نازک صورت حال

معصوم لوگوں کے بے دریغ قتل کرنے اور امن تباہ کرنے پر پاک فوج کو آپریشن کرنا پڑا۔


عثمان دموہی December 20, 2020
[email protected]

دسمبر کا مہینہ ہم پاکستانیوں کے لیے غم کا مہینے ہے۔ 1971 میں دسمبر کی سولہ تاریخ کو ملک ٹوٹا اور 2014 کے دسمبر کی اسی تاریخ کو اے پی ایس کا دلخراش سانحہ پیش آیا۔ ان دونوں سانحات کو ہم کبھی نہیں بھلا سکتے، مگر ان دونوں سانحات کا محرک بھارت تھا، جہاں تک ملک کے ٹوٹنے کا معاملہ ہے تو کوئی ملک اس وقت تک نہیں ٹوٹ سکتا جب تک اس کے اپنے ہی لوگ دشمن کا آلہ کار بن کر وہاں دشمنی پر کمربستہ نہ ہو جائیں اور بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔

اگر مجیب الرحمٰن بھارت سے ساز باز کر کے بنگالیوں کو علیحدگی کا راستہ نہ دکھاتا تو ملک ہرگز نہ ٹوٹ پاتا۔ یہ حقیقت ہے کہ مجیب الرحمٰن اگرتلہ میں بھارت کے ساتھ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا معاہدہ کر چکا تھا۔ ایوب خان نے اسے اس سازش میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا اور تب سے ہی اس پر نظر رکھی جا رہی تھی مگر مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے اگرتلہ سازش کیس کو مذاق سمجھا اور اسے آمر کی جانب سے عوامی لیگ کو کرش کرنے کی کوشش خیال کیا اور پھر مجیب کو قید سے بھی چھڑا لیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کے چھ نکات ہی اس بات کے غماز تھے کہ وہ بنگالیوں کو علیحدگی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتا تھا۔ افسوس کہ اس کے چھ نکات کو بھی بعض سیاستدانوں نے آمر کے خلاف بغاوت تو قرار دیا مگر انھیں ملک کے خلاف بغاوت نہ سمجھا۔ مجیب اپنے انتخابی جلسوں میں مغربی پاکستان کے خلاف کھل کر زہر اگلتا رہا اور بھارتی ''را'' اس کا ساتھ دیتی رہی۔ جب وہ بنگالیوں کو پاکستان کے خلاف ابھارنے میں کامیاب ہو گیا تو بھارت نے اپنی فوج کو مکتی باہنی کے بھیس میں مشرقی پاکستان میں داخل کرکے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔

معصوم لوگوں کے بے دریغ قتل کرنے اور امن تباہ کرنے پر پاک فوج کو آپریشن کرنا پڑا جس کے جواب میں بھارت نے باقاعدہ مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا اور پاک فوج کو چاروں طرف سے گھیر لیا جس کے نتیجے میں پاک فوج کو مجبوراً ہتھیار ڈالنے پڑے۔

بھارت نے پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش تو بنا دیا مگر اسے کیا ملا۔ آج مجیب الرحمٰن کی بیٹی حسینہ واجد بھارت کو اپنا دشمن خیال کرتی ہیں اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دے رہی ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت موجودہ آئین کی 18 ویں ترمیم کی طرح کوئی آئینی شق موجود ہوتی تو کبھی بھی بنگلہ دیش نہ بنتا۔

حقیقت یہ ہے کہ آئین کی 18 ویں ترمیم نے صوبوں کو مکمل خودمختار بنا دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو اتنے اختیارات حاصل ہو چکے ہیں کہ وہ وفاق سے کھلی نافرمانی پر اتر آئے ہیں چنانچہ وفاق کی جانب سے کچھ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ اس ترمیم کو ختم کر دیا جائے یا پھر اس میں کچھ حفاظتی ترمیم کر دی جائے۔

دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اس وقت وفاق اور سندھ کے تعلقات میں 18 ویں ترمیم آڑے آ رہی ہے۔ اس کی مثال کراچی کے ساحل کے قریب واقع بنڈل جزیرے سے دی جا سکتی ہے۔ وفاق نے کچھ بیرونی سرمایہ کاروں کو اس جزیرے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے راضی کر کے اسے ہانگ کانگ کی طرز پر ایک جدید ترقی یافتہ مقام بنانے کا منصوبہ بنا لیا ہے ظاہر ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو اس غیر آباد بنجر جزیرے میں بہار آ جائے گی۔

یہاں کی ترقی سے کاروبار اور نوکریوں کے وافر مواقع پیدا ہوں گے جس سے سندھ کو بے انتہا فائدہ ہو گا اور صوبے کے سارے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے ساتھ ہی پورے ملک کو بھی فائدہ پہنچے گا مگر اسے کیا کہیے کہ سندھ حکومت نے وفاق کو صاف منع کر دیا ہے کہ وہ اس جزیرے کو کسی صورت بھی اس کے حوالے نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کی ملکیت ہے۔ اس کے ساتھ ہی صوبے بھر کے قوم پرستوں نے سندھ حکومت کی پیروی میں ریلیاں نکالنی شروع کر دی ہیں جن میں واضح طور پر نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ بنڈل آئی لینڈ سندھ دھرتی کا حصہ ہے جس پر کسی بھی صورت وفاق کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔

ایسی ہی صورت حال کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں پیش آ چکی ہے۔ اس ڈیم کی پیپلز پارٹی کی جانب سے مخالفت کے بعد سندھ کے قوم پرستوں نے اپنے زبردست احتجاج کے ذریعے پرویز مشرف کی حکومت کو اس ڈیم کی تعمیر سے روک دیا تھا۔ اب تو 18 ویں ترمیم کے ذریعے سندھ حکومت کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ اس کی رضامندی کے بغیر وفاق سندھ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ 18 ویں ترمیم نے دراصل صوبوں کو وہ طاقت اور ہمت عطا کر دی ہے کہ اگر واقعی مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ایسی آزادی حاصل ہوتی تو شاید وہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ منسلک رہتے۔

بہرحال اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پھر بنگلہ دیش جیسا سانحہ ملک کو پیش نہ آ جائے اور ملک بکھر کر رہ جائے۔ تاہم ابھی بھی ملک میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو ملک کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ملک میں حزب اختلاف کی جانب سے حکومت مخالف تحریک جاری ہے۔ عمران خان اور کئی وزرا بار بار کہہ رہے ہیں کہ حکومت گراؤ مہم میں ایسے عناصر شامل ہیں جو دشمن کے کہنے پر ملک میں انتشار کی فضا پیدا کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس وقت ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے چنانچہ قومی یکجہتی کی سخت ضرورت ہے۔ بھارت نے پاکستان پر حملہ کرنے کا پلان تیار کر رکھا ہے اور وہ کسی بھی وقت پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔

اس وقت حکومت کو بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے رویے میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل حکومت کے سخت رویے کی وجہ سے ہی حزب اختلاف سخت رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حکومت کو حزب اختلاف کی مہم کو لانگ مارچ تک پہنچنے سے پہلے ہی معاملات کو سلجھا لینا چاہیے کیونکہ اگر ملک میں انارکی کی صورت حال پیدا ہوئی تو وہ دشمن کے لیے پاکستان پر جارحیت کرنے کا سازگار موقع فراہم کر سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں