کامیاب زندگی کے دو نمونے
پیسہ کمانا ان کا مشن ہوتا تو وکالت کے ہو کر رہ جاتے مگر ان کی زندگی کا شاندار حصہ سوشل ویلفیئرکی خدمات ہیں۔
ایک کامیاب زندگی کیا ہے؟ با مقصد زندگی کے نمایاں خدوخال کیا ہو سکتے ہیں؟ کیا ہر ایک شخص کامیاب اور با مقصد زندگی گزار سکتا ہے؟ یہ اور اس سے ملتے جلتے سوالات حساس ذہنوں میں ہمیشہ سے کلبلاتے رہے ہیں۔ فی زمانہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں پروفیشنل ٹریننگ کی یوں تو بے تحاشا جہتیں ہیں لیکن ایک نمایاں ترین جہت لائف کوچنگ ہے۔
لائف کوچنگ میں ان اصولوں اور انسانی رویوں کو موضوع بنایا جاتا ہے جن کی مدد سے انسان اپنے اندر ایسی مثبت تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ دنیا اور پاکستان میں اس فیلڈ میں چند سال کے دوران کافی کام ہوا ہے۔کامیاب زندگی کیا ہے اور اس کامیابی کے گُر کیا ہیں؟ یہ جاننے کا ایک آسان حل یہ ہے کہ اپنے آس پاس کامیاب لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے۔ اس ہفتے ہمارے آس پاس موجود ایسی دو شخصیات اپنی اپنی بھرپور زندگی گزار کر راہی عدم ہوئیں۔
جسٹس (ر) عامر رضا خان پاکستان کے قانونی، علمی اور سوشل ویلفیئر حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت تھے ۔ بیاسی سال کی ایک بھرپور اور با مقصد زندگی گزار کر اس ہفتے راہی عدم ہوئے۔ عامر رضا خان ایک پہلودار شخصیت کے مالک تھے۔
ان سے چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ کے ساتھی ٹرسٹی ہونے کا بیس سالہ تعلق رہا۔ انھیں ہمیشہ وقت کا پابند پایا، بلکہ وقت کی ترتیب پر مصر بھی۔ چند ایک بار میٹنگز میں تاخیر ہوئی یا طوالت ہوئی تو انھوں نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا ۔ ان کے ہاتھ میں عموماً فائلوں کا پلندہ ہوتا جسے انھوں نے طے شدہ شیڈول کے مطابق دن میں سر انجام دینا ہوتا۔ یہی احساس ذمے داری تھا کہ وہ ہمیشہ ایک طرح کی جلدی میں ہوتے۔ عمومی گپ شپ یا ادھر ادھر کی باتوں میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ وقت کو یوں سنبھال کر استعمال کرنے کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر عام شخص کو میسر چوبیس گھنٹوں میں کئی گنا زیادہ کام سرانجام کر لیتے۔
وقت کی پابندی اور قدر کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ایک زندگی میں کئی زندگیوں کے برابر کام سرانجام کر سکتے۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور لاء کالج لاہور سے تعلیم پائی، بعد ازاں ہارورڈ یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کیا۔ وکالت کا آغاز کیا تو ساتھ ہی وزیٹنگ لیکچرر اور پروفیسر کے طور پر وقت دینا شروع کیا۔ بعد میں سول سروسز اکیڈمی کے ساتھ وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر منسلک رہے۔
لمز یونیورسٹی کی وزیٹنگ فیکلٹی کا بھی حصہ رہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی رہے، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین رہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج بھی رہے لیکن ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے استعفی دے دیا۔ کوڈ آف سول پروسیجر 1908 پر ان کی کتاب قانونی حلقوں میں معروف ترین کتاب ہے جس کے اب تک تیرہ ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
