فہد مصطفیٰ کی پاکستانی ایکتا کپور بننے کی کوشش

پاکستانی ڈراموں میں کہانی کو بلاوجہ کھینچا نہیں جاتا، بلکہ معاشرے کی عکاس حقیقت پر مبنی کہانیاں دکھائی جاتی ہیں


زنیرہ ضیاء December 27, 2020
فہد مصطفیٰ پاکستانی ڈراموں کو بھارتی ڈراموں کی ڈگر پر لے جانے کے مشن پر چل پڑے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ایک زمانہ تھا جب تمام پاکستانیوں کو اسٹار پلس نے اس طرح اپنی مٹھی میں جکڑا ہوا تھا کہ شام 7 سے رات 12 بجے تک ہر گھر سے صرف ''کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی''، ''کسوٹی زندگی کی'' اور ''کُم کُم'' جیسے ڈراموں کی آوازیں آتی تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی ڈراما ایسا نہیں تھا جس کی 700 یا 800 سے کم اقساط ہوں۔ بھارتی ڈراما میکرز کا ایک ہی مقصد تھا: اگر ڈراموں کی ریٹنگ آرہی ہے تو چلاؤ... اور پاکستانیوں کی ایک نسل ان ہی ڈراموں کو دیکھتے ہوئے جوان ہوگئی۔

ان ڈراموں میں ایسا کیا تھا کہ خواتین اور بچے ان کے پیچھے پاگل تھے؟ ساس بہو کی سازشیں، جادو ٹونا، لیکن سب سے کامیاب فارمولا تھا پلاسٹک سرجری سے چہرہ بدل کر اچھے خاصے اداکار کی جگہ زبردستی کسی دوسرے اداکار کو ڈرامے میں گُھسانا۔ بھارت کا ایسا کون سا ڈراما ہے جس میں اداکاروں کا پلاسٹک سرجری کے ذریعے چہرہ نہ بدلا گیا ہو، اور اسی چکر میں مزید 200 ایپی سوڈ نکال دیے جاتے تھے۔



اسٹار پلس پر دکھائے جانے والے ڈرامے ہوں، سونی ٹی وی پر، زی ٹی وی پر یا کسی اور بھارتی چینل پر، تقریباً تمام ڈراموں کی کہانی بالکل یکساں ہوتی ہے۔ صرف اداکار بدل جاتے ہیں۔ اور ان تمام بے ہودہ، بکواس کہانیوں والے ڈراموں کے پیچھے صرف ایک عورت تھی ''ایکتا کپور''۔



ایکتا کپور نے ایک زمانے میں بھارتی چینلز پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ لمبے لمبے چلنے والے تمام ڈراموں کی خالق یہی محترمہ تھیں۔ جنہوں نے بھارتیوں کے ساتھ پاکستانیوں کو بھی اپنے بےسروپا کہانیوں والے بکواس ڈراموں کے پیچھے پاگل کیا ہوا تھا۔

لیکن پھر لوگ تنگ آگئے۔ کہاں تک ایک ہی کہانی کو ہر ڈرامے میں دیکھتے۔ بار بار پلاسٹک سرجری سے چہرہ بدل کر اچھے خاصے کردار کو برباد ہوتے ہوئے دیکھتے۔ اور جس طرح لوٹ کر بدھو گھر کو آتے ہیں پاکستانی بھی بھارتی ڈراموں سے جان چھڑا کر اپنے دیس کے ڈراموں کے پاس واپس آگئے۔

پاکستانی ڈراموں کی یہ خاصیت ہے کہ یہاں ڈراموں کو بلاوجہ کھینچا نہیں جاتا۔ معاشرے کی عکاسی کرتی ہوئی حقیقت پر مبنی کہانیاں دکھائی جاتی ہیں۔ نہ تو ڈراموں میں دھوم تانا نانا کے ذریعے بلاوجہ کی سنسنی پھیلائی جاتی ہے اور نہ ہی ڈرامے اتنے لمبے چلتے ہیں کہ کرداروں کو پلاسٹک سرجری کے ذریعے بدلنا پڑے۔

