہ یا اہلِ سیاست کی نمایندگی حکومت اور اپوزیشن کرے۔ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوںکی جانب سے وزیر اعظم اور ان کے آٹھ ساتھی شریک ہوں۔ اور اپوزیشن کی جانب سے پی ڈی ایم کی تین بڑی پارٹیوں کے دو دو نمایندے اور چھوٹی پارٹیوںکا ایک ایک نمایندہ اور ان کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر شریک ہوں۔ آرمی چیف، تمام کور کمانڈرز اور فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان مسلح افواج کی نمایندگی کریں۔

اس سطح کے افراد کو کون مدعو کرے اور کہاں بلایا جائے! اس کے لیے نہ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کا فورم مناسب ہے اور نہ ہی سینیٹ آف پاکستان۔ یہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ایوانِ صدر میں منعقد ہونا چاہیے اور اس کے دعوت نامے بھی صدرِ مملکت کی طرف سے جاری کیے جائیں۔ اس کی صدارت صدرِ پاکستان ہی کریں مگر ان کا رول صرف moderator کا ہو۔ یہ بات پہلے سے طے ہو کہ اس عظیم جرگے کے شرکاء کو چاہے دو دن یاتین دن بیٹھنا پڑے یہ اُس وقت تک ہرگز نہیں اٹھیں گے جب تک بنیادی اور متنازعہ اِشوز پر اتفاق رائے نہ ہو جائے۔

مکالمے کے اہداف اور مقاصد صرف الیکشن میں دھاندلی کے الزامات تک محدود نہ ہوں بلکہ اس سے کہیں زیادہ وسیع، جلیل اور ارفعٰ ہوں۔

یہ قومی مکالمہ اتنا بامقصد ہو کہ اس کے نتیجے میں؛

1۔ ملک چلانے کے لیے بہترین نظام وضع ہو سکے۔2۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے راستے میں بڑی بڑی رکاوٹیں اور irritates دور ہو جائیں۔3۔ اداروں کے درمیان باہمی اعتماد اور ہم آہنگی پیدا ہو اور ان کے تعلقاتِ کا ر بہتر ہو جائیں۔

ان اہداف کے حصول کے لیے آئین میں ترمیم و اضافے کی ضرورت ہو تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔

چاروں فریق اجلاس سے دو روز قبل اپنی معروضات، تحفظات، شکایات، یا مطالبات تحریری طور پر پریذیڈنٹ کے پرنسپل سیکریٹری کو پہنچا دیں، جو تمام شرکاء تک پہنچا دیے جائیں۔

ایجنڈا کیا ہو گا اور کن اشوز پر بحث ہو گی؟ سب سے پہلے یقینا اپوزیشن (جسے سب سے زیادہ تحفظات اور شکایات ہیں) سے ہی اپنی معروضات پیش کرنے کے لیے کہا جائیگا ۔ جس پر متحدہ اپوزیشن کے سربراہ اور ملک کے سب سے بڑے مدبر رہنما مولانا فضل الرّحمٰن بتائینگے کہ کس طر ح کس کس نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا۔ کس طرح ان کے خیال میں سیاستدانوں کو بدنام اور کمزور کیا جاتا ہے، کس طرح احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور کس طرح انھیں انصاف ملنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

وہی بتائیں گے کہ اس صورتِ حال کا تدارک کیسے ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں وہ موجودہ چیئرمین نیب کو ہٹا کر کسی غیر جانبدار چیئرمین کی تقرری اور نیب کا دائرہ بڑھانے کا مطالبہ بھی کریں گے۔ اس ضمن میں میرا اپوزیشن کو اور خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے قائد کے لیے یہ مشورہ ہو گا کہ وہ اَپنی تنقید کاحدف فوج کے سربراہ کو نہ بنائیں۔ چونکہ انھوں نے خود چند ماہ پہلے اُنکی ایکسٹینشن کی غیر مشروط حمایت کی تھی اس لیے اخلاقی طور پر بھی انکا کیس مضبوط نہیں بنتا۔ ویسے بھی اپوزیشن اگرموجودہ سیاسی بحران کا حل چاہتی ہے تو وہ آرمی چیف کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ بلکہ گرینڈ ڈائیلاگ کے لیے بھی ان کی مدد ضروری ہے۔

یہ بات جائز ہے کہ اپوزیشن دوسرے افراد کے خلاف مضبوط شہادتوں کے ساتھ کیس پیش کرے اور آرمی چیف سے کارروائی کا مطالبہ کرے۔ اپوزیشن میڈیا اور عدلیہ پر دباؤ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی کے خاتمے کا بھی مطالبہ بھی کر سکتی ہے۔ (سیاسی جلسوں میں انھیں تقریر کا موضوع بنانا مناسب نہیں ہے) اپوزیشن نئے انتخابات کی تاریخ اور ان کی شفافیّت کی گارنٹی بھی مانگے گی۔ میرے خیال میں غیر آئینی مداخلت روکنے کے لیے ایک آئینی عدالت کا قیام ضروری ہے۔ جو اس نوعیت کی شکایات سنے اور اس کے پاس ہر شخص کو طلب کرنے، انکوائری کرنے اور سزا دینے کے وسیع اختیارات ہوں۔ حکومتی نمایندے اپنا یہ الزام دہرائیں گے کہ اپوزیشن اپنے کیس ختم کرانا چاہتی ہے۔ نہ نیب ختم ہو اور نہ کیس، مگر درجِ ذیل فیصلے ضرور ہونے چاہیں۔

1۔ جن کیسوں میں صاف نظر آتا ہے(ارشد ملک والے کیس کی طرح) کہ دباؤ ڈال کر فیصلے کروائے گئے ہیں، انکا ری ٹرائیل ہونا چاہیے۔2۔ احتساب کی شفافیّت کے لیے ضروری ہے کہ نیب ، ایف آئی اے، ایف بی آر اور صوبائی اینٹی کرپشن کے محکمے حکومتی کنٹرول سے باہر کر دیے جائیں اور ان کے سربراہوں کی تقرری ایک سرچ کمیٹی کے ذریعے کی جائے۔

احتساب کا خاتمہ ہرگز نہیں ہوناچاہیے۔ مگر اس کا طریقہ کار شفاف اور غیر جانبدار ہونا چاہیے۔3۔ ریٹائرڈ ججوں، سینئر وکلاء اور منتخب نمایندوں پر مشتمل کمیشن بنا دیا جائے جو تین مہینوں میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کا شفاف طریقہء کار وضع کرے اور مروّجہ گلے سڑے کریمنل جسٹس سسٹم کے بجائے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تفتیش، پر اسیکیوشن اور ٹرائیل کا جدید نظام تشکیل دے، جسے پارلیمنٹ سے منظور کرا کے یکم جولائی2020 تک نافذ کر دیا جائے۔ 4۔ اسمبلیوں کی معیاد پانچ سال کے بجائے چار سال کر دی جائے۔

گمانِ غالب ہے کہ اپوزیشن بار بار آئین کی پاسداری اور جمہور یت کے تحفظ کی بات کریگی، جس پر اجلاس میں موجود عدالتی اور عسکری قائدین اہلِ سیاست کو یہ باور کرائیں گے کہ جمہوریت سے مراد صرف انتخابات کا انعقاد نہیں ہے اور یہ کہ آئین میں آرٹیکل 6 کے علاوہ بھی بے شمار آرٹیکل ہیں، جن پر حکومت عملدرآمد کی پابند ہے مگر وہ اس کی صریحاً خلاف ورزی کرتی ہے۔ مثلاً بلدیاتی انتخابات نہ کر اکے مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی تینوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔

اجلاس میں یہ بات طے ہو جائے کہ اگر آئین کی روح کے مطابق کوئی مرکزی یا صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرا کے انھیں اختیار ات منتقل نہ کرے تو اسے بھی آئین توڑنے کے مترادف قرار دیا جائیگا ۔ گراس روٹ لیول پر عوام کی شرکت کو بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

اہلِ سیاست کو یہ تلخ حقیقت ماننا پڑیگی کہ اِسوقت جمہوریت کے ''ثمرات'' سے چند خاندان ہی فَیضیاب ہو رہے ہیں، انھیںعوام تک منتقل کرنے کے لیے سیاست میں دیانت اور پاکیزگی کا عنصر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسوقت ہر پارٹی کی قیادت مالداری اور تابعداری کو دیانتداری پر ترجیح دیتی ہے۔ جس روز قیادت کے قُرب کا معیار وفاداری کے بجائے دیانتداری قرار پایا اور پارٹی ٹکٹ باکردار شخص کو ملنے لگا، وہی دن 'ووٹ کی عزت' اور ' جمہور کی فتح ' کا دن ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں