مذاکرات کے لیے سازگار ماحول
حزب اختلاف کو یہ خدشہ ہے کہ تحریک انصاف اکثریت کی بناء پر صدارتی نظام نافذ کرے گی۔
دسمبرکا مہینہ سیاسی ہنگاموں کا مہینہ ہے۔ اسی مہینہ 16 دسمبر 1971 کو پاکستان دولخت ہوا تھا اور بنگلہ دیش دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔ 1971میں بھی بنیادی مسئلہ پارلیمنٹ کی تمام ریاستی ستونوں پر بالادستی کا تھا اوراب بھی یہی سوال ہے مگر1971 میں ملک بے آئین تھا، آج 1973کا آئین نافذ ہے مگر ڈیپ اسٹیٹ سب پر بھاری ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے لاہور میں بڑا جلسہ کیا۔ بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز اورمولانا فضل الرحمن نے اس جلسہ میں اعلان کیا کہ اب فروری کے اوائل میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہوگا۔ اس مارچ کے اکابرین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے استعفے ساتھ لے کر جائیں گے، یوں ایک آئینی بحران پیدا ہوگا اورحکومت کو جانا ہوگا۔ پی ڈی ایم نے اعلانِ لاہور جاری کیا جس میں سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کی ہر طرح کی مداخلت کے خاتمہ اورآئین کی اسلامی شقوں اور 18ویں ترمیم کے تحفظ کا اعادہ کیا گیا۔
یہ خبریں شایع ہوئیں کہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹوکی برسی میں شرکت کے لیے گڑھی خدابخش جائیں گی، یوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان مفاہمت کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے اتوارکے دن انسٹاگرام پر پی ڈی ایم کے جلسہ کا جواب دیا۔ وفاقی صوبائی وزراء نے ٹی وی چینلزکی اسکرین پر اس جلسہ کے آغاز سے پہلے یہ بیانیہ بیان کرنا شروع کیا کہ اقبال پارک کا جلسہ ناکام ہوگیا، عوام اس جلسہ میں نہیں ہیں۔
حکومت کی حمایت پرکمربستہ ایک ممبر نے تو اپنے اسٹوڈیو میں بیٹھ کریہ تحریرکیا کہ جلسہ میں پیش کی جانے والی قراردادوں پر حاضرین نے کسی قسم کی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا، یوں حکومتی حلقوں نے ثابت کیا کہ کوئی سیاسی تبدیلی متوقع نہیں ہے، مگر حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرنے والے صاحبان دانش اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت مخدوش صورتحال میں ہے۔
اس صدی کے آغاز پر جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی ، اگرچہ انھوں نے اکتوبر 1999 میں آئینی اختیارکے بغیر اقتدار حاصل کیا تھا، مگر 1973 کے آئین کی بحالی کی بناء پر وہ 2002 میں عام انتخابات کرانے پر مجبور ہوئے مگر پرویز مشرف کی حامی جماعت مسلم لیگ ق قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہ کرسکی تھی، یوں جنرل مشرف کو نہ نظر آنے والی قوتوں کی مدد لینی پڑی اور پیپلز پارٹی میں سے چند اراکین اسمبلی کو ملا کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر ظفر اﷲ خان جمالی انتہائی معمولی اکثریت سے وزیر اعظم بن گئے۔
جنرل مشرف نے مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل سے سمجھوتہ کیا۔ خیبرپختون خوا میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی۔ میر ظفر اﷲ جمالی جنرل مشرف کی خواہشات پر پورے نہ اترے اور ایک ٹیکنوکریٹ شوکت عزیز وزیر اعظم بن گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے اس وضح کردہ نظام میں پارلیمنٹ کی بالادستی نہیں تھی اور وہ خود اقتدار کا منبع تھے۔ اس وقت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان قومی اسمبلی کے رکن تھے اور متحدہ حزب اختلاف میں فعال تھے، مگر ڈیپ اسٹیٹ کے اندرونی تضادات کی بناء پر ملک میں غیر معمولی واقعات رونما ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کر دیا۔ وکلاء برادری نے ایک تاریخی تحریک چلائی، چیف جسٹس افتخار چوہدری اپنے عہدہ پر بحال ہوئے۔
جنرل پرویز مشرف دوسری دفعہ صدارتی امیدوار بن گئے۔ ان کی نااہلی کا مسئلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا۔ اگرچہ صدر پرویز مشرف نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے معاہدہ کیا تھا، یوں N.R.O کا اجراء ہوا۔ اس قانون کے تحت بے نظیر بھٹو اورآصف زرداری سمیت کئی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے مقدمات واپس ہوئے مگر سب سے زیادہ فوجداری مقدمات ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور کارکنوںکے خلاف تھے۔ وہ سب اس قانون کی بناء پر باعزت بری ہوئے۔
بے نظیر بھٹو پاکستان آگئیں۔ انھوں نے فقید المثال جلسے کیے، میاں نواز شریف بھی سعودی عرب سے ملک واپس آئے۔ 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹوکو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا۔ نئے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ میثاق جمہوریت کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے وفاق اور پنجاب میں مخلوط حکومتیں بنائیں اور پارلیمنٹ نے پرویز مشرف کے مواخذے کا فیصلہ کیا، صدر مشرف مستعفی ہوئے۔ آصف زرداری صدر بن گئے۔
جنرل پرویزکیانی فوج کے سربراہ بن گئے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے مسئلہ پر ٹوٹ گیا اور میاں نواز شریف نے ڈیپ اسٹیٹ کی خواہشات پر آصف زرداری کے خلاف مورچہ سنبھالا مگر آصف زرداری اور میاں نواز شریف میثاق جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے آئین میں 18ویں ترمیم پر متفق ہوئے، یوں ایک طرف صوبائی خود مختاری کا مسئلہ طے ہوا اور اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی۔
وفاقیت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مارچ 1971 میں پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کے درمیان 18ویں ترمیم جیسا معاہدہ ہوجاتا اور جنرل یحییٰ خان اس معاہدہ کی حمایت کرتے تو مشرقی پاکستان آج دنیا کے نقشہ پر موجود ہوتا۔ یوں پارلیمنٹ کی تمام ریاستی ستونوں پر بالادستی کے دورکا آغازہوا، مگر پیپلز پارٹی کی حکومت اچھی طرز حکومت Good Governance کی اہمیت کو محسوس نہ کرسکی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نےJudicial Activismکی نئی تعبیرکی اور توہین عدالت کے الزام میں منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سزا دیدی۔
2013کے انتخابات میں میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ انھوں نے وہی خارجہ پالیسی اختیارکی جوجنرل پرویز مشرف نے نافذکی تھی مگر اب ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسی تبدیل ہوگئی تھی۔ تحریک انصاف 2008 کے بعد مقبول ہونا شروع ہوئی۔ تحریک انصاف میں مسلم لیگ ق کے رہنماؤں سمیت دیگر جماعتوں کے رہنما شامل ہوگئے۔
مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے الزام لگایا کہ ایک انتہائی با اثر صاحب ان کے رہنماؤں کو تحریک انصاف کی طرف لا رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلیوں اور کرپشن کو اپنا بنیادی ایجنڈا بنایا۔ 2018کے انتخابات سے قبل پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے بہت سے رہنما تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ ان میں پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی شامل تھے۔ مسلم لیگ ن کے ملتان سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی کو نامعلوم افراد اغواء کرکے لے گئے تھے۔ اپنی بازیابی کے بعد انھوں نے بتایا کہ اغواء کار کون تھے، یوں انتخابات والے دن R.T.S کا نظام معطل ہوا۔
بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیا۔ صدر، وزیر اعظم اور وزراء نے مسلسل کہنا شروع کیا کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں اور اس وقت ایک آئیڈیل صورتحال ہے مگر ملک میں اچھی طرز حکومت قائم نہ ہوسکی۔ اہم قومی معاملات میں حکومت کا کردار ثانوی محسوس ہوا۔ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی بناء پر معاشی بحران شدید ہوا۔ حکومت پر تنقید کرنے والوں کو نیب مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اب سینیٹ کے انتخابات قریب ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق حزب اختلاف کے 65 فیصد اراکین کی مدت ختم ہوجائے گی اور تحریک انصاف کو سینیٹ میں واضح اکثریت حاصل ہوگی۔
حزب اختلاف کو یہ خدشہ ہے کہ تحریک انصاف اکثریت کی بناء پر صدارتی نظام نافذ کرے گی، 18ویں ترمیم کو ختم کرکے ون یونٹ جیسا نظام قائم کیا جائے گا۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ 2023 کے انتخابات کے نتائج پولیٹیکل انجنیئرنگ کا شکار ہونگے اور حکومت سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنائے گی۔ حزب اختلاف کے ان خدشات میں حقیقت ہے مگر حزب اختلا ف موجودہ حکومت سے بات چیت کرنے کو تیار نہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ حزب اختلاف 1993 جیسی صورتحال کو دھرانا چاہتی ہے مگر اس حکمت عملی کی کامیابی سے پارلیمنٹ کی بالادستی کا معاملہ حل نہیں ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان اب مذاکرات کی بات کرنے لگے ہیں مگر پیشگی شرائط عائد کررہے ہیں۔ بعض صحافی اس خدشہ کا اظہار کررہے ہیں کہ طالع آزما قوتیں جمہوری نظام پلٹ نہ دیں، یوں ملک پھر 1958، 1969، 1977 اور 1999 جیسی صورتحال کا شکار ہوگا جو بہت تباہ کن ہوگی۔ وزیر اعظم عمران خان کو مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیے تاکہ 1971 جیسی صورتحال پھر نہ پیدا ہو۔