لیکن فہد مصطفیٰ ہیں ناں! اچھے خاصے پاکستانی ڈراموں کو بھارتی ڈراموں کی ڈگر پر واپس لے جانے کے مشن پر مامور۔ فہد مصطفیٰ نے سوچا کیا ہوا، اگر پاکستانیوں نے بھارتی ڈراموں کو دیکھنے سے انکار کردیا ہے۔ میں ہوں ناں! میں بناؤں گا ایسے ڈرامے جو انہیں پھر سے بھارتی ڈراموں کی یاد دلائیں گے۔ اور انہوں نے ڈراما نند بنادیا۔



ابتدا میں تو نند ڈرامے کی کہانی بہت اچھی تھی اور اس میں تقریباً وہی کچھ دکھایا جارہا تھا جو ہمارے 60 فیصد گھروں میں ہوتا ہے۔ یعنی نند بھاوج کی لڑائیاں، سازشیں اور جھگڑے۔ لوگوں کو بھی یہ ڈراما پسند آیا اور ڈرامے کی ریٹنگ آنے لگی۔ بس پھر کیا تھا ریٹنگ کے چکر میں فہد مصطفیٰ نے اچھے خاصے اپنے اختتام کو پہنچے ہوئے ڈرامے کو برباد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ڈرامے کی کہانی نہ صرف بلاوجہ بڑھائی گئی بلکہ اس میں جادو ٹونا بھی شامل کیا گیا۔ ڈرامے کو طول دینے کے لیے ایک بار پھر گھر کی عورتوں کے درمیان سازشیں دکھائی گئیں۔ جس میں تمام خواتین مل کر ایک بیچاری مظلوم بہو کے خلاف سازشیں کرتی نظر آئیں۔ لیکن حد تو یہ ہوگئی کہ ڈرامے کے سب سے مضبوط کردار 'گوہر' یعنی فائزہ حسن کے کردار کو ڈرامے میں رپلیس کرنے کے لیے ایکتا کپور کا فارمولا استعمال کیا گیا، یعنی ''پلاسٹک سرجری''۔

جی ہاں مبارک ہو دوستو! پاکستانی ڈرامے بھی اب ایکتا کپور اور اسٹار پلس کی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ کیونکہ ڈراما سیریل نند میں اب فائزہ حسن کے کردار کو جویریہ سعود آگے بڑھاتی ہوئی نظر آئیں گی۔ اور یہ بدلاؤ ہوا ہے پلاسٹک سرجری کے ذریعے۔ یعنی پلاسٹک سرجری کے ذریعے راتوں رات فائزہ حسن کی جگہ جویریہ سعود کو بدل دیا گیا۔ سونے پر سہاگہ یہ ڈراما اپنی 100 اقساط مکمل کرنے جارہا ہے اور چونکہ ڈرامے میں ایک نئے کردار کی انٹری ہوگئی ہے تو ناظرین کو مزید سازشیں دیکھنے کو ملیں گی، اس لیے ہوسکتا ہے کہ یہ ڈراما مزید 100 اقساط اور پوری کرلے۔ اس لیے تیار رہیے گا ڈرامے نند کو ابھی مزید جھیلنے کےلیے۔



فہد مصطفیٰ سے میرا صرف ایک ہی سوال ہے، وہ اپنے ڈراموں میں آخر کیا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں؟ پاکستانی عوام جو بغیر کہانیوں والے لمبے لمبے بھارتی ڈراموں سے جان چھڑا چکے تھے، کیا اب اسی فارمولے پر بننے والے پاکستانی ڈراموں کو قبول کرپائیں گے۔ یہ سچ ہے کہ ٹی وی پر لوگوں کو وہی دکھایا جاتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ جب لوگوں کے پاس بیہودہ مواد کے سوا اور کچھ ہوگا ہی نہیں دیکھنے کے لیے تو وہ یہی سب کچھ دیکھیں گے ناں۔ بطور پروڈیوسر یہ آپ کی ذمے داری ہے کہ آپ لوگوں کو اچھا مواد دکھائیں اور خدارا ریٹنگ کے چکر میں ایکتا کپور نہ بن جائیں۔



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