پیسہ کمانا ان کا مشن ہوتا تو وکالت کے ہو کر رہ جاتے مگر ان کی زندگی کا شاندار حصہ سوشل ویلفیئرکی خدمات ہیں۔ ایک درجن کے لگ بھگ اداروں کے ٹرسٹی، ممبر اور عہدیدار رہے۔
خصوصی بچوں کے لیے قائم امین مکتب، اپنی طرز کا منفرد آنکھوں کے اسپتال دی لیٹن رحمت اللہ ٹرسٹ، پنجاب ویلفیئر ٹرسٹ برائے معذوراں، چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ، چلڈرن قرآن سوسائٹی، سینٹرل ماڈل بورڈ آف گورنر کے ممبر سمیت بہت سے اداروں میں آخری دم تک متحرک رہے۔
عرفان حسین خان بھی ایسی ہی ایک شاندار ہستی تھے جو ایک بامقصد اور مصروف زندگی جئے۔ معروف ترقی پسند اردو ادیب ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور مشہور ادیبہ حمیدہ اختر کے ہاں پیدا ہوئے۔ شعور کی آنکھ کھولی تو قلم کے ساتھ رشتہ بن گیا، انگریزی کے معروف جریدوں اور اخبارات میں لکھتے رہے۔ ملک میں آمریت کے دور میں جب زبان کھولنا بہت مشکل اور مہنگا تھا، اس دور میں وہ مختلف قلمی ناموں سے لکھتے رہے۔ شخصی آزادیوں اور دلیل کے ساتھ مکالمے کے حق میں عمر بھر لکھا۔ انتہائی نفیس اور وضع دار انسان؛ مطالعہ، سیاحت اور کلچر ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔
اکنامکس میں ماسٹرز کے بعد 1967 میں سول سروس کی ملازمت اختیار کی، تیس سال گزار کر 1997 میںقبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے بعد وہ نجی شعبے میں قائم ایک ٹیکسٹائل انسٹیٹیوٹ سے بطور بانی صدر وابستہ رہے مگر اصل مصروفیت لکھنا پڑھنا، سیاحت اور کھانے پینے کا شوق اور اس فن پر تبصرہ نگاری ہی رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کی اسپیچ رائٹر ٹیم کا حصہ بھی رہے۔ کچھ عرصہ پاکستانی سفارت خانہ واشنگٹن میں منسٹر انفارمیشن اور مختصر وقت کے لیے اقوام متحدہ میں سفارت کار بھی رہے۔
نائن الیون کے بعد کی مغربی دنیا میں ایک سوال بار بار گونجا کہ مسلمان ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔ انھوں نے2012 میں ایک نہات جامع، تحقیقاتی اور موثرکتاب لکھی؛Fatal Faultlines; Pakistan, Islam and the West ۔ اخباری کہانیوں اور پروپیگنڈے کے شور میں یہ ایک نہایت قابل قدر کارنامہ تھا۔ انھوں نے ایک طرف تومغرب کے قارئین کو باور کرانے کی کوشش کی کہ ان کا مسلمان معاشروں میں مجموعی تاثر کیا اور کیوں ہے؟ دوسری جانب انھوںنے مسلمان قارئین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کے بارے میں مغرب میں منفی تاثر کیوں ہے۔
تین سال قبل وہ ایک انتہائی منفرد قسم کے کینسر کا شکار ہوئے۔ بیماری کے باوجود باقاعدگی سے آخر دم تک ایک موقر انگریزی روزنامے میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے۔ اپنے ایک حالیہ کالم میں انھوں نے لکھا؛ مجھے اعتراف ہے کہ کم و بیش تین سال کی اذیت ناکی کے بعد اکثر جی میں آتا ہے کہ کاش مزید تکلیف کے بجائے خاموشی سے راہی عدم ہو جاؤں، مگر جب اپنی کھڑکی سے باہر اپنے لان میں درختوں، پھولوں اور پرندوںکو دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے کہ یہ سب دیکھنے کے لیے میں زندہ ہوں! زندگی کے سفر میں موت سب سے بڑی حقیقت ہے، اس سے ڈر کر جینا ہے یا اس کو با معنی اور بامقصد گزار کر اس کا ہاتھ پکڑنا ہے، یہ ہر انسان کا اپنا اختیار ہے۔