آج پی ٹی آئی سرکار کارکردگی کیوں نہیں دکھا پارہی؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)
شام کے سائے گہرے ہورہے تھا، جب ایرانی بادشاہ اپنے محل میں داخل ہوا۔ اچانک اس کی نظر محل کے صدر دروازے پر موجود اس سپاہی پر پڑی جو سخت سردی میں پرانی سی وردی پہنے پہرہ دے رہا تھا۔ بادشاہ نے اس کے پاس رک کر پوچھا ''تمھیں سردی نہیں لگتی؟''
''سردی تو لگتی ہے۔ مگر کیا کروں میرے پاس کوئی گرم وردی نہیں ہے، اس لیے گزارہ کررہا ہوں۔'' سپاہی نے جواب دیا۔
''میں اندر جاکر ایک گرم وردی بھجواتا ہوں ''۔ بادشاہ نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔ سپاہی بہت خوش ہوا اور بادشاہ کو فرشی سلام کیا۔ اندر جاکر بادشاہ اپنا وعدہ بھول گیا۔ صبح کو اس سپاہی کی لاش مٹی پر انگلیوں سے لکھی گئی اس تحریر کے ساتھ ملی کہ بادشاہ سلامت میں اس وردی میں عرصے سے پہرہ دے رہا تھا، مگر آپ کے وعدے نے میری جان نکال دی۔
اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ وعدے کس قدر جان لیوا ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہوا پاکستانی قوم کے ساتھ ۔ 2018 کے آخر تک اسلامی جمہوریہ پاکستان اندھیروں سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ پھر یوں ہوا کہ عمران خان نے اس قوم کو ایسے خواب دکھائے کہ عوام کو ترقی کا یہ سفر ناکافی محسوس ہونے لگا۔ عوام کو پتہ چلا قطر سے ہم مہنگی گیس خرید رہے ہیں، ملک میں ہر روز 10 کروڑ روپے کی کرپشن ہورہی ہے، ٹیکس کلیکشن ناکافی ہے۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہیں۔ مگر آج ڈھائی سال کے بعد اہل پاکستان کو میاں صاحب یاد آرہے ہیں۔
2018 تک ہم ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کو برا کہتے تھے۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ عمران خان کے شاندار طرزِ حکومت کی بدولت ہمیں احساس ہوا ''کھاتا تھا تو لگاتا بھی تو تھا''۔
ہمیں جی ڈی پی کا چار اعشاریہ تین فیصد مالیاتی خسارہ بدترین محسوس ہوتا تھا لیکن اب پی ٹی آئی سرکار کی بہترین معاشی ٹیم کی بدولت 8.1 فیصد ہونے والا مالیاتی خسارہ ہمیں کہنے پر مجبور کررہا ہے ''تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد''۔
میاں صاحب کے دور حکومت میں مہنگائی کی شرح 6.17 فیصد تھی، اور اب جبکہ مہنگائی کی شرح 10.21 فیصد تک پہنچی تو ہمیں میاں صاحب یاد آئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قوم سابقہ دور کو عمران خان کی ناکامی کی بدولت یاد کرنے پر مجبور ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ اپنی جان کو خطر ے میں ڈال کر پی ڈی ایم کے جلسوں میں شریک نہ ہوتے۔ خان صاحب کو شاید یہ یقین ہی نہیں تھا کہ انہیں حکومت مل جائے گی، اس لیے وہ بہترین معاشی ٹیم تیار کرنے کے بجائے اچھی ٹیم کے دعوے کرتے رہے۔ مگر جب حقیقت کھلی تو بقول شاعر:
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
گزشتہ دور حکومت میں بیروزگار افراد کی تعداد 37 لاکھ 90 ہزار تھی، جو مالی سال 21-2020 میں 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ جب کہ کچھ ذرائع تو یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ بیروز گار افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہوجائے گی۔ اور تو اور میاں صاحب کے دور میں خواندگی کی شرح 60.7 فیصد تھی جو موجود ہ حکومت کے علم دوست اقدامات کی بدولت (بقول وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود) 58 فیصد ہوگئی ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ آج پی ٹی آئی سرکار کارکردگی کیوں نہیں دکھا پارہی؟ جب کہ بندہ تو ایماندار ہے۔ آج کرپشن کیوں کم نہیں ہورہی؟ جب کہ ٹاپ لیڈرشپ تو کرپشن نہیں کررہی۔ آج ملک ترقی کی شاہراہ پر واپسی کی جانب کیوں گامزن ہے؟ جب کہ لیڈر تو مخلص ہے۔ تو اس کی صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ خان صاحب نے 2013 کے انتخابات کے بعد اپنے قریب ترین ساتھیوں کی بات مان کر نمک کے ساتھ نمک ہونے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے دیگر سیاسی قائدین کی طرح کرپٹ، نااہل، نکمے، چور، ڈاکو، لٹیرے، ہر کسی کو بس اس خوبی کی بنیاد پر اپنے ساتھ شامل کرلیا کہ وہ الیکشن جیت سکتا ہے۔ آپ کے چاہنے والوں نے اس پر احتجاج بھی کیا۔ الیکشن سے قبل ایک پروگرام کے دوران کالج کی ایک طالبہ نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کرپٹ لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کررہے ہیں، آپ تبدیلی کیسے لائیں گے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ہم ایسا نظام بنائیں گے جس میں کوئی کرپشن نہیں کرسکے گا۔ آج ڈھائی سال گزرنے کے بعد آپ سے مایوس ہوکر قوم آپ کے متبادل کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اگر خان صاحب اور ان کی معاشی ٹیم اہل ہوتی، اگر خان صاحب نے ہوم ورک کیا ہوتا، اگر پی ٹی آئی سرکار عوام سے ایسے وعدے کرتی جنہیں وہ پورا بھی کرسکتی، انہیں یہ دعویٰ نہ کرنا پڑتا کہ انہیں پی ڈی ایم کے جلسوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر پی ڈی ایم کے جلسوں سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑرہا تو وہ قبل از وقت سینیٹ الیکشن کی طرف کیوں جارہے ہیں؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ خان صاحب اپنی سمت درست کریں۔ اپوزیشن کا صفایا کرنے کے بجائے اپنے اردگرد موجود مفاد پرستوں کا صفایا کریں۔ آپ نے گزشتہ ڈھائی سال کے دوران اپوزیشن کو دبا کر دیکھ لیا، اور کچھ حاصل نہ ہوا۔ اب آپ براہِ کرم اپوزیشن کو ذہن سے نکال کر ملکی حالات پر توجہ دیجئے۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، بھوک، افلاس، 50 لاکھ گھر، 5 لاکھ نوکریوں، ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ دیجئے۔ وگرنہ وہ دن دور نہیں جب آپ کے اردگرد موجود پرندے اڑ جائیں گے اور آپ اگر نیب سے بچ بھی گئے تو بنی گالہ میں حسرت و یاس کی تصویر بنے اپنے کتوں کے ساتھ وقت گزار رہے ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